logoختم نبوت

مرزا غلام احمد قادیانی کی سوانح پیدائش سے موت تک

مرزا غلام احمد قادیانی کی پیدائش:

مرزا صاحب اپنی پیدائش کے متعلق لکھتے ہیں:

’’میں تو اُم پیدا ہوا تھا اور میرے ساتھ ایک لڑکی تھی جس کا نام جنت تھا اور یہ الہام کہ

یَا آدَمُ اسْکُنْ اَنْتَ وَزَوْجُکْ الْجَنَّة

جو آج سے بیس برس پہلے براہینِ احمدیہ کے صفحہ 496 میں درج ہے اس میں جو جنت کا لفظ ہے اس میں یہ ایک لطیف اشارہ ہے کہ وہ لڑکی جو میرے ساتھ پیدا ہوئی اس کا نام جنت تھا۔‘‘1

چونکہ مرزا صاحب کے ساتھ پیدا ہونے والا دوسرا بچہ لڑکی تھی اس لیے انہیں یہ وہم تھا کہ ان کے اندر بھی انثیّت کا مادہ موجود ہے چنانچہ انہوں نے اپنے اس خیال کا اظہاریوں کیا:

’’میں خیال کرتا ہوںکہ اس طرح پر خدا تعالیٰ نے انثیت کا مادہ مجھ سے بکلّی الگ کر دیا۔‘‘ 2

مرزا صاحب کی تاریخِ پیدائش کا معمہ:

مرزا صاحب کی تاریخ پیدائش کے متعلق متضاد بیانات سے معلوم ہوتاہے کہ حتمی تاریخ کا علم خود مرزا صاحب کو اور ان کے اہل خانہ کو بھی نہیں۔ معروف یہی ہے کہ و ہ لاہور کے شمال مشرق میں 50، 55 میل پر و اقع ہندوستان کے ضلع گورداسپور کے ایک چھوٹے سے قصبہ قادیان میں 13 فروری 1839ء یا 1840ء میں پیدا ہوئے، جب سکھ حکومت دم توڑ رہی تھی اور ہندوستان میں برطانوی اقتدار کا سورج طلوع ہو رہا تھا۔ اس دور کے متعلق ان کی اپنی تحریروں سے پتا چلتا ہے کہ جب 1857 کا ہنگامہ آزادی شروع ہوا تو اس وقت ان کی عمر سولہ سترہ سال تھی۔

مرزا صاحب لکھتے ہیں:

’’میری پیدائش 1839ء یا 1840ء میں سکھوں کے آخری وقت میں ہوئی ہے اور میں 1857ء میں سولہ برس کا یا سترھویں برس میں تھا اور ریش و برودت کا آغاز نہیں تھا۔‘‘3

اپنی تاریخ پیدائش سے متعلق قادیانیت کے پیشوا کے بیان پر غیر تو غیرٹھہرے ان کے اپنے بیٹے کو بھی اعتماد نہیں۔ وہ اسے صحیح تسلیم نہیں کرتا اور اپنے اختلاف کا اظہار اس طرح کرتا ہے:

’’لیکن بعد میں ان کے خاندان کے افراد میںان کے سالِ ولادت کے بارے میں اختلاف پیدا ہو گیا تھا۔ پہلے نظریے کے مطابق سال ولادت 1836ء یا 1837ء ہو سکتا ہے۔‘‘4

’’ایک تخمینہ کے مطابق سال ولادت1831ء ہو سکتا ہے۔‘‘ 5

’’پس 13 فروری 1835 عیسوی بمطابق 14 شوال 1250 ہجری بروز جمعہ والی تاریخ صحیح قرار پاتی ہے۔‘‘6

’’جبکہ دیگر 1833ء یا 1834ء کو سال ولادت قرار دیتے ہیں۔‘‘7

’’معراج دین نے تاریخ ولادت 17 فروری 1832ء مقرر کی ہے۔‘‘8

مرزا صاحب کی تاریخ پیدائش کا تعین ایک ایسا معمہ ہے جسے ان کا بیٹا بھی حل نہ کر سکا اور شش و پنج میں پڑ گیا۔

مرزا غلام احمد قادیانی کا نام و نسب اور خاندان:

مرزا غلام احمد قادیانی کے نام و نسب اور خاندان کے بارے میں جاننا اس لیے ضروری ہے کہ کسی تنظیم اور تحریک کے بانی کے عزائم و مقاصد اورنظریات و خیالات اس کی شخصیت کے گرد گھومتے ہیں اور انہیں اس کی ذات سے الگ کرکے دیکھنا اور پرکھنا ممکن نہیں۔

