دنیا میں حق و باطل کے ہونے کے ساتھ بھی اللہ تعالی ایسی نشانیاں رکھ دیتا ہے کہ اگر کوئی صحیح طریقہ سے غور کریں تو وہ حق کو پالیگا ،ملا علی قاری فرماتے ہے کہ جب کوئی جھوٹی نبوت کا دعوی کرتا ہے تو اللہ تعالی اس بندے میں ایسی باتیں رکھ دیتا ہے کہ دیکھنے والا پہچان لیتا ہے کہ یہ حق کی طرف نہیں ہوسکتا۔
مرزا غلام احمد قادیانی نے مجددیت سے لے کر نبوت ورسالت تک کے بہت سے دعوے کئے۔ وہ اپنے دعووں میں سچے تھے یا جھوٹے؟ ۔ اب پہچاننے کا طریقہ یہ ہے کہ مرزا نے خود جن باتوں کے ہونے نہ ہونے کو اپنے سچ جھوٹ کے پرکھنے کی کسوٹی ٹھہرایا، ان پر غور کر کے دیکھ لیا جائے کہ ان کے نتیجے میں مرزا سچاثابت ہوئے یا جھوٹا؟
زیر نظر تحریر میں بھی ان باتوں کا ذکر کیا گیا ہے کہ جس میں مرزا قادیانی نے ساری دنیا کو اپنا سچ جھوٹ پرکھنے کی دعوت دی اور جن پر غور کر کے ہر ذی شعور آدمی صحیح نتیجے پر پہنچ سکتا ہے۔یہ تحریر قادیانی حضرات کے لئے بھی ایک دعوت ہے اگر وہ اس کو صحیح نیت سے پڑہیں ۔
قاضی نذر حسین ایڈیٹر اخبار قلقل بجنور کے نام ایک خط میں مرزا صاحب لکھتے ہیں:
"جو لوگ خدا تعالیٰ کی طرف سے آتے ہیں وہ اپنے مبعوث ہونے کی علت غائی کو پالیتے ہیں اور نہیں مرتے جب تک ان کی بعثت کی غرض ظہور میں نہ آجائے۔"
"میرا کام جس کے لئے میں اس میدان میں کھڑا ہوں یہی ہے کہ عیسیٰ پرستی کے ستون کو توڑ دوں اور بجائے تثلیث کے توحید پھیلا دوں اور آنحضرت ﷺ کی جلالت اور شان دنیا پر ظاہر کر دوں۔ پس اگر مجھ سے کروڑ نشان بھی ظاہر ہوں اور یہ علت غائی ظہور میں نہ آوے تو میں جھوٹا ہوں۔ پس دنیا مجھ سے کیوں دشمنی کرتی ہے اور وہ میرے انجام کو کیوں نہیں دیکھتی۔ اگر میں نے اسلام کی حمایت میں وہ کام کر دکھایا جو مسیح موعود اور مہدی موعود کو کرنا چاہیے تو پھر میں سچا ہوں اور اگر کچھ نہ ہوا اور میں مر گیا تو پھر سب گواہ رہیں کہ میں جھوٹا ہوں۔"1
مرزا صاحب اپنے مشن میں کہاں تک کامیاب ہوئے؟ یہ داستان قادیانیوں کے سرکاری اخبار الفضل کی زبانی سنئے! اخبار لکھتا ہے ۔
"کیا آپ کو معلوم ہے کہ اس وقت ہندوستان میں عیسائیوں کے (۱۳۷) مشن کام کر رہے ہیں۔ یعنی ہیڈ مشن۔ ان کی برانچوں کی تعداد بہت زیادہ ہے، ہیڈ مشن میں اٹھارہ سو سے زائد پادری کام کر رہے ہیں، (۴۰۳) ہسپتال ہیں جن میں ( ۵۰۰ ) ڈاکٹر کام کر رہے ہیں۔ (۴۳) پریس ہیں اور تقریباً ( ۱۰۰ ) اخبارات مختلف زبانوں میں چھپتے ہیں۔ (۵۱) کالج (617) ہائی اسکول اور (۲۱) ٹریننگ کالج ہیں۔ ان میں ساٹھ ہزار طالب علم تعلیم پاتے ہیں۔ مکتی فوج میں (۳۰۸) یورپین اور (۲۸۸۶) ہندوستانی مناد کام کرتے ہیں۔ اس کے ماتحت (۵۰۷) پرائمری اسکول ہیں، جن میں (۱۸۶۷۵) طالب علم پڑھتے ہیں۔ (۱۸) بستیاں اور گیارہ اخبارات ان کے اپنے ہیں، اس فوج کے مختلف اداروں کے ضمن میں ( ۳۲۹۰) آدمیوں کی پرورش ہو رہی ہے اور ان سب کی کوششوں اور قربانیوں کا نتیجہ یہ ہے کہ کہا جاتا ہے روزانہ (۲۲۴) مختلف مذاہب کے آدمی ہندوستان میں عیسائی ہو رہے ہیں۔ ان کے مقابلے میں مسلمان کیا کر رہے ہیں وہ تو اس کام کو شاید قابل توجہ بھی نہیں سمجھتے، احمدی جماعت کو سوچنا چاہیے کہ عیسائی مشنریوں کے اس قدر وسیع مال سے مقابلہ میں اس کی مساعی کی حیثیت کیا ہے۔ ہندوستان بھر میں ہمارے دو درجن مبلغ ہیں اور وہ بھی جن مشکلات میں کام کر رہے ہیں انہیں ہم لوگ خوب جانتے ہیں۔ 2"
الفضل کی یہ شہادت مرزا صاحب کی وفات سے ۳۳ سال بعد کی ہے، جس سے معلوم ہوا کہ نہ مرزا صاحب کے دعوے سے عیسائیت کا کچھ بگڑا، نہ تثلیث کے بجائے توحید پھیلی، نہ عیسائیت کے پھیلاؤ کو روکنے میں انہیں کامیابی ہوئی، اس لئے ان کی یہ بات سچی نکلی "اگر مجھ سے کروڑوں نشان بھی ظاہر ہوں اور یہ علت غائی ظہور میں نہ آوے تو میں جھوٹا ہوں۔" "اور اگر کچھ نہ ہوا اور میں مر گیا تو پھر سب گواہ رہیں کہ میں جھوٹا ہوں۔
ضمیمہ انجام آتھم میں مرزا صاحب لکھتے ہیں:
"اگر سات سال میں میری طرف سے خدا تعالیٰ کی تائید سے اسلام کی خدمت میں نمایاں اثر ظاہر نہ ہوں اور جیسا کہ مسیح کے ہاتھ سے ادیان باطلہ کا مرنا ضروری ہے، یہ موت جھوٹے دینوں پر میرے ذریعہ سے ظہور میں نہ آوے، یعنی خدا تعالیٰ میرے ہاتھ سے وہ نشان ظاہر نہ کرے جس سے اسلام کا بول بالا ہو اور جس سے ہر ایک طرف سے اسلام داخل ہونا شروع ہو جائے اور عیسائیت کا باطل معبود فنا ہو جائے اور دنیا اور رنگ نہ پکڑ جائے تو میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں اپنے تئیں کاذب خیال کر لوں گا۔"3
مرزا صاحب کی یہ تحریر غالباً جنوری ۱۸۹۷ء کی ہے، گویا سچا ہونے کی صورت میں مرزا صاحب کو ۱۹۰۳ء تک یہ سارے کارنامے انجام دینے تھے اور اگر وہ یہ شرط پوری نہ کر سکیں تو انہوں نے اپنے آپ کو جھوٹا سمجھ لینے کی قسم کھا رکھی تھی۔ سات سال کے عرصے میں مرزا صاحب نے جن کارناموں کا وعدہ کیا تھا وہ ان سے ظاہر نہ ہو سکے اس لئے وہ اپنی قسم کے مطابق کاذب ٹھرے
۱۳۱۱ھ میں رمضان مبارک کی تیرہویں تاریخ کو چاند گہن اور اٹھائیسویں تاریخ کو سورج گہن ہوا تو مرزا صاحب نے اس کو اپنی مہدویت کی دلیل ٹھہرایا، ان کے خیال میں یہ خارق عادت واقعہ تھا جو کسی مدعی مہدویت ومسیحیت کے وقت میں کبھی رونما نہیں ہوا۔ چنانچہ رسالہ انوار اسلام میں لکھتے ہیں:
اور جب سے کہ دنیا پیدا ہوئی ہے کسی مدعی رسالت یا نبوت یا محدثیت کے وقت میں کبھی چاند گرہن اور سورج گرہن اکٹھے نہیں ہوئے اور اگر کوئی کہے کہ اکٹھے ہوئے ہیں تو بار ثبوت اس کے ذمہ ہے۔" 4
یہ کبھی نہیں ہوا اور ہرگز نہیں ہوا کہ بجز ہمارے اس زمانہ کے دنیا کی ابتداء سے آج تک کبھی چاند گرہن اور سورج گرہن رمضان کے مہینے میں ایسے طور سے اکٹھے ہو گئے ہوں کہ اس وقت کوئی مدعی رسالت یا نبوت یا محدثیت بھی موجود ہو۔" (ص 48)"
مگر افسوس ہے کہ یہ مرزا صاحب کی ناواقفیت تھی، ورنہ ۱۸ھ سے ۱۳۱۲ھ تک ساٹھ مرتبہ رمضان میں چاند گہن اور سورج کا اجتماع ہوا اور ان تیرہ صدیوں میں بیسیوں مدعیان نبوت مہدویت بھی ہوئے۔
مگر خدا تعالیٰ کو منظور تھا کہ مرزا صاحب کو خود ان کی نادانی سے جھوٹا ثابت کرے اس لئے اللہ تعالیٰ نے مرزا صاحب کے قلم سے مندرجہ ذیل چیلنج لکھوایا:
"اگر یہ ظالم مولوی اس قسم کا خسوف کسوف کسی اور مدعی کے وقت میں پیش کر سکتے ہیں تو پیش کریں اس سے بیشک میں جھوٹا ہو جاؤں گا۔"5
ایک نہیں چار ثبوت پیش کرتا ہوں۔
1. ۔117ھ میں خسوف وکسوف کا اجتماع رمضان میں ہوا، جبکہ طریف نامی مدعی مغرب میں موجود تھا
2. ۔127ھ میں پھر اجتماع ہوا اس وقت صالح بن طریف مدعی نبوت موجود تھا
3. ۔1267ھ میں اجتماع ہوا۔ اس وقت مرزا علی محمد باب ایران میں سات سال سے مہدویت کا ڈنکا بجا رہا تھا
4. ۔1311ھ میں بھی اجتماع ہوا۔ اس وقت مہدی سوڈانی سوڈان میں مسند مہدویت بچھائے ہوئے تھا
اگر چہ اور مدعیان نبوت ومہدویت کے زمانے میں بھی خسوف وکسوف کا اجتماع ہوتا رہا (تفصیل کے لئے دیکھئے "دوسری شہادت آسمانی" مولفہ مولانا ابو احمد رحمانی "آئمہ تلبیس" اور "رئیس قادیان" تالیف مولانا ابو القاسم دلاوری) مگر مرزا صاحب کو جھوٹا ثابت کرنے کے لئے یہ چار شہادتیں بھی کافی ہیں۔
مرزا صاحب تحفۃ الندوہ ص ۵ میں لکھتے ہیں:
1. "اگر میں صاحب کشف نہیں تو جھوٹا ہوں۔"
2. اگر قرآن سے ابن مریم کی وفات ثابت نہیں تو میں جھوٹا ہوں۔"
3. اگر حدیث معراج نے ابن مریم کو مردہ روحوں میں نہیں بٹھا دیا تو میں جھوٹا ہوں۔"
4. "اگر قرآن نے سورہ نور میں نہیں کہا کہ اس امت کے خلیفے اسی امت میں ہوں گے تو میں جھوٹا ہوں۔"
5. "اگر قرآن نے میرا نام ابن مریم نہیں رکھا تو میں جھوٹا ہوں۔"6
ان دعووں میں سے ہر دعویٰ غلط ہے، اس لئے اپنی تحریر کے مطابق مرزا صاحب پانچ وجہ سے جھوٹے ثابت ہوئے۔
ازالہ اوہام میں مرزا صاحب لکھتے ہیں:
"اے برادران دین وعلمائے شرع متین آپ صاحبان میری ان معروضات کو متوجہ ہو کر سنیں کہ اس عاجز نے جو مثیل موعود ہونے کا دعویٰ کیا ہے جس کو کم فہم لوگ مسیح موعود خیال کر بیٹھے ہیں میں نے یہ دعویٰ ہرگز نہیں کیا کہ میں مسیح ابن مریم ہوں، جو شخص یہ الزام میرے پر لگاوے وہ سراسر مفتری اور کذاب ہے۔" 7
