آیت بَل رَفَعَہُ اللہُ میں لفظ "بل" ابطالیہ نہیں ہوسکتا ۔ کیونکہ اس طرح کا لفظ "بل " قرآن پاک میں نہیں آسکتا۔
پھر تو یہ مطلب ہوا کہ کافر یہود سچے ہیں جو کہتے تھے ہم نے مسیح کو قتل وغیرہ کر دیا۔
تم نے خود بحوالہ کتب نحو لکھا ہے کہ:
جب خدا کفار کا قول نقل کرے تو بغرض تردید، اس میں "بل" آ سکتا۔1
یہی معاملہ اس جگہ پر ہے۔ خود مرزا قادیانی مانتے ہیں کہ اس جگہ لفظ بَل تردید قول کفار کے لیے ہے۔ چنانچہ لکھتے ہے کہ:
"مسیح مصلوب مقتول ہو کر نہیں مرا۔۔۔۔۔۔۔ بلکہ خدا تعالی نے عزت کے ساتھ اس کو اپنی طرف اٹھالیا۔"2
قرآن مجید میں قول کفار کی تردید کے لیے متعدد بار بل ابطالیہ استعمال ہوا ہے۔
وَقَالُوا اتَّخَذَ اللّٰهُ وَلَدًا ۙ سُبْحٰنَهٗ ۭ بَلْ لَّهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ 3
"اور کچھ کہتے ہیں کہ اللہ رکھتا ہے اولاد وہ تو سب باتوں سے پاک بلکہ اسی کا ہے جو کچھ آسمان اور زمین میں۔"
وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَـدًا سُبْحٰنَهٗ ۭ بَلْ عِبَادٌ مُّكْرَمُوْنَ 4
"اور کہتے ہیں رحمن نے کر لیا کسی کو بیٹا وہ ہر گزاس لائق نہیں لیکن وہ بندے ہیں جن کو عزت دی ہے۔"
اَمْ يَقُوْلُوْنَ بِهٖ جِنَّةٌ ۭ بَلْ جَاۗءَهُمْ بِالْحَقِّ 5
"یا کہتے ہیں اس کو سودا ہے کوئی نہیں وہ تو لایاہے ان کے پاس سچی بات۔"
اَمْ يَقُوْلُوْنَ افْتَرٰىهُ ۚ بَلْ هُوَ الْحَـقُّ مِنْ رَّبِّكَ 6
"کیا کہتے ہیں کہ یہ جھوٹ باندہ لیا ہے کوئی نہیں وہ ٹھیک ہے تیرے رب کی طرف سے۔"