مرزا صاحب کا نام غلام احمد، ماں کا نام چراغ بی بی، باپ کا نام غلام مرتضیٰ، دادا کا نام عطا محمد اور پردادا کا نام گل محمد تھا۔ مرزا کے اس شجرۂ نسب سے اس کی اور اس کے آباء و اجداد کی نسل متعین کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن نظر آتا ہے کیونکہ مرزائے قادیان کو خود معلوم نہیں کہ ان کی نسل اور خاندان کیا ہے؟ وہ اس حوالے سے تشکیک و ابہام کا شکار نظر آتے ہیں۔ اس کا ثبوت خود ان کی تحریریں ہیں۔ وہ اپنی اصل ونسل کے بارے میںمتضاد بیانات دیتے ہیں اور کسی ایک نسل یا خاندان پر اکتفا نہیں کرتے۔ یہ بات عام قاری کے لیے حیرانی کا باعث ہے۔ ہم ذیل میں مرزا کی تحریروں کی روشنی میںان کی نسل وخاندان معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

1۔ مغل برلاس:

مرزا صاحب کی ایک تحریر کے مطابق ان کا تعلق مغل قوم اور اس کی شاخ برلاس سے تھا۔ وہ اپنی تصنیف ’’کتاب البریہ‘‘ کے حاشیہ میں لکھتے ہیں:

’’اب میرے سوانح اس طرح پر ہیں کہ میرا نام غلام احمد میرے والدصاحب کا نام غلام مرتضیٰ اور دادا صاحب کا نام عطا محمداور پڑدادا صاحب کا نام گُل محمد تھا اور جیسا کہ بیان کیا گیا ہے ہماری قوم برلاس ہے اور میرے بزرگو علیہ السلام کے پرانے کاغذات سے جو اب تک محفوظ ہیںمعلوم ہوتا ہے کہ وہ اس ملک میں ثمرقند سے آئے تھے۔‘‘9

2۔ فارسی الاصل ہونے کا گمان:

لیکن پھر انہیں جانے کیا سوجھی کہ قرآنی آیات اور احادیثِ نبوی ﷺ کی کچھ نصوص کو پڑھتے ہی انہوں نے خود کو ان کا مصداق سمجھنا شروع کر دیا اور کچھ عبارتیں اپنے پاس سے گھڑ کر انہیں الہام قرار دے دیا۔ بعض احادیثِ مبارکہ میں حضور ﷺ نے فارس کا تذکرہ فرمایا اور محدثین کی اکثریت نے اس سے مراد امام اعظم ابو حنیفہؒ لیے ہیں کیونکہ وہ فارسی النسل تھے اور ان کی علمی خدمات کا ایک جہان معترف ہے اور یہ اعتراف صدیوں پر پھیلا ہوا ہے۔ لیکن مرزا صاحب نے خود ہی اسے اپنے بارے میں الہام بنا کر اپنے آباء و اجداد کو فارسی الاصل قرار دینے کی کوشش کی۔

چنانچہ مذکورہ کتاب کے حاشیے میں لکھتے ہیں:

’’دوسرا الہام میری نسبت یہ ہے:

لَوْ كانَ الايْمَانُ مُعَلَّقًا بِالثُّرَيَّا لَیَنَالُهُ رَجُلٌ مِنْ فَارَس
یعنی اگر ایمان ثریا سے معلّق ہوتا تو یہ مرد جو فارسی الاصل ہے وہیں جاکر اس کو لے لیتا۔

اور پھر تیسرا الہام میری نسبت یہ ہے:

إن الذین كفروا رد علیھم رجل من فارس شكر اللہ سعیه
یعنی جو لوگ کافر ہوئے اس مرد نے جو فارسی الاصل ہے ان کے مذاہب کو رد کر دیا۔ خدا اس کی کوشش کا شکر گزار ہے۔

یہ تمام الہامات ظاہر کرتے ہیں کہ ہمارے آباء اوّلین فارسی تھے۔‘‘ 10

اپنے خاندان کے حوالے سے اپنے اس خلافِ حقیقت بیان کی وہ خود ہی ایک جگہ نفی کرتے ہوئے کہتے ہیں:

’’یاد رہے کہ اس خاکسار کا خاندان بظاہر مغلیہ خاندان ہے کوئی تذکرہ ہمارے خاندان کی تاریخ میں یہ نہیںدیکھا گیا کہ وہ بنی فارس کا خاندان تھا، ہاں بعض کاغذات میں یہ دیکھا گیا کہ ہماری بعض دادیاں شریف اور مشہور سادات میں سے تھیں، اب خدا کے کلام سے معلوم ہوا کہ در اصل ہمارا خاندان فارسی خاندان ہے، سو اس پر ہم پورے یقین سے ایمان لاتے ہیںکیونکہ خاندانوں کی حقیقت جیسا کہ اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کسی دوسرے کو ہر گز معلوم نہیں، اسی کا علم صحیح اور یقینی اور دوسرے کا شکی اور ظنی۔‘‘11

