جب حضرت عیسی علیہ السلام آسمان پر موجود ہے تو پھر کیا کھاتے پیتے ہونگے کیونکہ عیسی علیہ السلام انسان ہے اور انسان کھائے بغیر زندہ کیسے رھ سکتا ہے ؟
مرزا صاحب حضرت موسی علیہ السلام کو آسمان پر زند ہ مانتے ہے چنانچہ لکھتے ہے کہ:
یہ وہی موسی مرد خدا ہے جس کے متعلق قرآن میں اشارہ کہ وہ زندہ ہے اور ہم پر فرض کیا گیا ہے کہ ہم اس بات پر ایمان لاوے کہ وہ زندہ آسمان پر موجود ہے اور وہ مردوں میں سے نہیں ۔1
مرزا صاحب دوسری جگہ لکھتے ہیں کہ:
بل حیاةكلیم الله ثابت بنص القرآن الکریم الا تقرہ فی القرآن ما قال الله عزوجل فلا تکن فی مریة من لقائه؟ وانت تعلم ان هذه الایة نزلت فی موسی فھی دلیل صریح علی حیاة موسی علیه السلام لانه لقی رسول الله ﷺ والاموات لا یلاقون الا حیاء ولا تجد مثل هذہ الایات فی شان عیسی علیه السلام نعم جاء ذكر وفاته فی مقامات شتی 2
تو :
:جہاں سے حضرت موسی علیہ السلام کھاتے پیتے ہونگے وہیں سے حضرت عیسی علیہ السلام بھی کھاتے پیتے ہونگے ۔
دنیا میں آنے سے قبل جو خوراک حضرت آدم علیہ السلام کی تھی وہی خوراک حضرت عیسی علیہ السلام کی بھی ہوگی کیونکہ دونوں ایک ہی قبیل سے ہیں، جیسے: قرآن پاک میں ہے کہ :
اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰى عِنْدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ اٰدَمَ 3
خود مرزا صاحب نے اولیاء اللہ کی روحانی غذا کا اقرار کیا ہے،چنانچہ لکھتے ہیں کہ:
اس درجہ پر مومن کی روٹی خدا ہوتا ہے جس کے کھانے پر اس کی زندگی موقوف ہے اور مومن کا پانی بھی خدا ہوتا ہے جس کے پینے سے وہ موت سے بچ جاتا ہے اور اس کی ٹھنڈی ہوا بھی خدا ہوتا ہے جس سے اس کے دل کو راحت پہنچتی ہے۔4
قرآن سے ثابت ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی دعا پر آسمان سے مائدہ نازل ہوا پھر آسمان پر حضرت عیسی علیہ السلام کو کھانا پینا ملنا کیوں محال ہوگا ۔
علامہ شعرانی لکھتے ہیں کہ: کھانا پینا در اصل ان لوگوں کے لئے ضروری ہے جو اس دنیا میں رہتے ہے کیونکہ یہاں کی آب و ہوا کے اثر سے بدن کے اجزاء برابر تحلیل ہوتے رہتے ہیں اور غذا سے اس کا بدل فراہم ہوتا ہے ہماری اس دنیا اور ہماری اس زمین اور یہاں کی عام مخلوق کے لیے قدرت خداوندی نے یہی قانون رکھا ہے لیکن جس کو اللہ تعالی اس زمین سے آسمان پر اٹھالے تو اس کو اللہ تعالی کھانے پینے سے اسی طرح بے نیاز کردیتا ہے جس طرح فرشتے بے نیاز ہے اور وہاں اللہ کی حمد و تسبیح بھی ان کی غذا ہوجاتی ہے جس سے ان کی زندگی اور قوت برابر قائم رہتی ہے ۔5
اور یہ اللہ تعالی کی قدرت ہے کہ وہ اگر چاہئے تو ہماری اس دنیا میں کسی بندہ کو اس حال میں کردیں کہ وہ سینکڑوں برس تک کھانے پینے سے بے نیاز رہے قرآن پاک میں اصحاب کہف کا واقعہ بیان فرمایا گیا جو قرآن مجید کے بیان کے مطابق تین سو برس سے زیادہ بغیر کچھ کھائے پیے غار میں رہے۔
اگر کوئی کہے کہ انسان کا مزاج کا بغیر غذا رہنا ممتنع ہے تو کہا جائیگا کہ ظاہر ہے کہ یہ امتناع عقلی یا شرعی تو ہے نہیں صرف عادی ہے سو اللہ تعالی کو ہر طرح کی قدرت ہے ممکن ہے کہ اللہ تعالی مزاج کو بدل دیں کہ غذا کی حاجت ہی نہ رہیں دنیا میں جب ایک ملک سے دوسرے ملک میں جاکر بعض مقتضیات مزاج بدل جاتے ہیں تو آسمان و زمین کے خواص میں تو بہت فرق ہونا ممکن ہے بلکہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ زمانہ خروج دجال میں اہل ایمان کو کل یا بعض کو بجائے غذا کے صرف ذکر اللہ کافی ہوجایا کریگا ۔ نبی علیہ السلام فرماتے ہے کہ:
قال ﷺ یجزیھم مایجزي اھل السماء من التسبیح والتقدیس 6
اگر بدون غذا زندہ رہنا سمجھ نہ آتا ہو تو ہم کہیں گے کہ کیا آسمان پر اللہ تعالی غذا نہیں دے سکتے ۔