اس تحریر سے معلوم ہوا کہ مرزا صاحب مسیح موعود نہیں تھے، جو لوگ ان کو مسیح موعود سمجھتے ہیں وہ کم فہم ہیں، سراسر مفتری اور کذاب ہیں اور چونکہ بعد میں مرزا صاحب نے خود بھی مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا اس لئے وہ خود بھی مفتری اور کذاب ہوئے۔
تحفۃ الندوہ میں مرزا صاحب لکھتے ہیں:
"اللہ تعالیٰ اپنے پاک کلام میں فرماتا ہے:
اِنْ یَّكُ كَاذِبًا فَعَلَیْهِ كَذِبُهٗ وَ اِنْ یَّكُ صَادِقًا یُّصِبْكُمْ بَعْضُ الَّذِیْ یَعِدُكُمْ اِنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِي مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ
یعنی اگر یہ جھوٹا ہوگا تو تمہارے دیکھتے دیکھتے تباہ ہو جائے گا اور اس کا جھوٹ ہی اس کو ہلاک کر دے گا۔ لیکن اگر سچا ہے تو پھر بعض تم سے اس کی پیش گوئیوں کا نشانہ بنیں گے اور اس کے دیکھتے دیکھتے اس دار الفناء سے کوچ کریں گے۔ اب اس معیار کی رو سے جو خدا کی کلام میں ہے مجھے آزماؤ اور میرے دعوے کو پرکھو۔" 8
ہم نے اس معیار پر مرزا صاحب کے دعوے کو پرکھا تو معلوم ہوا کہ:
الف: مرزا صاحب کا مولانا عبد الحق غزنوی سے مباہلہ ہوا اور مرزا صاحب اپنے حریف کے دیکھتے دیکھتے تباہ ہو گئے اور ان کے جھوٹ نے ان کو ہلاک کر دیا۔
ب: مرزا صاحب نے اپنے ایک اور حریف مولانا ثناء اللہ مرحوم کے مقابلے میں بد دعا کی کہ جھوٹا سچے کے سامنے ہلاک ہو جائے اور مولانا ثناء اللہ صاحب کے دیکھتے دیکھتے مرزا صاحب ہلاک ہو گئے۔
ج: اپنے رقیب مرزا سلطان محمد صاحب کے حق میں مرزا صاحب نے موت کی پیش گوئی کی، مگر سلطان محمد کے دیکھتے دیکھتے مرزا صاحب ہیضہ کی موت کا نشانہ بن گئے۔
و: اپنے ایک اور حریف ڈاکٹر عبد الحکیم خاں صاحب کو مرزا صاحب نے فرشتوں کی کھنچی ہوئی تلوار دکھائی اور دعا کی کہ "اے میرے رب سچے اور جھوٹے کے درمیان فیصلہ کر دے۔" مگر ڈاکٹر صاحب کے دیکھتے دیکھتے مرزا صاحب تباہ ہو گئے اور ان کے جھوٹ نے ان کو ہلاک کر دیا۔ یہ چار گواہ مرزا صاحب کے مقرر کردہ معیار پر ان کو جھوٹا ثابت کرنے کے لئے بہت کافی ہیں۔
۱۰ جولائی ۱۸۸۸ء کو مرزا صاحب نے الہامی پیش گوئی کا اشتہار دیا کہ:
"اس قادر مطلق نے مجھ سے فرمایا ہے کہ اس شخص (یعنی مرزا احمد بیگ صاحب کی دختر کلاں (محترمہ محمدی بیگم) کے لئے سلسلہ جنبانی کر اگر (احمد بیگ نے اس) نکاح سے انحراف کیا تو اس لڑکی کا انجام نہایت ہی برا ہوگا۔ اور جس دوسرے شخص سے بیاہی جائے گی وہ روز نکاح سے اڑھائی سال تک اور ایسا ہی والد اس دختر کا تین سال تک فوت ہو جائے گا۔"
"پھر ان دنوں زیادہ تصریح اور تفصیل کے لئے بار بار توجہ کی گئی تو معلوم ہوا کہ خدا تعالیٰ نے مقرر کر رکھا ہے کہ مکتوب الیہ (یعنی احمد بیگ) کی دختر کلاں کو ہر ایک مانع دور کرنے کے بعد اسی عاجز کے نکاح میں لائے گا۔"
"بد خیال لوگوں کو واضح ہو کہ ہمارا صدق یا کذب جانچنے کے لئے ہماری پیش گوئیوں سے بڑھ کر کوئی محک امتحان نہیں ہو سکتا۔"9
مرزا صاحب نے اپنے سچا یا جھوٹا ہونے کی یہ بہت ہی آسان کسوٹی مقرر کی تھی، جس سے ان کا سچ یا جھوٹ پرکھا جائے۔ 7 اپریل ۱۸۹۲ء کو احمد بیگ نے اپنی صاحب زادی کا نکاح اپنے ایک عزیز جناب سلطان محمد ساکن پٹی ضلع لاہور سے کر دیا۔
اب مرزا صاحب کی الہامی پیش گوئی کے مطابق:
الف: ۶ ستمبر ۱۸۹۴ء تک محمدی بیگم کا سہاگ لٹ جانا چاہیے تھا، مگر خدا تعالیٰ نے مرزا صاحب کی نظر بد سے اسے محفوظ رکھا۔ ۵۷ سال یہ جوڑا خوش وخرم رہا۔ (سولہ (۱۶) برس تک مرزا صاحب کی زندگی میں اور اکتالیس برس بعد تک) ۱۹۴۹ء سے 1966ء تک محمدی بیگم نے بیوگی کا زمانہ پایا مگر وہ مرزا صاحب کے الہامی شکنجے سے اکتالیس برس پہلے نکل چکی تھی۔ (مرحومہ کی عمر تقریباً نوے برس ہوئی، انتقال ۱۹۶۶ء میں ہوا رحمہا اللہ رحمۃ واسعۃ)