3۔ بیک وقت اِسرائیلی اور فاطمی:

مرزا قادیانی اس حد تک تضاد بیانی کا شکار ہیں کہ کبھی وہ مغلوں کی شاخ برلاس کہتے ہیں، پھر فارسی الأصل ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور جب طبیعت اس پر بھی اکتفا نہیں کرتی تو بیک جنبشِ قلم خود کو اسرائیلی اور فاطمی بھی قرار دینے لگتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:

’’خدا نے مجھے یہ شرف بخشا ہے کہ میں اسرائیلی بھی ہوں اور فاطمی بھی۔‘‘ 12

4۔ چینی النسل:

اپنی نسل اور اصل کے بارے میں مرزا صاحب نے ایک اور پینترا بدلا اور خود کو چینی النسل ثابت کرنے لگے۔ اپنی کتاب’’ تحفہ گولڑویہ‘‘ میں لکھا:

’’میرے بزرگ چینی حدود سے پنجاب میں پہنچے ہیں۔‘‘13

5۔ بنی فاطمہ سے ہونے کا دعویٰ:

مرزائے قادیان نے مہدی بننے کے چکر میں بھی اپنی نسل بدلنے کی تحریری کاوشیں کیں۔ بعض احادیث میں چونکہ امام مہدی کے خاندانی نسب کی نشاندہی بھی موجود ہے اس لیے مرزا صاحب نے بڑے ہی تکلف کے ساتھ بنی فاطمہ سے ہونے کا دعویٰ کیا:

’’میں اگر چہ علوی تو نہیں ہوں مگر بنی فاطمہ میں سے ہوں۔ میری بعض دادیاں مشہور اور صحیح النسب سادات میں سے تھیں۔‘‘14

6۔ ایک معجون مرکب:

مرزا صاحب اپنی خاندانی اصل کے بارے میں درجہ بالا متضاد معلومات بہم پہنچانے کے بعد خود ہی لکھتے ہیں:

’’اورمیں اپنے خاندان کی نسبت کئی دفعہ لکھ چکا ہوںکہ وہ ایک شاہی خاندان ہے اور بنی فارس اور بنی فاطمہ کے خون سے ایک معجون مرکب ہے۔‘‘ 15

7۔ ہندو ہونے کا اعلان:

ہندوستان میں اپنے اردگرد پھیلے ہوئے ہندو ؤں کو خوش کرنے کے لیے مرزا صاحب اپنا ناتہ ان سے بھی جوڑنے سے نہیں چونکتے بلکہ نت نئے دعوؤں کا ریکارڈ بناتے ہوئے اعلان کرتے ہیں:

}’’پس جیسا کہ آریہ قوم کے لوگ کرشن کے ظہور کا ان دنوں میں انتظار کرتے ہیں وہ کرشن میں ہی ہوں۔‘‘16

8۔ سکھ ہونے کا اعلان:

مرزا صاحب نے سکھوں کے ساتھ بھی اپنا تعلق ظاہر کیا۔ چنانچہ سکھ ہونے کا اعلان اس تعارف کے ساتھ کرتے ہیں:

’’8 ستمبر 06 19ء بوقت فجر کئی الہام ہوئے۔ ان میں سے ایک یہ بھی ہے امین الملک جے سنگھ بہادر۔‘‘17

9۔ آریوں کا بادشاہ ہونے کا اعلان:

مرزا صاحب اپنے ایک الہام میں خود کو آریوں کا بادشاہ قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’یہ دعوی صرف میری طرف سے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ نے بار بار میرے پر ظاہر کیا ہے کہ جو کرشن آخر زمانہ میں ظاہر ہونے والا تھا وہ تو ہی ہے۔ آریوں کا بادشاہ۔18

10۔ رُدّر گوپال ہونے کا اعلان:

’’جو ملک ہند میں کرشن نام ایک نبی گذرا ہے جس کو ردّر گوپال بھی کہتے ہیں (یعنی فنا کرنے والا اور پرورش کرنے والا)اس کا نام بھی مجھے دیا گیا ہے۔‘‘ 19

11۔ نسلیں ہیں میری بے شمار:

مختلف نسلیں تبدیل کرنے کے بعد وہ ایسی لفظی قلابازی کھاتے ہیں کہ عقل حیران اور ناطقہ سربگر یبان ہونے لگتا ہے۔ وہ کہتے ہیں:

میں کبھی آدم، کبھی موسیٰ، کبھی یعقوب ہوں

نیز ابراہیم ہوں نسلیں ہیں میری بے شمار20

12۔ اعترافِ حقیقت:

پھر ان تمام نسلوں پر خطِ تنسیخ پھیرتے ہوئے ایک اور چھلانگ لگاتے ہیں اور خود کو نوع انسانی سے نکال باہر کرتے ہیں اور اپنی حقیقت کااعتراف یوں کرتے ہیں:

کِرم خاکی ہوں میں پیارے نہ میں آدم زاد ہوں

ہوں بشر کی جائے نفرت اور اِنسانوں کی عار 21

مرزا کی نسل کا مسئلہ ابھی تک لاینحل ہے، اس لیے ہم اس بحث کو یہیں سمیٹتے ہیں۔

مرزا قادیانی کی جنس:

مرزا صاحب کے بقول ان کے ساتھ پیدا ہونے والی لڑکی کی موت کے ساتھ ہی ان سے انثیت کا مادہ کلیتاً الگ کر دیا گیا تھا۔ اس کے بعد مرزا صاحب کو اپنی مردانگی کا یقین ہو جانا چاہیے تھا مگرایسا نہیں ہوا، وہ بعد میںجنس مخالف ہونے کا دعویٰ کرتے رہے۔ اس کا سبب مرزا صاحب ہی جانتے ہوں گے ہم تو یہ کہہ سکتے ہیں کہ مرزا صاحب ایک عجیب و غریب شخص تھے۔ بھول بھلیوں اور پہیلیوں کے شوقین حضرات کے لیے وہ گویا ایک پہیلی تھے وہ مرد تھے یا عورت؟ آپ بھی عقل آزمائیں۔ ان کی کہانی ان کی زبانی ملاحظہ کریں:

1۔ ’’الہام ہوا کہ تو فارسی جوان ہے۔‘‘ 22

تذکرہ، مجموعہ الہامات: 634

2۔ ’’الہام ہواسلامت بر تو اے مرد سلامت۔‘‘23

3۔ لیکن اس کے بعد دعویٰ مردانگی سے منحرف ہو کر دعویٰ نسوانیت کرنے لگتے ہیں:

مرزا صاحب کا ایک مرید قاضی یار محمد اپنے ٹریکٹ نمبر 34 موسومہ ’’اسلامی قربانی‘‘ میں لکھتا ہے:

’’حضرت مسیح موعود (مرزا) نے ایک موقع پر اپنی حالت یہ ظاہر فرمائی کہ کشف کی حالت آپ پر اس طرح طاری ہوئی گویا کہ آپ عورت ہیں اور اللہ تعالیٰ نے رجولیت کی طاقت کا اظہار فرمایا تھا۔‘‘24

4۔ ’’خدا نے مجھے الہام کیا کہ تیرے گھر میں لڑکا پیدا ہو گا۔‘‘ 25

5۔ ’’بابو الٰہی بخش چاہتا ہے کہ تیرا حیض دیکھے۔‘‘ 26

مرزا کے ان الہامات سے کوئی بھی ذی شعور انسان سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ ان کی جنس کیا تھی؟آیا وہ مرد تھے یا عورت یا پھر کچھ اور!

بچپن کی ’’سیرت‘‘ کے چند واقعات:

انبیاء کرام علیھم السلام کی جیسے جوانی پاک وصاف اور قابل اتباع ہوتی ہے ایسے ہی بچپن بھی عام بچوں سے جدا نہایت پر وقار اور ہر قسم کے لہو و لعب سے پاک ہوتا ہے لیکن قادیان کے اس بناوٹی نبی کے بچپن کے حالات گلی محلے کے عام آوارہ بچوں سے بھی گئے گزرے ہیں ۔

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اللہ الوں کا بچپن ان کی آئندہ زندگی کاایک خوبصورت دیباچہ ہوتا ہے۔ لوگ ان کے بچپن سے ان کے سیرت و کردار کی ندرت اور عظمت کا اندازہ لگا لیتے ہیں، جبکہ اس کے برعکس مرزائے قادیان کا بچپن’’ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات‘‘ کے مصداق ان کی آئندہ زندگی کا آئینہ دار اپنی نوعیت کا عجیب بچپن تھا۔ مرزا کی اوائل عمری کی ناقابل رشک سیرت کے چند گوشے قارئین کی نذر کیے جاتے ہیں۔

