اگر ہم مرزا صاحب کی تحریرات کا بغور مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ مرزا صاحب ہی اپنی تحریرات کے مطابق خود دجال ہیں۔
مسلم کی حدیث نمبر 7349 سے پتہ چلتا ہے کہ دجال یہودی یعنی اسرائیلی نسل سے ہوگا۔ مرزا صاحب بھی اپنے آپ کو اسرائیلی لکھتے ہیں۔
جیسا کہ مرزا صاحب نے لکھا ہے:
"میں خدا سے وحی پاکر کہتا ہوں کہ میں بنی فارس میں سے ہوں اور بموجب اُس حدیث کے جو کنز العمال میں درج ہے بنی فارس بھی بنی اسرائیل اور اہل بیت میں سے ہیں۔"
ایک اور جگہ مرزا صاحب لکھتے ہیں:
"میں اسرائیلی بھی ہوں اور فاطمی بھی۔"
یعنی مرزا صاحب حضرت اسحٰقؑ کی نسل سے بھی ہیں اور انکے بھائی حضرت اسماعیلؑ کی نسل سے بھی۔
لیجئے مرزا صاحب اور دجال میں ایک قدر مشترک یہ ثابت ہوئی کہ دونوں یہودی النسل یعنی اسرائیلی ہیں۔
ابن ماجہ کی حدیث نمبر 4077 میں ذکر ہے کہ دجال پہلے نبوت اور پھر خدائی کے دعوے کرے گا۔مرزا صاحب نے بھی اس حدیث کو ذکر کیا ہے۔
مرزا صاحب لکھتے ہیں:
"دجال کا بھی حدیثوں میں ذکر پایا جاتا ہے کہ وہ دنیا میں ظاہر ہوگا اور پہلے دعوی نبوت کرے گا اور پھر خدائی کا دعویدار بن جائے گا۔"
مرزا صاحب 23 اپریل 1902ء کو لکھتے ہیں کہ :
1) "تیسری بات جو اس وحی سے ثابت ہوئی ہے،وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ جب تک کہ طاعون دنیا میں رہے گا گو ستر برس تک رہے، قادیان کو اس کی خوفناک تباہی سے محفوظ رکھے گا کیونکہ یہ اس کے رسول کا تخت گاہ ہے اور یہ تمام امتوں کےلیے نشان ہے۔"
2) "سچا خدا وہی ہے جس نے قادیاں میں اپنا رسول بھیجا۔"
مرزا صاحب 15 مئی 1907ء کو لکھتے ہیں:
"تو جس بات کا ارادہ کرتا ہے،وہ تیرےحکم سےفی الفور ہو جاتی ہے۔"
"مرزا صاحب اور دجال میں دوسری قدر مشترک یہ ہے کہ مرزا صاحب نے بھی دجال کی طرح پہلے نبوت کا دعوی کیا اور پھر اس کے بعد خدائی کا دعوی کیا۔"
مسلم کی روایت نمبر 7392 سے پتہ چلتا ہے کہ دجال کے پیروکار 70 ہزار یہودی ہوں گے۔ مرزا صاحب نے بھی اس کو تسلیم کیا ہے۔
چنانچہ مرزا صاحب لکھتے ہیں:
"پس اس پیشگوئی کا ظہور ہے کہ جو حدیثوں میں آیا ہے کہ ستر ہزار مسلمان کہلانے والے دجال کے ساتھ مل جائیں گے۔اب علمائے مفکرین بتلا دیں کہ یہ باتیں پوری ہوگئیں یا نہیں۔"
مرزا غلام قادیانی کی اس تحریر سے درج ذیل باتیں معلوم ہوئیں۔
1) دجال کے ساتھ جو ملیں گے وہ خود کو مسلمان کہلوائیں گے۔
2) انکی تعداد 70 ہزار ہوگئی۔
3) اور یہ بات مرزا صاحب کے وقت میں پوری ہوگی۔
اب مرزا صاحب کی لکھی گئی دجال کی انہی 3 باتوں پر مرزا صاحب کو پرکھتے ہیں۔
متعدد جگہ مرزا صاحب اپنے پیروکاروں کی تعداد 70 ہزار بتاتے ہیں۔ملاحظہ فرمائیں۔
تحریر نمبر 1 :
مرزا صاحب نے لکھا ہے:
"اس وقت خداتعالیٰ کے فضل سے ستر ہزار کے قریب بیعت کرنے والوں کا شمار پہنچ گیا ہے۔"
تحریر نمبر 2:
ایک اور جگہ مرزا صاحب نے لکھا ہے:
"جو جماعت پہلے دنوں میں چالیس آدمیوں سے بھی کم تھی آج ستر ہزار کے قریب پہنچ گئی"
تحریر نمبر 3:
مرزا صاحب لکھتے ہیں:
"چالیس آدمی میرے دوست تھے اور آج ستر ہزار کے قریب اُن کی تعداد ہے۔"