ب: سلطان محمد کو اپنے سسر سے چھ مہینہ پہلے مرنا تھا۔ مگر بفضل خدا وہ اس کے ۵۷ برس بعد تک زندہ رہا۔
ج: احمد بیگ کو اپنے داماد کی موت اور اپنی بیوگی وبے کسی دیکھ کر مرنا تھا، مگر وہ ان کو خوش وخرم چھوڑ کر گیا۔
و: خدا نے تمام موانع دور کر کے اس عظیم خاتون کو مرزا صاحب کے نکاح میں لانا تھا مگر افسوس کہ خدا تعالیٰ نے اس سلسلہ میں مرزا صاحب کی کوئی مدد نہیں کی۔ مرزا صاحب نے بذات خود خاصی کوشش کی مگر ناکام ہے، بالآخر 26 مئی ۱۹۰۸ء کو مرزا صاحب ناکامی ومحرومی کا "داغ ہجرت" سینے میں لے کر دنیا سے رخصت ہوئے۔
ہ: جو لوگ اس واضح معیار پر مرزا صاحب کے سچ جھوٹ کو نہیں جانچتے وہ بقول مرزا صاحب "بد خیال لوگ" ہیں۔
محمدی بیگم سے نکاح کا پہلا اشتہار جو مرزا صاحب نے ۱۰ جولائی ۱۸۸۸ء کو جاری کیا تھا۔ اس کی پیشانی پر یہ قطعہ تحریر فرمایا:
پیش گوئی کا جب انجام ہویدا ہوگا
قدرت حق کا عجب ایک تماشا ہوگا
سچ اور جھوٹ میں ہے فرق وہ پیدا ہوگا
کوئی پا جائے گا عزت اور کوئی رسوا ہوگا 10
پیش گوئی کا انجام ۲۶ مئی ۱۹۰۸ء کو (مرزا صاحب کی موت کے دن) کھل کر سب کے سامنے آگیا، قدرت کا عجب تماشا بھی اس دن سب نے دیکھ لیا کہ بیس سال کی مسلسل تگ ودو، الہام بازی اور یقین دہانی کے باوجود مرزا صاحب، محمدی بیگم سے محروم ہو گئے۔ یوں سچ اور جھوٹ کا فرق کھل گیا۔ بتائیے کس کو عزت ملی، اور کون رسوا ہوا؟ کون سچا نکلا کون جھوٹا؟
مرزا صاحب محمدی بیگم کے بارے الہامی پیش گوئی کر چکے تھے، مگر اس کے اولیاء نے پیش گوئی کے علی الرغم رشتہ دوسری جگہ طے کر دیا تو مرزا کے سینے پر سانپ لوٹ گئے، مرزا صاحب لڑکی کے پھوپھا جناب مرزا علی شیر بیگ صاحب کو (جو مرزا صاحب کے نسبتی برادر اور سمدھی تھے) لکھتے ہیں:
"اب میں نے سنا ہے کہ عید کی دوسری یا تیسری تاریخ کو اس لڑکی کا نکاح ہونے والا ہے اس نکاح کے شریک میرے سخت دشمن ہیں، بلکہ میرے کیا دین اسلام کے سخت دشمن ہیں، عیسائیوں کو ہنسانا چاہتے ہیں ہندؤں کو خوش کرنا چاہتے ہیں، اور اللہ رسول کے دین کی کچھ پروا نہیں رکھتے۔"
اپنی طرف سے میری نسبت ان لوگوں نے پختہ ارادہ کر لیا ہے کہ اس کو خوار کیا جائے، رو سیاہ کیا جائے۔ یہ اپنی طرف سے ایک تلوار چلانے لگے ہیں۔ اب مجھ کو بچا لینا اللہ تعالیٰ کا کام ہے، اگر میں اس کا ہوں گا تو ضرور مجھے بچا لے گا۔ اور چاہتے ہیں کہ خوار ہو، اور اس کا رو سیاہ ہو، خدا بے نیاز ہے، جس کو چاہے رو سیاہ کرے مگر اب تو مجھے آگ میں ڈالنا چاہتے ہیں۔"
آہ! محمدی بیگم کے لئے مرزا صاحب کی بے قراری وبے چینی اور ان کے اقربا کی بے التفاتی وسرد مہری، افسوس! خدا کے دشمن، رسول کے دشمن، دین کے دشمن، مرزا صاحب کے دشمن نکاح کی تلوار سے ان کا جگر شق کر رہے ہیں، مرزا صاحب کو آتش فرقت میں ڈال رہے ہیں اور ذلیل وخوار کر کے ان پر جگ ہنسائی کا موقعہ فراہم کر رہے ہیں مگر خدا مرزا صاحب کی کوئی مدد نہیں کرتا، مرزا صاحب اعلان کرتے ہیں کہ "اگر میں اس کا ہوں تو مجھے ضرور بچا لے گا۔" مگر خدا تعالیٰ نے انہیں نہیں بچایا۔ گویا خدا نے گواہی دیدی کہ مرزا صاحب اس کی طرف سے نہیں۔
سلطان محمد مقررہ میعاد میں نہ مرا تو مرزا صاحب نے اس کی میعاد میں توسیع کرتے ہوئے فرمایا کہ خیر اڑھائی سال میں نہیں مرا تو نہ سہی، میری زندگی میں تو ضرور مر جائے گا، اور اس کے مرنے نہ مرنے کو اپنے سچا یا جھوٹا ہونے کی کسوٹی قرار دیتا ہوں لکھتے ہیں:
"باز شمارا این نگفتہ ام کہ این مقدمہ بر ہمیں قدر بہ اتمام رسید ونتیجہ آخری ہماں است کہ بظہور آمد وحقیقت پیش گوئی بر ہماں ختم شد، بلکہ اصل امر بر حال خود قائم است، وہیچکس با حیلۂ خود اوراء نتواند کرد واین تقدیر از خدائے بزرگ تقدیر مبرم است وعنقریب وقت آں خواہد آمد۔ پس قسم آں خدائے کہ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ را برائے ما مبعوث فرمود و اوراء بہترین مخلوق گرد ایند کہ این حق است، وعنقریب خواہی دید، ومن این را برائے صدق خود یا کذب خود معیار می گردانم۔ و من نہ گفتم الا بعد ازاں کہ از رب خود خبر داده شدم۔" 11
