وَ قَالُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ لَكَ حَتّٰى تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْاَرْضِ یَنْۢبُوْعًااَوْ تَكُوْنَ لَكَ جَنَّةٌ مِّنْ نَّخِیْلٍ وَّ عِنَبٍ فَتُفَجِّرَ الْاَنْهٰرَ خِلٰلَهَا تَفْجِیْرًاَوْ تُسْقِطَ السَّمَآءَ كَمَا زَعَمْتَ عَلَیْنَا كِسَفًا اَوْ تَاْتِیَ بِاللّٰهِ وَ الْمَلٰٓىٕكَةِ قَبِیْلًااَوْ یَكُوْنَ لَكَ بَیْتٌ مِّنْ زُخْرُفٍ اَوْ تَرْقٰى فِی السَّمَآءِؕ-وَ لَنْ نُّؤْمِنَ لِرُقِیِّكَ حَتّٰى تُنَزِّلَ عَلَیْنَا كِتٰبًا نَّقْرَؤُه قُلْ سُبْحَانَ رَبِّیْ هَلْ كُنْتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوْلًا1
اور بولے کہ ہم ہرگزتم پر ایمان نہ لائیں گے یہاں تک کہ تم ہمارے لیے زمین سے کوئی چشمہ بہا دو یا تمہارے لیے کھجوروں اور انگوروں کا کوئی باغ ہو پھر تم اس کے اندر بہتی نہریں رواں کرویا تم ہم پر آسمان گرا دو جیسا تم نے کہا ہے ٹکڑے ٹکڑے یااللہ اور فرشتوں کو ضامن لے آؤ یا تمہارے لیے طلائی (سونے کا)گھر ہو یا تم آسمان میں چڑھ جاؤ اور ہم تمہارے چڑھ جانے پر بھی ہرگز ایمان نہ لائیں گے جب تک ہم پر ایک کتاب نہ اتارو جو ہم پڑھیں تم فرماؤ پاکی ہے میرے رب کو میں کون ہوں مگر آدمی اللہ کا بھیجا ہوا۔
اَوْ تَرْقٰى فِی السَّمَآءِؕ
یہ کفار کو بطور جواب کہا گیا کہ جس سے یہ فہم ہورہا ہے کہ جسم خاکی آسمان پر نہیں جاسکتا ۔
اس آیت میں تو یہ لکھا ہے کہ آسمان پر جانا انسانی قدرت سے بالا تر ہے لیکن خدا تعالی قادر ہے کہ جس نبی کو چائیے آسمان پر لے جائیں کون یہ کہتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام خود آسمان پر چلیں گئے بلکہ بل رفعہ اللہ الیہ ہے کہ اللہ تعالی انہیں اپنی قدرت کاملہ سے آسمان پر لے گیا اور کفار مکہ کہ یہ سوالات کسی غرض صحیح پر مبنی نہیں تھے بلکہ بلکہ محض تعنت اور عنا د پر تھے اس کے ظاہر ہونے پر ایمان لانا ہرگز مقصود نہ تھا بلکہ وہ جس طرح اور دعوے کرتے تو انہوں یہ بھی کردیا اور ان دعووں میں بہت سے وہ بھی تھے جو ہوسکتے تھے اور پہلے انبیاء کے لئے ہوئیں تھے لیکن چونکہ محض یہ عناد پر تھے جس طرح شق القمر دیکھ کر بھی وہ ایمان نہیں لائیں لیکن اگر فرمائشی معجزات کو پورا بھی کردیا جاتا پھر ان کا ایمان نہ لانا کا نتیجہ یہ تھا کہ وہ بلکل تباہ اور برباد ہوکر رہ جاتے کیونکہ یہ عادت چلی آرہی ہے کہ اقتراحی معجزات کے بعد امہال اور استدراج نہیں ہوتا جیسا کہ پہلی امتوں کے ساتھ ہوچکا ہے۔
کفار کے سوال پر یہ کہنا کہ میں ایک بشر ہو اس سے یہ کہاں سے ثابت ہوگیا کہ بشر کا آسمان پر جانا محال ہے یا انسان کا آسمان پر جانا سنت الہی کے خلاف ہے بلکہ یہ ہے کہ کسی انسان کے ہاتھ میں نہیں کہ وہ آسمان پر چڑھ جائیں ہاں جب خدا چاہئے تو آسمان پر لے جاتا ہے عیسی علیہ السلام کو لے گیا اور نبی ﷺ کو بھی سیر کرائی ۔
یہاں پر بات اللہ تعالی کے لے جانے کی ہے کیا کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ اللہ تعالی میں قدرت نہیں جس طرح اللہ تعالی نبی ﷺ کو خود معراج پر لے گیا اسی طرح عیسی علیہ السلام کو بھی لے گیا۔
مرزا صاحب کے نزدیک حضرت موسی علیہ السلام آسمان پر زندہ ہے تو پھر موسی علیہ السلام کیسے آسمان پر زندہ چلیں گئے 2