1بچپن کا نام:

مرزا قادیانی کا لڑکا بشیر احمد ایم اے مرزا قادیانی کے بچپن کا نام ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ:

مرزا قادیانی کا ابتدائی نام دسوندی تھا لیکن سندھی کے نام سے بھی پکارا جاتا تھا۔ 27

2۔ چڑیوں کا شکار:

مرزا صاحب بچپن میں چڑیاں شکار کرنے کے شوقین تھے۔ ان کا بیٹا مرزا بشیر احمد اپنی والدہ کے حوالے سے لکھتا ہے:

’’والدہ صاحبہ نے فرمایاایک دفعہ چند بوڑھی عورتیں وہاں سے آئیں تو انہوں نے باتوں باتوں میں کہا کہ سندھی ہمارے گاؤں میں چڑیاں پکڑا کرتا تھا، والدہ صاحبہ فرماتی ہیں کہ میں سندھی کا مفہوم نہ سمجھ سکی آخر معلوم ہوا کہ سندھی سے مراد حضرت صاحب ہیں۔‘‘28

مرزا بشیر احمد آگے لکھتا ہے:

’’بیان کیا مجھ سے والدہ صاحبہ نے کہ ہماری دادی ایم ضلع ہوشیاپور کی رہنے والی تھیں۔ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ ہم اپنی والدہ کے ساتھ بچپن میں کئی دفعہ ایم گئے ہیں۔ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ وہاںحضرت بچپن میں چڑیاں پکڑا کرتے تھے اور چاقو نہیں ملتا تھا تو سرکنڈے سے ذبح کر لیتے تھے۔‘‘29

3۔ روٹی پر راکھ کا سالن:

مرزا صاحب بچپن میں روٹی پر راکھ بطور سالن رکھ کر کھا گئے۔ مرزا بشیر احمد لکھتا ہے:

’’بیان کیا مجھ سے والدہ صاحبہ نے کہ بعض بوڑھی عورتوں نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ بچپن میں حضرت صاحب نے اپنی والدہ سے روٹی کے ساتھ کچھ کھانے کو مانگا، انہوں نے کوئی چیز شاید گڑ دیا کہ یہ لے لو۔ حضرت نے کہا یہ میں نہیں لیتا۔ انہوں نے کوئی اور چیز بتائی، حضرت صاحب نے اس پربھی وہی جواب دیا وہ اس وقت کسی بات پر چڑی ہوئی بیٹھی تھیں سختی سے کہنے لگیں کہ جاؤ پھر راکھ سے کھا لو، حضرت صاحب روٹی پر راکھ ڈال کر بیٹھ گئے اور گھر میں لطیفہ ہو گیا۔‘‘30

4۔ مرزاصاحب کے دماغی خلل کا ایک اور واقعہ:

مرزا بشیر احمد اپنے والد مرزا غلام احمد قادیانی کے دماغی خلل کا ایک اور واقعہ بیان کرتاہے جو کسی لطیفے سے کم نہیں:

’’بیان کیا مجھ سے والدہ صاحبہ نے کہ ایک دفعہ حضرت صاحب سناتے کہ جب میں بچہ ہوتا تھا تو ایک دفعہ بعض بچوں نے مجھے کہا کہ جاؤ گھر سے میٹھا لاؤ۔ میں گھر آیا اور بغیر کسی سے پوچھنے کے ایک برتن میں سے سفید بورا اپنی جیبوں میں بھر کر باہر لے گیا اور راستہ میں ایک مٹھی بھر کرمنہ میں ڈال لی۔ بس پھر کیا تھا؟ میرا دم رک گیا اور بڑی تکلیف ہوئی کیونکہ معلوم ہوا کہ جسے میں نے سفید بورا سمجھ کر جیبوں میں بھرا تھا وہ بورا نہ تھا بلکہ پسا ہوا نمک تھا۔‘‘ 31

5چھپڑ کا تیراک:

مرزا قادیانی بچپن میں تیرنے کا بھی دلدادہ تھا برسات میں جب قادیان کی ساری غلاظت بارشوں میں بہہ کر قادیان کے اردگرد جمع ہوجاتی تو مرزا قادیانی اس گندے پانی میں دیر تک تیرتا رہتا چنانچہ مرزا قادیانی کا لڑکا لکھتا ہے :

حضرت صاحب (مرزا قادیانی ) نے فرمایا کہ میں بچپن میں اتنا تیرتا تھا کہ ایک وقت میں ساری قادیان کے اردگرد تیر جاتا تھا۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ برسات کے موسم میں قادیان کے اردگرد اتنا پانی جمع ہوتا ہے کہ قادیان ایک جزیرہ بن جاتا ہے۔ ()32

اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ مرزا صاحب کو چوری کی عادت بچپن سے ہی تھی جو بڑھتے بڑھتے ختمِ نبوت کی عمارت میں نقب زنی پرمنتج ہوئی۔

6۔ شعبدہ بازی اور کیمیا گری کا شوق:

’’لالہ بھین سین وکیل سیالکوٹ کا بیان ہے کہ جب میں اور مرزا غلام احمد بٹالہ میں پڑھا کرتے تھے تو ان کی عادت تھی کہ مٹی کا ایک لوٹا (سبلوچہ گلی) پانی سے بھرواتے اور دو لڑکوں سے کہتے کہ اسے ہاتھ میں ایک ایک انگلی سے اٹھائے رہو۔ لڑکے انگلیوں کے سہارے لوٹے کو تھام لیتے اس کے بعد مرزا صاحب کیمیا کے نسخوں کی دوائیں جدا کاغذ کے پرزوں پر لکھ کر گولیاں بناتے اور ایک ایک گولی اس لوٹے میں ڈالتے جاتے اور ساتھ ہی کوئی اسم پڑھتے جاتے تھے، جس گولی کی نوبت پر لوٹا گھوم جاتا تھا، اس گولی کا نسخہ پڑھ کر علیحدہ رکھ لیتے تھے اور پھر اس نسخہ کا تجربہ کرتے تھے لیکن کیمیا گری میں کامیابی کا منہ دیکھنا نصیب نہ ہوا۔‘‘33

اوائلِ جوانی اور آوارگی:

مرزا صاحب کی جوانی کا اوائل دور بھی کسی عام نوجوان سے کم نہیں۔ موصوف نے عمر کے اس سنہری دور میں خوب مزے کیے۔ درج ذیل واقعہ جس کی راویہ مرزا صاحب کی اپنی اہلیہ اور ناقل صاحبزادے ہیں اس بات کا واضح ثبوت ہے:

’’بیان کیا مجھ سے والدہ صاحبہ نے کہ ایک دفعہ اپنی جوانی کے زمانے میں حضرت مسیح موعود تمہارے دادا کی پنشن مبلغ 700 روپے وصول کرنے گئے تو پیچھے پیچھے مرزا امام الدین چلاگیا۔ جب آپ نے پنشن وصول کر لی تو آپ کو بھلا پھسلا کر اور دھوکا دے کر بجائے قادیان لانے کے باہر لے گیا اور ادھر ادھر پھراتا رہا۔ پھر جب اس نے سارا روپیہ اڑا کر ختم کر دیا تو آپ کو چھوڑ کر کہیں اور جگہ چلا گیا۔ حضرت مسیح موعود اس شرم سے گھر واپس نہیں آئے۔‘‘34

آج سے قریبا سوا سو سال قبل 700 روپیہ ایک خطیر رقم تھی۔ اتنی رقم کو کہاں اڑا کر ختم کر دیا؟ اس کا جواب سوائے ’’آوارگی‘‘ کے اور کیا ہو سکتا ہے؟

مرزا قادیانی کے بچپن کے چند گوشے آپ کے سامنے رکھے ہیں اس کے برعکس اولیاء اﷲ کے بچپن کو دیکھ لیں ان کا بچپن بھی علم و حکمت، تقویٰ و طہارت اور خدا خوفی سے بھرا ہوتا ہے اور ان کا بچپن ان کے روشن پاکیزہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے لیکن یہاں معاملہ برعکس ہے۔

ابتدائی تعلیم:

یہ ایک مسلمہ حقیقت اور طے شدہ امر ہے کہ نبی کا اس دنیا میں کوئی استاد نہیں ہوتا، بلکہ وہ براہ راست اللہ رب العزت سے فیض حاصل کرتا ہے۔ نبی کی تعلیم و تربیت کا انتظام و انصرام اللہ پاک خود فرماتا ہے، انبیاء کی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ کسی نبی نے دنیوی مکتب میں استاد کے آگے زانوئے تلمذ طے نہیں کئے، نبوت کی یہ ایک ایسی تسلیم شدہ علامت ہے کہ مرزا قادیانی کو بھی یہ ڈھونگ رچانے کے لیے کہ اس کا کوئی استاد نہیں یہ مضحکہ خیز اعلان کرنا پڑا۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ اسے ثابت نہیں کر سکا بلکہ اس بات میں اپنے جھوٹے ہونے کی ایک اور شہادت رقم کر گیا۔

مرزا صاحب اپنے بارے میں رقمطراز ہیں:

’’سو آنے والے کا نام جو مہدی رکھا گیا، سو اس میں یہ اشارہ ہے کہ وہ آنے والا علم دین خدا سے ہی حاصل کرے گا اور قرآن و حدیث میں کسی استاد کا شاگرد نہیں ہو گا۔ سو میں حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ میرا حال یہی ہے۔ کوئی ثابت نہیں کر سکتا کہ میں نے کسی انسان سے قرآن یا حدیث یا تفسیر کا ایک سبق بھی پڑھا ہے یا کسی مفسر یا محدث کی شاگردی اختیار کی ہے پس یہی مہدویت ہے جو نبوت محمدیہ کے منہاج پر مجھے حاصل ہوئی ہے اور اسرار دین بلاواسطہ میرے پر کھولے گئے۔‘‘35

اس دعویٰ کی تکذیب مرزا صاحب کی اپنی خود نوشت سے ہوتی ہے جو درج ذیل ہے:

’’بچپن کے زمانہ میں میری تعلیم اس طرح پر ہوئی کہ جب میں چھ سات سال کا تھا تو ایک فارسی خواں معلم میرے لیے نوکر رکھا گیا، جنہوں نے قرآن شریف اور چند فارسی کتابیں مجھے پڑھائیں اور اس بزرگ کانام فضل الٰہی تھا اورجب میری عمر تقریباً دس برس کے ہوئی تو ایک عربی خواں مولوی صاحب میری تربیت کے لیے مقرر کیے گئے جن کا نام فضل احمد تھا۔ میں خیال کرتا ہوں کہ چونکہ میری تعلیم خدا تعالیٰ کے فضل کی ایک ابتدائی تخم ریزی تھی اس لیے ان استادوں کے نام کا پہلا لفظ بھی فضل ہی تھا۔ مولوی صاحب موصوف جو ایک دیندار ااور بزرگ وار آدمی تھے۔ وہ بہت توجہ اور محنت سے پڑھاتے رہے اور میں نے صرف کی بعض کتابیں پڑھیںاور کچھ قواعدِنحو ان سے پڑھے اور بعد اس کے جب میں سترہ یااٹھارہ سال کا ہوا تو ایک مولوی صاحب سے چند سال پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ ان کا نام گل علی شاہ تھا۔ ان کو بھی میرے والدصاحب نے نوکررکھ کر قادیان میں پڑھانے کے لیے مقررکیا تھا اور ان آخر الذکر مولوی صاحب سے میں نے نحو اور منطق اور حکمت وٖغیرہ کے علومِ مروجہ کو جہاں تک خدا تعالیٰ نے چاہا حاصل کیا۔‘‘36

طب کا علم انہوں نے اپنے والد صاحب سے پڑھا جو ایک مجرب و حاذق طبیب تھے۔

’’اور بعض طبابت کی کتابیں میں نے اپنے والد صاحب سے پڑھیں اور وہ فن طبابت میں بڑے حاذق طبیب تھے۔‘‘37

انہیں اپنے زمانہ طالب علمی میں کتابوں سے گہرا شغف تھا وہ ایک جگہ لکھتے ہیں:

’’اور ان دنوں مجھے کتابوں کے دیکھنے کی طرف اس قدر توجہ تھی کہ گویا میں دنیا میںنہ تھا۔ میرے والد صاحب مجھے بار بار یہی ہدایت کرتے تھے کہ کتابوں کا مطالعہ کم کرنا چاہیے کیونکہ وہ نہایت ہمدردی سے ڈرتے تھے کہ صحت میں فرق نہ آوے۔‘‘ 38

لیکن ان کو اپنے والد کے اصرار پر تعلیمی سلسلہ منقطع کرکے اپنی آبائی زمینوں کے حصول کے لیے تگ و دو اور عدالتی کارروائیوں میں مصروف ہونا پڑا جیسا کہ وہ لکھتے ہیں:

’’میرے والد صاحب اپنے بعض آباؤ و اجداد کے دیہات کو دوبارہ لینے کے لیے انگریزی عدالتوں میں مقدمات کر رہے تھے۔ انہوں نے انہی مقدمات میں مجھے بھی لگایا اور ایک زمانہ دراز تک میں ان کاموں میں مشغول رہا۔ مجھے افسوس ہے کہ بہت سا وقت عزیز میرا ان بیہودہ جھگڑوں میں ضائع گیا اوراس کے ساتھ ہی والد صاحب موصوف نے زمینداری امور کی نگرانی میں مجھے لگا دیا۔ میں اس طبیعت اور فطرت کا آدمی نہیں تھا اس لیے اکثر والد صاحب کی ناراضگی کا نشانہ رہتا تھا۔‘‘}39