"پھر میں نے تم سے یہ نہیں کہا کہ یہ قصہ یہیں ختم ہو گیا ہے اور آخری نتیجہ بس یہی تھا جو ظہور میں آ چکا، اور پیش گوئی کی حقیقت صرف اسی پر ختم ہوگئی۔ نہیں! بلکہ اصل بات (یعنی سلطان محمد کا مرنا، اور اس کی منکوحہ کا بیوہ ہو کر مرزا صاحب کے حبالۂ عقد میں آنا) اپنے حال پر قائم ہے، اور کوئی شخص کسی حیلہ کے ساتھ اسے نہیں ٹال سکتا۔ یہ خدائے بزرگ کی طرف سے تقدیر مبرم ہے، اور عنقریب اس کا وقت آئے گا، پس اس خدا کی قسم! جس نے محمد ﷺ کو معبوث کیا اور آپ کو تمام مخلوق سے افضل بنایا، یہ پیش گوئی حق ہے۔ اور عنقریب تم اس کا انجام دیکھ لو گے۔ اور میں اس کو اپنے صدق اور کذب کے لئے معیار ٹھہراتا ہوں، اور میں نے نہیں کہا مگر بعد اس کے کہ مجھے اپنے رب کی جانب سے خبر دی گئی۔" 12
مرزا صاحب نے سلطان محمد کی موت کو اپنے صدق وکذب کا معیار ٹھہرایا تھا، یعنی اگر سلطان محمد مزرا صاحب کی زندگی میں مر جائے تو مرزا صاحب سچے، ورنہ جھوٹے۔ مگر افسوس کہ اس معیار پر بھی مرزا صاحب جھوٹے ہی ثابت ہوئے، کیونکہ مرزا صاحب ۲۶ مئی ۱۹۰۸ء کو خود چل بسے، اور جناب سلطان محمد صاحب ان کے بعد اکتالیس سال تک زندہ سلامت رہے۔
سلطان محمد کی موت ہی کے بارے میں فرماتے ہیں:
"یاد رکھو اگر اس پیش گوئی کی دوسری جزو پوری نہ ہوئی۔ (یعنی احمد بیگ کا داماد مرزا صاحب کی زندگی میں نہ مرا۔ ناقل) تو میں ہر ایک بد سے بد سے بدتر ٹھہروں گا۔ اے احمقو! یہ انسان کا افتراء نہیں۔ کسی خبیث مفتری کا کاروبار نہیں۔ یقیناً سمجھو کہ یہ خدا کا سچا وعدہ ہے وہی خدا جس کی باتیں نہیں ٹلتیں، وہی رب ذو الجلال جس کے ارادوں کو کوئی نہیں روک سکتا۔" 13
چونکہ سلطان محمد صاحب کا انتقال مرزا صاحب کی زندگی میں نہیں ہوا اس لئے مرزا صاحب بقول خود "ہر بد سے بدتر" ٹھہرے۔ اور یہ بھی ثابت ہوا کہ یہ پیش گوئی بقول مرزا صاحب کے انسان کا افتراء اور کسی خبیث مفتری کا کاروبار تھا، اگر یہ خدا کا سچا وعدہ ہوتا تو ناممکن تھا کہ ٹل جاتا، کیونکہ رب ذو الجلال کے ارادوں کو کوئی روک نہیں سکتا۔ جو شخص اتنی موٹی بات کو بھی نہیں سمجھے مرزا صاحب اسے "احمق" کا خطاب دیتے ہیں۔
میں بار بار کہتا ہوں کہ نفس پیش گوئی داماد احمد بیگ کی تقدیر مبرم ہے، اس کی انتظار کرو، اور اگر میں جھوٹا ہوں تو یہ پیش گوئی پوری نہیں ہوگی اور میری موت آجائے گی، اور اگر میں سچا ہوں تو خدا تعالیٰ اسے ضرور پورا کرے گا۔" 14
افسوس مرزا صاحب کی زندگی میں احمد بیگ کا داماد نہیں مرا، اس لئے مرزا صاحب کی یہ بات بالکل صحیح نکلی کہ "اگر میں جھوٹا ہوں تو یہ پیش گوئی پوری نہیں ہوگی اور میری موت آجائے گی۔"
نکاح آسمانی کی تائید میں حدیث نبوی ﷺ سے استدلال کرتے ہوئے مرزا صاحب لکھتے ہیں:
اس پیش گوئی کی تصدیق کے لئے جناب رسول اللہ ﷺ نے بھی پہلے سے پیش گوئی فرمائی ہوئی ہے۔ یتزوج ویولد لہ، یعنی وہ مسیح موعود ۔۔۔ بیوی کرے گا اور نیز صاحب اولاد ہوگا۔ اب ظاہر ہے کہ تزوج اور اولاد کا ذکر کرنا عام طور پر مقصود نہیں، کیونکہ عام طور پر ہر ایک شادی کرتا ہے اور اولاد بھی ہوتی ہے، اس میں کچھ خوبی نہیں بلکہ تزوج سے مراد خاص تزوج ہے جو بطور نشان ہوگا اور اولاد سے مراد خاص اولاد ہے جس کی نسبت اس عاجز کی پیش گوئی ہے۔ گویا اس جگہ رسول اللہ ﷺ ان سیاہ دل منکروں کو ان کے شبہات کا جواب دے رہے ہیں کہ یہ باتیں ضرور پوری ہوں گی۔" 15
مرزا صاحب کو اس "خاص نکاح" اور "خاص اولاد" سے اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ محروم رکھا، جس سے ثابت ہوا کہ مرزا صاحب کا مسیح موعود ہونے کا دعویٰ غلط ہے اور یہ کہ آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد حضرت عیسیٰ کے حق میں ہے کہ جب وہ زمین پر دوبارہ نزول فرمائیں گے تو شادی بھی کریں گے اور ان کی اولاد بھی ہوگی۔ جو لوگ ان کی تشریف کے منکر ہیں انہی کے بارے میں مرزا صاحب نے لکھا ہے: "اس جگہ رسول اللہ ﷺ ان سیاہ دل منکروں کو ان کے شبہات کا جواب دے رہے ہیں کہ یہ باتیں ضرور پوری ہوں گی۔"