لیجئے مرزا صاحب کی دجال کے بارے لکھی گئی تینوں نشانیاں مرزا صاحب میں ثابت ہوگئیں۔
1) دجال کے پیروکاروں کی تعداد بھی 70 ہزار اور مرزا صاحب کے مرید بھی 70 ہزار ہی نکلے۔
2) مرزاصاحب نے خود اقرار کیا کہ دجال کا ساتھ دینے والے مسلمان کہلانے والے ہوں گے جب کےمرزا کو ماننے والے پہلے مسلمان ہی تھے مگر مرزا (دجال) کو مان کر یہودی صفت ہو گئے۔
3) یہ تمام باتیں اس وقت ظہور پذیر ہوں گی جو مرزا صاحب کا وقت ہے یعنی مرزا کے دور میں یہ تمام باتیں پوری ہوگئیں۔
بخاری کی حدیث نمبر 1881 سے پتہ چلتا ہے کہ دجال مکہ اور مدینہ میں داخل نہیں ہوسکے گا۔جبکہ یہ نشانی مرزا صاحب میں بھی پوری ہوئی۔مرزا صاحب نے بھی اس حدیث کو تسلیم کیا ہے۔
مرزا صاحب بھی ساری زندگی مکہ اور مدینہ نہ جاسکے۔جیسا کہ مندرجہ ذیل تحریر سے ثابت ہے۔
مرزا قادیانی کے بیٹے مرزا بشیر احمد نے لکھا ہے:
"ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ مسیح موعود(مرزا قادیانی) نے حج نہیں کیا۔اعتکاف نہیں کیا۔زکوۃ نہیں دی۔ تسبیح نہیں رکھی۔"
دجال ایک گدھے پر سواری کرے گا مرزا صاحب نے بھی اس حدیث کو تسلیم کیا ہے۔
نیز مرزا صاحب ریل گاڑی کو دجال کی سواری لکھتے ہیں۔
جیسا کہ مرزا صاحب نے لکھا ہے:
"ایک بڑی بھاری علامت دجال کی اس کا گدھا ہے جس کے بین الاذنین کا اندازہ ستر باع کیا گیا ہے اور ریل کی گاڑیوں کا اکثر اسی کے موافق سلسلہ طولانی ہوتا ہے اور اس میں بھی شک نہیں کہ وہ دخان کے زور پر چلتی ہیں ہیں جیسے بادل ہوا کے زور سے تیز حرکت کرتا ہے۔اس جگہ ہمارے نبیﷺ نے کھلے کھلے طور پر ریل گاڑی کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ چونکہ یہ عیسائی قوم کا ایجاد ہے جن کا امام و مقتدا یہی دجالی گروہ ہے۔اس لئے ان گاڑیوں کو دجال کا گدھا قرار دیا گیا۔"
اب مرزا صاحب جس سواری کو دجال کی سواری لکھتے ہیں خود بھی اسی پر سفر کرتے ہیں۔ مرزا صاحب کے ریل کے سفر کے حوالہ جات ملاحظہ فرمائیں۔
حوالہ نمبر 1:
مرزا صاحب خود لکھتے ہیں:
"ایک دفعہ ہم ریل گاڑی پر سوار تھے اور لدھیانہ کی طرف جارہے تھے کہ الہام ہوا۔"
حوالہ نمبر 2:
مرزا صاحب کے بیٹے اور دوسرے قادیانی خلیفہ مرزا بشیر الدین محمود نے مرزا صاحب کے جنوری 1903ء کے جہلم کے سفر کی رویئداد یوں لکھی ہے۔
"1902ء کے آخر میں حضرت مسیح موعود پر ایک شخص کرم دین نے ازالہ عرفی کا مقدمہ کیا اور جہلم کے مقام پر عدالت میں حاضر ہونے کے لئے آپ کے نام سمن جاری ہوا۔چنانچہ آپ جنوری 1903ء میں وہاں تشریف لے گئے۔ یہ سفر آپ کی کامیابی کے شروع ہونے کا پہلا نشان تھا کہ گو آپ ایک فوجداری مقدمہ کی جواب دہی کے لئے جا رہے تھے لیکن پھر بھی لوگوں کے ہجوم کا یہ حال تھا کہ اس کا کوئی اندازہ نہیں ہو سکتا۔جس وقت آپ جہلم کے سٹیشن پر اُترے ہیں اُس وقت وہاں اس قدر انبوہِ کثیر تھا کہ پلیٹ فارم پر کھڑا ہونے کی جگہ نہ رہی تھی۔"
حوالہ نمبر 3:
مرزا بشیر الدین محمود نے مرزا صاحب کے 2 نومبر 1904ء کے سیالکوٹ کے سفر کی رویئداد یوں لکھی ہے۔
