اصفر بن ابوالحسین تغلبی راس عین کا رہنے والا تھا ۔ جوحران اور نصیبین کے درمیان ایک شہر ہے۔ اس نے ۴۳۹ ھ میں نبوت کا دعویٰ کیا اور کہنا شروع کیا کہ کتابوں میں جس موعود کے آنے کی پیشین گوئی ہے۔ وہ میں ہی ہوں۔ اس سے اس کی مراد (غالبا )مسیح موعود ہوگی ۔ اصغر نے دعوی نبوت کے بعد طرح طرح کے شعبدے دکھا کر لوگوں کو اپنا گرویدہ بنانا چاہا۔ بے شمار جہلاء اور تعلیم یافتہ لوگ اس کے حلقہ مریدین میں داخل ہو گئے ۔ جب جمعیت بڑھنے لگی تو دل میں ملک گیری کا شوق سر سرایا اور حرب و ضرب کی تیاریوں میں مصروف ہوا۔ اصغر سے پہلے جتنے جھوٹے مدعی گذرے۔ وہ اپنی حربی قوت کو ہمیشہ اسلام اور اہل اسلام دین کے خلاف استعمال کرتے رہے۔ لیکن اصغر نے اپنے پیش روؤں کا طریقہ چھوڑ کر اپنی سرگرمیوں کا رخ نصاری کی طرف پھیر دیا۔ چنانچہ اس کا لشکر بڑے تزک واحتشام سے رومیوں کے مقابلہ میں روانہ ہوا۔ روم کی سرحد پر پڑی گمهمسان کی لڑائی ہوئی۔ جس میں رومیوں کو شکست فاش ہوئی۔ اصغر بے شمار مال غنیمت لے کر واپس آیا۔ اور اس کی عظمت کا جھنڈا بڑی شان وشوکت سے اڑنے لگا۔ کچھ عرصہ کے بعد اصغر نے نصاری کے خلاف پھر علم عربدہ جوئی بلند کیا۔ اور رومیوں کو منہدم کر کے واپس آیا۔ کچھ دن کے فصل سے پھر عنان عزیمت روم کی طرف موڑی اور رومیوں کو پامال کر کے اتنے مال غنیمت کے ساتھ مراجعت کی کہ جس کی کوئی حد و نہایت نہ تھی۔ ایک مرتبہ اس کی فوج اس کثرت سے روی عورتوں کو قید کر لائی کہ اس کے لشکر میں بڑی بڑی حسین لڑکیاں تھوڑے تھوڑے پیسوں میں فروخت ہوئیں۔ جب شاہ روم نے دیکھا کہ اصغر ہر مرتبہ چپ چاپ روم پر آچڑھتا ہے اور اس کے پیشتر کہ مدافعت کے لئے کوئی زبردست فوجی اجتماع عمل میں لایا جا سکے سرحدی شہروں کو تاخت و تاراج کر جاتا ہے تو اس نے نصر الدولہ بن مردان حاکم دیار بکر وسیا فارقین کے پاس پیغام بھیجا کہ تم سے ہمارے مراسم اتحاد استوار تھے۔ لیکن اصغر نے تمہاری مملکت میں رہ کر کئی مرتبہ خونریز انہ اقدام کیا ہے اور اتحاد استوار جو جوستیزہ کاریاں اور ظلم آرائیاں کی ہیں۔ وہ تم سے مخفی نہیں ہیں۔ اگر تم بیان مودت و اتحاد سے دست بردار ہو چکے ہو تو ہمیں اس سے مطلع کردو۔ تا کہ ہم بھی اپنی صوابدید پر عمل کریں۔ ورنہ اس شخص کا کچھ تدارک کردو۔ جس وقت شاہ روم کا ایلچی نصر الدولہ کے پاس پہنچا تو اتفاق سے ٹھیک اس وقت اصغر کا قاصد بھی ایک خط لے کر نصر الدولہ کے پاس آیا۔ جس میں رومیوں کے خلاف اس کے ترک غزا پر اعتراض کیا تھا۔ نصر الدولہ نے دیکھا کہ اگر رومیوں کی شکایت کا کوئی مد اوانہ ہوا تو وہ اس کی مملکت پر چڑھ دوڑیں گے۔ اس کے علاوہ از راہ مآل اندیشی اس مسئلہ پر بھی غور کرنے لگا کہ اگر ابھی سے اصغری فتنہ کا سد باب نہ کیا گیا تو یہی شخص جو آج رومیوں کو پریشان کر رہا ہے۔ کل کو ہمارے گلے کا ہار بن جائے گا۔ یہ سوچ کر بن نمیر کے چند آدمیوں کو بلایا اور انعامات دائرہ سے ممنون احسان کر کے کہنے لگا کہ اصغر نے رومیوں کو ہمارے خلاف بر انگیختہ کر دیا ہے اور ہم میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ ان سے عہدہ برآ ہو سکیں۔ اس لئے جس طرح بن پڑے۔ اس کو جا کر ٹھکانے لگا دو یا زندہ گرفتار کر لاؤ۔ بنو نمیر کے جوان اصغر کے پاس جا کر اس کے مریدوں میں داخل ہو گئے اور حاشیہ نشینی اختیار کر کے تھوڑی مدت میں غیر معمولی تقرب حاصل کر لیا۔ ایک مرتبہ اصغر سوار ہو کران کے ساتھ ہولیا۔ چلتے چلتے ایک ایسی جگہ پر پہنچے جہاں بنو نمیر کے جوانوں کے سوا اس کے ساتھ کوئی اور شخص نہ تھا۔ انہوں نے موقع پاکر اس کو گرفتار کر لیا اور نصر الدولہ کے پاس لے آئے۔ نصر الدولہ نے اس کو زندان میں ڈال کر شاہ روم کو اس کی اطلاع دے دی۔1 اس کے بعد اس کا کچھ حال معلوم نہ ہو سکا۔ قرینہ یہ ہے کہ حالت سجن میں اس سرائے فانی سے منقطع ہو کر دار آخرت کو چلا گیا ہوگا۔