عبد اللہ آتھم نامی پادری کے ساتھ مرزا صاحب کا پندرہ دن تک مباحثہ ہوتا رہا، مرزا صاحب اپنے حریف کو میدان مباحثہ میں شکست دینے میں ناکام رہے، تو 5 جون ۱۸۹۳ء کو الہامی پیش گوئی کر دی کہ پندرہ مہینے تک ان کا حریف ہاویہ میں گرایا جائے گا۔ بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے، اس سلسلہ میں مرزا صاحب لکھتے ہیں:
"میں اس وقت اقرار کرتا ہوں اگر یہ پیش گوئی جھوٹی نکلے، یعنی جو فریق خدا تعالیٰ کے نزدیک جھوٹ پر ہے وہ پندرہ (۱۵) ماہ کے عرصے میں آج کی تاریخ سے بسزائے موت ہاویہ میں نہ پڑے تو میں ہر ایک سزا کو اٹھانے کے لئے تیار ہوں۔ مجھ کو ذلیل کیا جائے، رو سیاہ کیا جائے۔ میرے گلے میں رسا ڈال دیا جاوے، مجھ کو پھانسی دی جاوے ہر ایک بات کے لئے تیار ہوں اور میں اللہ جل شانہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ وہ ضرور ایسا ہی کرے گا، ضرور کرے گا، ضرور کرے گا، زمین وآسمان ٹل جائیں پر اس کی باتیں نہ ٹلیں گی۔ اگر میں جھوٹا ہوں تو میرے لئے سولی تیار رکھو اور تمام شیطانوں اور بدکاروں اور لعنتیوں سے زیادہ مجھے لعنتی سمجھو۔" 15
پیش گوئی کی آخری معیاد ۵ ستمبر ۱۸۹۴ء تھی مگر آتھم نے اس تاریخ تک نہ تو عیسائیت سے توبہ کی اور نہ اسلام کی طرف رجوع کیا، نہ بسزائے موت ہاویہ میں گرا، مرزا صاحب نے اس کو مارنے کے لئے ٹونے ٹوٹکے بھی کئے۔
اور معیاد کے آخری دن خدا سے آہ وزاری کے ساتھ "یا اللہ! آتھم مر جائے، یا اللہ! آتھم مر جائے" کی دعائیں بھی کیں، کرائیں۔ 16
مگر سب کچھ بے سود۔ نہ آتھم پر ٹونے ٹوٹکوں کا اثر ہوا، نہ خدا نے قادیان کی آه وزاری، نوحہ وماتم اور بد دعاؤں کو آتھم کے حق میں قبول فرمایا، اس کا نتیجہ وہی ہوا جو مرزا صاحب نے اپنے لئے تجویز کیا تھا یعنی:
"میں اقرار کرتا ہوں کہ اگر یہ پیش گوئی جھوٹی نکلی تو مجھ کو ذلیل کیا جائے، رو سیاہ کیا جائے اور تمام شیطانوں اور بدکاروں اور لعنتیوں سے زیادہ مجھے لعنتی سمجھو۔"
چنانچہ مرزا صاحب کے اس ارشاد کی تعمیل فریق مخالف نے کس طرح کی؟ اس کا اندازہ ان گندے اشتہاروں سے کیا جا سکتا ہے جو اس معیاد کے گزرنے پر اس کی طرف سے شائع کئے گئے۔
یہ مرزا صاحب کے اس فقرے کی صدائے باز گشت تھی کہ "تمام شیطانوں اور بدکاروں اور لعنتیوں سے زیادہ مجھے لعنتی سمجھو۔" اگر وہ ایسے نہ ہوتے تو خدا ان کو عیسائیوں کے مقابلے میں اس قدر ذلیل نہ کرتا۔
شہادة القرآن میں مرزا صاحب لکھتے ہیں:
"پھر ماسوا اس کے بعضے اور عظیم الشان نشان اس عاجز کی طرف سے معرض امتحان میں ہیں، جیسا کہ منشی عبد اللہ آتھم صاحب امرتسری کی نسبت پیش گوئی، جس کی میعاد ۵ جون (۱۸۹۳ء) سے ۱۵ مہینہ تک اور پھر مرزا احمد بیگ کے داماد کی نسبت پیش گوئی، جو پٹی ضلع لاہور کا باشندہ ہے، جس کی میعاد آج کی تاریخ سے، جو ۲۱ ستمبر ۱۸۹۳ء، قریباً گیارہ مہینے باقی رہ گئے ہیں، یہ تمام امور جو انسانی طاقتوں سے بالکل بالاتر ہیں ایک صادق یا کاذب کی شناخت کے لئے کافی ہیں۔" 17
صادق یا کاذب کی شناخت کا طریقہ یہی ہے کہ اگر یہ پیش گوئیاں مقررہ میعاد پر پوری ہو گئیں تو پیش گوئی کرنے والا ان پیش گوئیوں میں سچا سمجھا جائے گا، ورنہ جھوٹا۔ اب چونکہ یہ پیش گوئیاں پوری نہیں ہوئی اس لئے یہ مرزا صاحب کے کذب کی شناخت کے لئے واقعی کافی ثابت ہوئیں۔ اس کے بعد مرزا صاحب کو کاذب ثابت کرنے کے لئے کسی اور دلیل کی ضرورت نہیں رہی۔
"میں بالآخر دعا کرتا ہوں کہ اے خدائے قادر وعلیم اگر آتھم کا عذاب مہلک میں گرفتار ہونا اور احمد بیگ کی دختر کلاں کا آخر اس عاجز کے نکاح میں آنا یہ پیش گوئیاں تیری طرف سے نہیں تو مجھے نامرادی اور ذلت کے ساتھ ہلاک کر۔ اگر میں تیری نظر میں مردود اور ملعون اور دجال ہوں جیسا کہ مخالفین نے سمجھا ہے اور تیری وہ رحمت میرے ساتھ نہیں جو فلاں فلاں انبیاء واولیاء کے ساتھ تھی (یہاں مرزا صاحب نے بہت سے انبیاء واولیاء کے نام ذکر کئے ہیں) تو مجھے فنا کر ڈال، اور ذلتوں کے ساتھ مجھے ہلاک کر دے اور ہمیشہ کی لعنتوں کا نشانہ بنا، اور دشمنوں کو خوش کر اور ان کی دعا قبول فرما۔" 18
