قرآن پاک میں ہے کہ:
قَالَ فِیْهَا تَحْیَوْنَ وَ فِیْهَا تَمُوْتُوْنَ وَ مِنْهَا تُخْرَجُوْنَ1
اسی میں جیؤ گے اور اسی میں مرو گے اور اسی میں سے اٹھائے جاؤ گے۔
اس آیت میں بیان کیا گیا ہے کہ انسان زمین پر ہی فوت ہوتا ہے اور زمین پر ہی مرتا ہے ۔ لہذا اس سے عیسی علیہ السلام کے آسمان جانے کی نفی ہوتی ہے ؟
یہ یحرفون الکلم عن مواضعہ کے مصداق ہے جو آپ نے آیت پیش کی ہے وہ اس کے مخاطب حضرت آدم علیہ السلام وحوا ہیں۔ان کو اللہ تعالی نے آسمان سے نکالا اور نعمتوں سے محروم کیا پھر ان کو حکم دیا کہ تم زندگی زمین پر بسر کرو اور پھر زمین پر ہی فوت ہونگے اس سے تو الٹا ثابت ہوا کہ اللہ تعالی نے انسان کو پہلے آسمان پر رکھا تھا پھر زمین پر رہنے کا حکم دیا اس سے ثابت ہوگیا کہ اللہ تعالی انسان کو آسمان پر رکھنا چایئے یا زمین پر دونوں طرح رکھ سکتا ہے یہ آیت رفع عیسی ہی کو ثابت کرتی ہے جب اللہ تعالی نےآدم وحوا کو حکم دیا کہ زمین پر رہو تو اس سے خدائی قدرت اور طاقت سلب نہیں ہوگئی کہ اب کوئی آسمان پر نہیں آسکتا تو اس آیت سے ثابت ہوگیا کہ انسان کا آسمان پر جانا ممکن ہے ۔
مسلمانوں کا یہ اعتقاد ہے کہ کہ حضرت عیسی علیہ السلام بعد نزول فوت ہونگے تو اس آیت کے رو سے مسلمان حق پر ہے کہ حضرت عیسی زمین میں ہی دفن ہونگے اس میں قرآن کی کیا مخالفت ہوئی ۔
یہاں تقدیم اہتمام شان کے لئے ہے پس اس مقام پر مناسب تھا کہ زمین کے ذکر کو مقدم کیا جاتا تاکہ جمیع احوال میں تلبس بالارض مؤکد ہوجائے قرآن پاک میں ایسی تقدیم بہت مواقع پر ہے چونکہ ذکر آدم علیہ السلام کا ہے چونکہ اکل و شجر ملکوت سے اب بعد ہوگیا اور بجائے اس کے زمین سے تعلق ہوگیا اب جب بات ظاہر ہوگئی تو حصر پر کوئی دلیل نہیں پھر حصر پر کسی حکم کو مبنی کرنا کس طرح درست ہوگا جس طرح ان اللہ بما تعملون بصیر میں حصر محض باطل ہے اسی طرح اگر آیت فیھا تحیون میں اگر حصر مانا جائے تو لازم آتا ہے کہ انسان کی حیات جنت میں بھی نہ ہو کیونکہ جنت زمین سے خارج ہے حالانکہ اس کا کوئی قائل نہیں ہوسکتا پھر اگر کہا جائے کہ اس حصر سے زمان آخرت مستثنی ہے ہم کہیں گے کہ مکان آخرت بھی مستثنی ہے آسمان مکان آخرت میں داخل ہے پس جو شخص مکان آخرت میں ہو اس کی حیات غیر ارضی پر ہوسکتی ہے ۔
اصل تو یہی ہے کہ انسان کا اصل محل سکونت زمین ہے لیکن اگر کسی کو اللہ تعالی عارضی طور پر آسمانوں میں رلھیں تو اس میں کیا حرج ہے ؟جیسے کہ ملائکہ کا اصل جائے سکونت آسمان ہے لیکن ان کی آمد و رفت زمین پر بھی ہوتی ہے جب فرشتوں کا زمین پر آنا منع نہیں تو پھر عیسی علیہ السلام کا آسمانوں پر جانا کیونکر منع ہوسکتا ہے ؟
لہذا ثابت ہوا کہ اس آیت میں حصر حقیقی نہیں ہے بلکہ حصر اضافی ہے یعنی تمام افراد کی شمولیت کو مستلزم نہیں ہے ۔
رہا
وَ لَكُمْ فِی الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ الاعراف ،2
تو اس میں لام تخصیص کا ہے اور مطلب یہ ہے کہ تمہارا زمین پر رہنا خاص ہے اور اس سے یہ بھی مراد ہے کہ تمہارا رہنے کا مقام زمین کو بنایا گیا ہے لیکن یہ بھی لازم نہیں کیونکہ ایک چیز کو کسی کے لئے بنایا گیا ہو تو ضروری نہیں کہ وہ اس سے جدا نہ ہو جیسا کہ قرآن پاک میں ہے :
وَّ جَعَلْنَا الَّیْلَ لِبَاسًا وَّ جَعَلْنَا النَّهَارَ مَعَاشًا 3
یعنی رات سونے کے لئے بنائی ہے اور دن روزی کمانے کے لئے
حالانکہ بعض اوقات انسان رات کو کام کرتا ہے اور دن کو سوتا ہے تو خلاصہ یہ نکلا کہ عمومی طور پر رات سونے کے لئے اور دن روزی کمانے کے لئے ہے لیکن کبھی اس کے خلاف بھی ہوسکتا ہے اور اس میں کوئی استحالہ نہیں ایسے ہی زمین رہنے کے لئے عمومی طور پر مختص ہے لیکن اگر کسی کو اللہ تعالی آسمانوں میں ٹھرالے تو پھر اس میں کیا کلام ہوسکتا ہے ۔