قادیانی حضرات امام مالک کی طرف ایک عبارت منسوب کرتے ہے کہ وہ حیات عیسی علیہ السلام کے قائل نہیں تھے:
وفی العتیبة قال مالک مات عیسی 1
عتبیہ میں ہے کہ امام مالک نے فرمایا کہ عیسی علیہ السلام فوت ہوگئے ۔
قادیانی بزرگوں کے اقوال کیوں پیش کرتے ہیں حال آنکہ بزرگوں کے اقوال قادیانیوں کے نزدیک مستقل حجت نہیں چنانچہ مرزا صاحب لکھتے ہے کہ :
اقوال سلف و خلف در حقیقت کوئی مستقل حجت نہیں ۔ 2
تو قادیانی بزرگان امت پر یہ الزام کیوں لگاتے ہیں اور کہ وہ وفات کے قائل تھے اور ان کے اقوال کو بطور دلیل کیوں پیش کرتے ہیں ۔
مرزا صاحب کے مطابق رفع و نزول کا مسئلہ 13 صدیوں تک چھپا رہا اور یہ مرزا صاحب پر ظاہر ہوا ۔3
اور مرزا صاحب نے یہ مانا ہے کہ مسلمانوں کا 1300 سال سے عقیدہ رفع و نزول کا تھا ۔4
اب کیا اس کے بعد بھی سلف کے اقوال سے حجت پکڑنا درست ہے ۔
تو اس کے متعدد جوابات ہیں:
قادیانی جن کتابوں کا حوالہ پیش کرتے ہیں یعنی مجمع البحار اور اکمال اکمال المعلم میں یہ بات لکھی ہے۔ تو دراصل اکمال اکمال المعلم اور مجمع البحار کے مصنف نے یہ بات ایک اور کتاب " العتبية " سے نقل کی ہے۔ جیسا کہ عبارت میں بھی یہ بات لکھی ہے۔
اور " العتبية " امام مالک کی کتاب نہیں ہے بلکہ اس کتاب کے مصنف کا نام "محمد عتبی قرطبی " ہے۔ جن کی وفات 255 ہجری میں ہوئی۔
اس کے علاوہ امام مالک سے منسوب اس قول کی کوئی سند نہیں بلکہ یہ بھی معلوم نہیں کہ مالک سے مراد امام مالک ہیں یا کوئی اور مالک ہے۔ پس جب کسی قول کی کوئی سند بھی موجود نہ ہو اور یہ بھی معلوم نہ ہو کہ جس کی طرف قول منسوب کیا جا رہا ہے۔ اس سے وہی شخص مراد ہے یا کوئی اور مراد ہے لہذا اس عقیدے کے مسئلے کو ایک مجھول روایت سے ثابت نہیں کیا جاسکتا ۔تو امام مالک پر وفات سید نا عیسی کا قائل ہونے کا الزام لگانا سراسر بد دیانتی ہے۔
قادیانی امام ابی کی کتاب " اکمال اکمال المعلم " کا جو حوالہ پیش کرتے ہیں۔ اس کی پوری عبارت پیش نہیں کرتے بلکہ صرف ایک جملہ نقل کر دیتے ہیں۔
آیئے پوری عبارت دیکھتے ہیں تاکہ قادیانیوں کا دجل پوری طرح ظاہر ہو جائے۔ کتاب کے مصنف نے اس جگہ باب باندھا ہے۔
بَابُ نُزُولِ عِيسَى بْنِ مَرْيَمَ
سید نا عیسی کے نازل ہونے کے بارے میں باب
آگے پوری عبارت یہ ہے۔
الأكْثَرُ أَنَّهُ لَمْ يَمُتْ بَلْ رَفَعَ، وَفِي الْعَتَبِيَّةِ قَالَ مَالِكَ مَاتَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ ثَلَاثُ وَ ثَلَاثِينَ سَنَةً (اِبْنُ رُشْدٍ) يَعْنِي بِمَوْتِهِ خُرُوجَهُ مِنْ عَالَمِ الْأَرْضِ إِلَى عَالَمِ السَّمَاءِ قَالَ وَ يَحْتَمِلُ أَنَّهُ مَاتَ حَقِيقَةً وَ يَحْيَا فِي آخِرِ الزَّمَانِ إِذَا لَا بُدَّ مِنْ نُزُوْلِهِ لِتَوَاتُرِ الْأَحَادِيْثِ بِذَلِك 5