مرزا صاحب کی ان جگر شگاف التجاؤں اور اپنے اوپر بد دعاؤں کے باوجود خدا نے انہیں محمدی بیگم کے نکاح سے تا دم زیست محروم ہی رکھا، جس سے معلوم ہوا کہ وہ بقول خود! "خدا کی نظر میں (مردود) ملعون اور دجال تھے، جیسا کہ مخالفین نے سمجھا ہے۔" افسوس وہ اپنی بد دعا کے نتیجے میں بقول خود "نامرادی اور ذلت کے ساتھ ہلاک ہو گئے، ہمیشہ کی لعنتوں کا نشانہ بن گئے، ان کے دشمن خوش ہوئے اور ان کی دعا قبول ہوئی۔"
ضمیمہ انجام آتھم میں لکھتے ہیں:
"شیخ محمد حسین بٹالوی اور دوسرے نامی مخالف مجھ سے مباہلہ کر لیں، پس اگر مباہلہ کے بعد میری بد دعا کے اثر سے ایک بھی خالی رہا تو میں اقرار کروں گا کہ میں جھوٹا ہوں۔" 19
مرزا صاحب کے اسی اصول کے مطابق مولانا عبد الحق غزنوی کا مرزا صاحب سے مباہلہ ہوا تھا، جس کا اثر یہ ہوا کہ مباہلہ کے بعد مرزا صاحب، مولانا مرحوم کے سامنے مر گئے، جس سے مرزا صاحب کے اس قول واقرار کی تصدیق ہو گئی کہ "میں جھوٹا ہوں۔"
مرزا صاحب کی تحریریں شاہد ہیں کہ وہ مراق کے مریض تھے، چنانچہ ملاحظہ ہو:
(الف) "دیکھو میری بیماری کی نسبت بھی آنحضرت ﷺ نے پیش گوئی کی تھی جو اسی طرح وقوع میں آئی۔ آپ ﷺ نے فرمایا تھا کہ مسیح جب آسمان سے اترے گا تو دو زرد چادریں اس نے پہنی ہوئی ہوں گی، تو اسی طرح مجھ کو دو بیماریاں ہیں، ایک اوپر کے دھڑ کی اور ایک نیچے کے دھڑ کی، یعنی مراق اور کثرت بول۔"20
(ب) "میرا تو یہ حال ہے کہ دو بیماریوں میں ہمیشہ مبتلا رہا ہوں، تاہم مصروفیت کا یہ حال ہے کہ بڑی بڑی رات تک بیٹھا کام کرتا رہتا ہوں۔ حالانکہ زیادہ جاگنے سے مراق کی بیماری ترقی کرتی ہے۔ دوران سر کا دورہ زیادہ ہو جاتا ہے تاہم اس بات کی پرواہ نہیں کرتا اور اس کام کو کئے جاتا ہوں۔ 21
(ج) "حضرت خلیفۃ المسيح الاول نے حضرت مسیح موعود (مرزا غلام احمد) سے فرمایا کہ حضور! غلام نبی کو مراق ہے، تو حضور نے فرمایا کہ ایک رنگ میں سب نبیوں کو مراق ہوتا ہے۔ (نعوذ باللہ! ناقل) اور مجھ کو بھی ہے۔ 22
اس اقرار واعتراف سے قطع نظر مرزا صاحب میں مراق کی علامات بھی کامل طور پر جمع تھیں مرزا بشیر احمد ایم اے سیرۃ المہدی میں اپنے ماموں ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب کی "ماہرانہ شہادت" نقل کرتے ہیں کہ:
(د) "ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے کئی دفعہ حضرت مسیح موعود (مرزا غلام احمد) سے سنا ہے کہ مجھے ہسٹریا ہے، بعض اوقات آپ مراق بھی فرمایا کرتے تھے، لیکن دراصل بات یہ ہے کہ آپ کو دماغی محنت اور شبانہ روز تصنیف کی مشقت کی وجہ سے بعض ایسی عصبی علامات پیدا ہو جایا کرتی تھیں، جو ہسٹریا (اور مراق) کے مریضوں میں بھی عموماً دیکھی جاتی ہیں، مثلاً کام کرتے کرتے یک دم ضعف ہو جانا، چکروں کا آنا، ہاتھ پاؤں کا سرد ہو جانا، گھبراہٹ کا دورہ ہو جانا یا ایسا معلوم ہونا کہ ابھی دم نکلتا ہے، یا کسی تنگ جگہ یا بعض اوقات زیادہ آدمیوں میں گھر کر بیٹھنے سے دل کا سخت پریشان ہونے لگنا، وغیرہ ذلک۔
مرزا صاحب کو مراق کا عارضہ غالباً موروثی تھا، ڈاکٹر شاہ نواز قادیانی لکھتے ہیں:
(ہ) "جب خاندان سے اس کی ابتداء ہو چکی تھی تو پھر اگلی نسل میں بے شک یہ مرض منتقل ہوا چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح ثانی نے فرمایا کہ مجھ کو بھی کبھی کبھی مراق کا دورہ ہوتا ہے۔"23
ڈاکٹر صاحب کے نزدیک مرزا صاحب کے مراق کا سبب اعصابی کمزوری تھی وہ لکھتے ہیں:
"واضح ہو کہ حضرت صاحب کی تمام تکالیف مثلاً دوران سر، درد سر، کمی خواب، تشنج دل، بد ہضمی، اسہال، کثرت پیشاب اور مراق وغیرہ کا صرف ایک ہی باعث تھا اور وہ عصبی کمزوری تھا۔" 24
