ما من نفسٍ منفوسةٍ اليوم يأتي عليها مائة سنة وهي يومئذٍ حيّة1
اس میں بیان کیا گیا کہ سو سال میں تمام جاندار انسان اور غیر انسان سب مرجائینگے۔اور جب یہ ارشاد فرمایا گیا تو اس وقت حضرت عیسی علیہ السلام بھی زندہ تھے لہذا سو سال بعد وہ بھی اس عموم میں داخل ہوگئے لہذا حیات عیسی کا عقیدہ رکھنا درست نہیں ۔
یہ جو الفاظ آپ نے ذکر کیے ہیں یہ کاملا الفاظ نہیں بلکہ علی الارض کو جان بوجھ کو حذ ف کردیا ہے تاکہ اپنا مقصود ثابت ہوسکیں ۔ حدیث کے درست الفاظ یہ ہے کہ :
ما علی الارض منفوسة فی اليوم يأتي عليها مائة سنة وهي يومئذٍ حيّة
آج جتنے لوگ زمین پر موجود ہیں سو سال تک ان میں سے کوئی باقی نہیں رہیگا ۔
صحیح ترجمہ یہ ہے کہ زمین میں آج کے لوگوں کی جگہ غلط ترجمہ آج کوئی جاندار کرکے اس سے وفات ثابت کرنے کی کوشش کی ہے ۔ یہی روش احمدیہ پاکٹ بک والے نے اپنائی ہے حدیث کے الفاظ کو حذف بھی کیا اور ترجمہ بھی اپنے مطابق کیا ۔2
اگر یہی صحیح ترجمہ ہے تو پھر ہر جاندار میں تو حضرت موسی علیہ السلام بھی شامل ہے اور ملائکہ بھی شامل ہیں تو کیا یہ سب بھی سو سال میں فوت ہوگئے تھے تو جس دلیل سے آپ حضرت موسی علیہ السلام اور فرشتوں کو بچاؤگے ہماری طرف سے بھی وہی دلیل حضرت عیسی علیہ السلام کے بارے میں ہوگی۔ حدیث کے درست الفاظ اور درست ترجمہ خود مرزا صاحب نے بھی اپنی ہی کتاب میں لکھ دیا ہے۔
چنانچہ ملاحظہ ہو ، مزرا صاحب لکھتے ہیں کہ:
ما علی الارض من نفس منفوسة یاتی علیھا مائةسنة وھی یومئذ حیة
یعنی روایت ہے جابر سے کہ کہا سنا میں پیغمبر خدا ﷺ سے کہ فرماتے تھے مھینہ بہر پہلے اپنی وفات سے جو تکمیل مقاصد دین اور اظہار بقایا اسرار کا وقت تھا کہ تم مجھ سے پوچھتے ہو کہ قیامت کب آئیگی اور بجز خدا تعالی کسی کو اس کا علم نہیں اور میں اللہ تعالی کی قسم کھاتا ہو کہ روئے زمین پر کوئی ایسا نفس نہیں جو پیدا کیا گیا ہو اور موجود ہو پھر آج سے سو برس اس پر گذرے اور وہ زندہ رہے۔ 3
لہذا جب حضرت عیسی علیہ السلام زمین پر موجود نہیں تھے تو اس سے آپ کی وفات بھی ثابت نہیں ہوتی۔
یہ حدیث اہل ارض کے بارے میں ہیں نہ کہ اہل سماء کے بارہ میں چنانچہ بعض روایتوں میں علی ظہر الارض کی قید لگی ہے اور اہل ارض میں سے بھی باعتبار اکثر کے فرمایا ورنہ خود ابلیس بھی ایک نفس منفوسۃ ہے اور اب تک زندہ ہے مقصود اصلی اس حدیث کا یہ فرمانا ہے کہ ایک صدی کے بعد یہ قرن گذر کر دوسرا قرن لگ جائیگا اور زمانہ کا نیا رنگ لگ جائیگا بعض لوگ اس قرن کے زندہ بھی رہیں پس حضرت عیسی اس حدیث میں داخل نہیں کیونکہ آپ اس وقت اہل سماء میں سے تھے اور اگر ان کو باعتبار ما کان کے ان کو علی ظہر الارض مانا جائے تو جواب دیا جائیگا یہ حدیث باعتبار اکثر کے ہے نہ باعتبار کل کے حضرت خضر کی حیات گواہ ہے ۔
اللہ تعالی نےعیسی علیہ السلام کو اللہ تعالی نے ا س دنیا میں نہیں رکھا جس میں یہاں کے قدرتی قوانین چل رہے ہیں جو یہاں کے مناسب ہے بلکہ ان کو آسمان پر اٹھایا گیا اور وہاں کا نظام حیات یقینا یہ نہیں ہے جو ہماری اس دنیا کا ہے ۔