" جب لیکچر ختم ہو کر گھر کو واپس آنے لگے تو پھر بعض لوگوں نے پتھر مارنے کا ارادہ کیا۔لیکن پولیس نے اس مفسدہ کو بھی روکا۔لیکچر کے بعد دوسرے دن آپ واپس تشریف لے آئے۔اور اس موقع پربھی پولیس کے انتظام کی وجہ سے کوئی شرارت نہ ہوسکی۔جب لوگوں نے دیکھا کہ ہمیں دکھ دینے کا کوئی موقع نہیں ملا تو بعض لوگ شہر سے کچھ دور باہر جاکر ریل کی سڑک کے پاس کھڑے ہوگئے۔ اور چلتی ٹرین پر پتھر پھینکے۔لیکن اس کا نتیجہ سوائے کچھ شیشے ٹوٹ جانے کے اور کیا ہوسکتا تھا۔"
حوالہ نمبر 4:
مرزا بشیر الدین محمود نے مرزا صاحب کی 1908ء میں وفات کے بارے میں یوں لکھا ہے:
"ساڑھے دس بجے آپ فوت ہوئے۔ اُسی وقت آپ کے جسم مبارک کو قادیان میں پہنچانے کا انتظام کیا گیا اور شام کی گاڑی میں ایک نہایت بھاری دل کے ساتھ آپ کی جماعت نعش لے کرروانہ ہوئی۔"
یعنی مرزا صاحب جس سواری کو دجال کی سواری کہتے تھے زندگی بھر اسی پر سفر کرتے رہے اور موت کے بعد لاش بھی دجال کی سواری پر لے جانی پڑی۔
مسلم کی حدیث نمبر 7373 سے معلوم ہوتا ہے کہ دجال سیدنا عیسیؑ کا اتنا بڑا مخالف ہوگا کہ ان کے ساتھ لڑائی کرے گا۔اگر ہم مرزا صاحب کو دیکھیں تو انہوں نے بھی سیدنا عیسیؑ کی مخالفت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔چند حوالہ جات ملاحظہ فرمائیں۔
مرزا صاحب نے لکھا ہے:
عیسائیوں نے بہت سے آپ کے معجزات لکھے ہیں،مگر حق بات یہ ہے کہ آپ سے کوئی معجزہ نہیں ہوا ۔۔۔ آپ سے کوئی معجزہ ظاہر بھی ہوا تو وہ معجزہ آپ کا نہیں تالاب کا معجزہ ہے۔"
مرزا صاحب نے لکھا ہے:
"ہائے کس کے آگے یہ ماتم لے جائیں کہ حضرت عیسیؑ کی 3 پیشگوئیاں صاف طور پر جھوٹی نکلیں۔"
مرزا صاحب نے لکھا ہے:
"اور یسوع اس لئے اپنے تئیں نیک نہیں کہ سکا کہ لوگ جانتے تھے کہ یہ شخص شرابی کبابی ہے اور یہ خراب چال چلن نہ خدائی کے بعد، بلکہ ابتداء سے ہی ایسا معلوم ہوتا ہے اور خدائی کا دعوی شراب خوری کا ایک بدنتیجہ تھا۔"
مرزا صاحب نے لکھا ہے:
"یورپ کے لوگوں کو جس قدر شراب نے نقصان پہنچایا اس کا سبب تو یہ تھا کہ عیسی علیہ السلام شراب پیا کرتے تھے۔"
مرزا صاحب نے لکھا ہے:
"آپ کی انہی حرکات کی وجہ سے آپ کے حقیقی بھائی آپ سے سخت ناراض رہتے تھے، اور ان کو یقین ہوگیا تھا کہ ضرور آپ کے دماغ میں کچھ خلل ہے اور وہ ہمیشہ چاہتے رہے کہ کسی شفاخانہ میں آپ کا باقاعدہ علاج ہو،شاید خدا تعالیٰ شفا بخشے۔"
اب آخر میں مختصراً مرزا صاحب اور دجال کا تقابلی جائزہ لیتے ہیں۔
1دجال بھی یہودی النسل ہوگا۔مرزا صاحب بھی یہودی النسل تھے۔
2دجال پہلے نبوت کا دعوی کرے گا اور اس کے بعد خدائی کا دعوی کرے گا۔مرزا صاحب نے بھی پہلے نبوت کا دعوی کیا اور اس کے بعد خدائی کا دعوی کیا۔
3دجال کے ساتھیوں کی تعداد بھی 70 ہزار ہوگی۔مرزا صاحب کے مرید بھی 70 ہزار تھے۔
4 دجال مکہ اور مدینہ نہیں جاسکے گا۔ مرزا صاحب بھی ساری زندگی مکہ اور مدینہ نہیں جاسکے۔
5دجال گدھے پر سواری کرے گا۔ مرزا صاحب جس سواری کو دجال کا گدھا کہتے رہے اسی پر سواری بھی کرتے رہے۔
6دجال سیدنا عیسیؑ کا مخالف ہوگا۔مرزا صاحب بھی سیدنا عیسیؑ کی مخالفت کرتے رہے۔
لیجئے مرزا صاحب کی تحریرات کے مطابق مرزا صاحب خود ہی "دجال" ہوگئے۔