1۔ علامہ برہان الدین نفیس مراق کے تعارف میں لکھتے ہیں:
’’مالیخولیا کی ایک قسم ہے جس کو مراق کہتے ہیں۔ یہ مرض تیز سودا سے جو معدہ میں جمع ہوتا ہے پیدا ہوتا ہے اور جس عضو میں یہ مادہ جمع ہو جاتا ہے اس سے سیاہ بخارات اُٹھ کر دماغ کی طرف چڑھتے ہیں۔
’’اس کی علامات یہ ہیں: ترش دخانی ڈکاریں آنا، ضعف معدہ کی وجہ سے کھانے کی لذت کم معلوم ہونا، ہاضمہ خراب ہو جانا، پیٹ پھولنا، پاخانہ پتلا ہونا، دھویں جیسے بخارات چڑھتے ہوئے معلوم ہونا۔‘‘ 25
2۔ حکیم بو علی سینا مالیخولیا کے متعلق لکھتے ہیں:
’’مالیخولیا اس مرض کو کہتے ہیں جس میں حالت طبعی کے خلاف خیالات و افکار متغیر بخوف و فساد ہو جاتے ہیں۔ اس کا سبب مزاج کا سودا دی ہو جانا ہوتا ہے۔ جس سے روح دماغی اندرونی طور پر متوحش ہوتی ہے اور مریض اس کی ظلمت سے پراگندہ خاطر ہو جاتا ہے یا پھر یہ مرض حرارتِ جگر کی شدت کی وجہ سے ہوتا ہے اور یہی چیز مراق ہوتی ہے۔ جب اس میں غذا کے فضلات اور آنتوں کے بخارات جمع ہو جاتے ہیں اور اس کے اخلاط جل کر سودا کی صورت میں تبدیل ہو جاتے ہیں تو ان اعضاء سے سیاہ بخارات اٹھ کر سر کی طرف چڑھتے ہیں۔ اسی کو نفخہ مراقیہ، مالیخولیائے نافخ اور مالیخولیائے مراقی کہتے ہیں۔‘‘ 26
ماہرین طب نے مراق کی جو علامات بیان کی ہیں ان میں سے چند اہم درج ذیل ہیں:
مریض کا فکر سلامت نہیں رہتا
’’یہ ایک قسم کا مالیخولیا ہے جس میں مریض کے افکار و خیالات حالت طبعی سے بدل جاتے ہیں اور بالعموم اس میں انانیت یعنی خودی اور تکبر اور تعلی یعنی اپنی بڑائی کے فاسد خیالات سما جاتے ہیں۔ پس وہ ہر بات میں مبالغہ کرتا ہے۔‘‘ 27
دماغی حواس قائم نہیں رہتے
’’اس مرض میں مریض کے دماغی حواس درست نہیں رہتے۔ ہر وقت سست متفکر اور خودی کے خیالات میں مست رہتا ہے۔‘‘ 28
1۔ مریض ہمیشہ سست و متفکر رہتا ہے۔ اس میں خودی کے خیالات پیدا ہو جاتے ہیں۔ ہر ایک بات میں مبالغہ کرتا ہے … بھوک نہیں لگتی، کھانا ٹھیک طور پر ہضم نہیں ہوتا۔29
2۔ اس میں خودی کے خیالات پیدا ہوجاتے ہیں۔ ذرا سی بات یا تکلیف بڑھا کر پیش کرتا ہے۔ ہر بات میں مبالغہ کرتا ہے۔ 30
’’اگر مریض دانشمند ہو تو پیغمبری اور معجزات و کرامات کا دعویٰ کرتا ہے۔ خدائی باتیں کرتا ہے اور لوگوں کو اس کی تبلیغ کرتا ہے۔‘‘ 31
’’اور کبھی بعض میں فساد اس حد تک پہنچ جاتا ہے کہ گمان کرنے لگتے ہیں کہ وہ فرشتہ ہو گئے اور کبھی بعض میں (فساد) اس سے بھی زیادہ حد تک پہنچ جاتا ہے وہ گمان کرتے ہیں کہ وہ خدا ہیں۔‘‘ 32
’’بعض مریضوں میں گاہے گاہے یہ فساد اس حد تک پہنچ جاتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو غیب دان سمجھتا ہے اور اکثر ہونے والے اُمور کی پہلے ہی خبر دے دیتا ہے اور بعض میں یہ فساد یہاں تک ترقی کر جاتا ہے کہ اس کو اپنے متعلق یہ خیال ہوتا ہے کہ میں فرشتہ ہوں۔‘‘ 33
1۔ مریض اپنے آپ کو بہت کچھ سمجھنے لگتا ہے۔ اپنے آپ کو کبھی بادشاہ اور کبھی پیغمبر سمجھتا ہے۔ 34
2۔ کسی کو بادشاہ بننے اور ملک فتح کرنے کے خیالات ہو جاتے ہیں۔ بعض عالم اس مرض میں مبتلا ہوکر دعویٰ پیغمبری کرنے لگتے ہیں اور اپنے بعض اتفاقی صحیح واقعات کو معجزات قرار دینے لگتے ہیں۔ 35
عظمت و بزرگی کا ہر پہلو عنوانِ دعویٰ بن سکتا ہے:
اس بیماری میں مبتلا مریض کی عقل میں فتور آجاتا ہے وہ اپنے فضول اور بے بنیاد وہم کی وجہ سے خائف یا آمادۂ فساد رہتا ہے، بادشاہی یا ولایت یا پیغمبری کا دعویٰ کرتا ہے۔ 36
خیالات خام ہوجاتے ہیں، کوئی اپنے آپ کو بادشاہ، جرنیل قرار دیتا ہے۔ بعض پیغمبری کا دعویٰ کرتے اور اپنے اتفاقیہ صحیح واقعات کو معجزات قرار دیتے ہیں۔ 37
ڈاکٹر شاہنواز قادیانی کی رائے:
’’ایک مدعی الہام کے متعلق اگر یہ ثابت ہو جائے کہ اس کو ہسٹریا، مالیخولیا، مرگی کا مرض تھا تو اس کے دعوے کی تردید کے لیے پھر کسی اور ضرب کی ضرورت نہیں رہتی کیونکہ یہ ایسی چوٹ ہے جو اس کی صداقت کی عمارت کو بیخ و بن سے اکھاڑ دیتی ہے۔‘‘ 38