اکثریت کا یہ عقیدہ ہے کہ ان (سید نا عیسی) پر موت نہیں آئی بلکہ ان کو اٹھا لیا گیا۔ " عتبیہ " میں ہے کہ مالک نے کہا کہ 33 سال کی عمر میں عیسی فوت ہو گئے ۔ امام ابن رشد نے کہا ہے کہ یہاں موت سے مراد ان (سید نا عیسی ) کا زمین سے نکل کر آسمان پر جانا ہے۔ یا اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ حقیقت میں فوت ہو گئے ہوں۔ لیکن آخری زمانہ میں دوبارہ زندہ ہوں گے ۔ کیونکہ متواتر احادیث بتاتی ہیں کہ انہوں نے ضرور نازل ہونا ہے۔“
یہاں اس عبارت میں امام مالک سے منسوب قول کی وضاحت پوری طرح موجود ہے۔ کہ اس قول سے مراد یہ ہے کہ سید نا عیسی زمین سے آسمان پر چلے گئے ۔ اور دوسری بات کہ بالفرض اگر اس قول سے مراد حقیقی موت بھی لیا جائے تو پھر بھی سید نا عیسی قرب قیامت زندہ ہو کر زمین پر ضرور تشریف لائیں گے کیونکہ اس بارے میں متواتر احادیث موجود ہیں۔
لیجئے پوری عبارت سے قادیانی دجل کی عمارت پوری طرح زمین بوس ہو گئی ۔
اسی کتاب " اکمال اکمال المعلم " میں امام مالک کا ایک قول یہ بھی نقل کیا گیا ہے۔
وَفِي الْعَتَبِيَّةِ قَالَ مَالِكَ بَيْنَمَا النَّاسُ قِيَامُ يَسْتَصِفُوْنَ لِإِقَامَةِ الصَّلُوةِ فَتَغَشَّاهِمْ غَمَامَةٌ فَإِذَا عِيسَى قَدْ نَزَلَ
عتبیہ میں ہے کہ مالک نے کہا کہ اس دوران لوگ نماز کے لئے صفیں بنارہے ہوں گے کہ یکایک ان پر ایک بدلی چھا جائے گی۔ اور اچانک عیسی نازل ہو جائیں گے۔ 6
اس میں امام مالک کا عقیدہ کتنا واضح ہے کہ آپ نزول کا ذکر کررہے ہے اور نزول اور حیات لازم و ملزوم ہے کہ جب نزول ہوگا تو زندہ بھی ہے لہذا امام مالک رفع ونزول کے قائل ہیں کیونکہ ا صل بحث آپ کے نزول کی ہی ہیں حیات و وفات کا مسئلہ نزول یا عدم نزول کی تمھید ہے کیونکہ جو لوگ حیات کے قائل ہیں وہ ان کے نزول ہی کی خاطر قائل ہیں اور جو لوگ وفات کے منکر ہیں ان کی اصل دلچسپی بھی انکار نزول سے ہی وابستہ ہے۔
اکمال اکمال المعلم میں امام مالک کا یہ قول بھی نقل کیا ہے ۔
اگر اس قول کی کوئی سند معتبرہ بھی ہوتی اور امام مالک کی طرف اس قول کی سند میں صدق بھی ہوتا پھر امام مالک وفات کے قائل ثابت نہیں ہوسکتے تھے کیونکہ مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ :
مات کے معنی لغت میں نام (نیند)بھی ہے۔7
موت کے معنی نیند اور بے ہوشی کے بھی ہیں۔8
تو اب اس سے صرف یہی ثابت ہوتا ہے کہ آپ نیند یا بے ہوشی کی حالت میں آسمان پر اتھائیں گئے۔
عتیبہ میں ہی امام مالک کی تصریح کے مطابق صحابہ کرام کو حضرت عیسی کی تشریف آوری پر اس قدر وثوق تھا کہ وہ نوجوانوں کو ان کی خدمت میں سلام پیش کرنے کی وصیت کیا کرتے تھے کیا امام مالک صحابہ کے خلاف عقیدہ رکھینگے۔ ذکر ہے کہ:
وفی العتیبة كان ابو ھریرة یلقی الفتی الی الشاب فیقول یا این اخی انک عسی ان تلقی عیسی بن مریم فاقواہ منی السلام 9
امام مالک کے مقلدین آج بھی دنیا میں کثیر تعداد میں موجود ہے اور رفع ونزول کے قائل ہیں اگر امام مالک کا وفات کا عقیدہ تھا تو مقلدین کا حیات کا کیوں ہیں اس سے پتا لگا کہ مقلدین کا وہی عقیدہ ہے جو امام مالک کا ہے۔