نالائق استاذ کا نا لائق شاگرد:

ہر طالب علم کا فرض ہے کہ وہ اپنے استاد کا ادب و احترام کرے۔ جس طرح مریض طبیب کے سامنے سر تسلیم خم کردیتا ہے، اس طرح ہر طالب علم استاد کے سامنے تواضع کا مظاہرہ کرے۔ اگر کسی شاگرد کے دل میں اپنے استاد کے خلاف نفرت و بغض ہوگا تو وہ علم تو درکناراُلٹا جہالت کا نشان بن جا تا ہے۔ مشہور کہاوت ہے: با ادب، با نصیب، بے ادب بے نصیب! آنجہانی مرزا قادیانی ہمیشہ بے ادب اور بے نصیب رہا۔ وہ علم کے میدان میں ”تیس مار خاں” تھا۔ ڈینگیں مارنا، بے پرکیاں اڑانا، شیخیاں بگھارنا، لاف زنی کرنا اس کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ اس کے کئی اساتذہ تھے اور اپنی کتابوں میں ان کا تذکرہ بھی بڑی حقارت سے کرتا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں اپنے اساتذہ کے بارے مرزا قادیانی کے طرز عمل کے چند نمونے !

استاد نوکر رکھے گئے:

جب میں چھ سات سال کا تھا تو ایک فارسی خواں معلم میرے لیے نوکر رکھا گیا، جنھوں نے قرآن شریف اور چند فارسی کتابیں مجھے پڑھائیں اور اس بزرگ کا نام فضل الٰہی تھا اور جب میری عمر تقریباً دس برس کے ہوئی تو ایک عربی خواں مولوی صاحب میری تربیت کے لیے مقرر کیے گئے جن کا نام فضل احمد تھا۔ میں خیال کرتا ہوں کہ چونکہ میری تعلیم خدا تعالیٰ کے فضل کی ایک ابتدائی تخم ریزی تھی، اس لیے ان استادوں کے نام کا پہلا لفظ بھی فضل ہی تھا۔ مولوی صاحب موصوف جو ایک دیندار اور بزرگوار آدمی تھے، وہ بہت توجہ اور محنت سے پڑھاتے رہے اور میں نے صرف کی بعض کتابیں اور کچھ قواعد نحو ان سے پڑھے اور بعد اس کے جب میں سترہ یا اٹھارہ سال کا ہوا تو ایک اور مولوی صاحب سے چند سال پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ ان کا نام گل علی شاہ تھا۔ ان کو بھی میرے والد صاحب نے نوکر رکھ کر قادیان میں پڑھانے کے لیے مقرر کیا تھا۔ اور ان آخرالذکر مولوی صاحب سے میں نے نحو اور منطق اور حکمت وغیرہ علوم مروجہ کو جہاں تک خدا تعالیٰ نے چاہا حاصل کیا اور بعض طبابت کی کتابیں میں نے اپنے والد صاحب سے پڑھیں اور وہ فن طبابت میں بڑے حاذق طبیب تھے اور ان دنوں میں مجھے کتابوں کے دیکھنے کی طرف اس قدر توجہ تھی کہ گویا میں دنیا میں نہ تھا۔40

اپنے استاد کی تعریف:

ہمارے استاد ایک شیعہ تھے۔ گل علی شاہ ان کا نام تھا۔ کبھی نماز نہ پڑھا کرتے تھے۔ منہ تک نہ دھوتے تھے۔41

آج سے تیس سال قبل بہت سے لوگ ایسے تھے جو حضرت مسیحِ موعود (مرزا قادیانی) کے متعلق کہتے تھے انھیں اردو بھی نہیں آتی اور عربی دوسروں سے لکھا کر اپنے نام سے شائع کرتے ہیں۔ بعض لوگ کہتے مولوی نور الدین آپ کو کتابیں لکھ کر دیتے ہیں۔ خود حضرت مسیحِ موعود کو بھی یہ دعویٰ نہ تھا کہ آپ نے ظاہری علوم کہیں پڑھے۔ آپ فرمایا کرتے میرا ایک استاد تھا جو افیم کھایا کرتا تھا اور حقہ لے کر بیٹھ رہتا تھا۔ کئی دفعہ پینک میں اس سے اس کے حقہ کی چلم ٹوٹ جاتی۔ ایسے استاد نے پڑھانا کیا تھا۔ غرض آپ کو لوگ جاہل اور بے علم سمجھتے تھے۔ 42

یہ ہے مرزا قادیانی کا ادب اپنے استادوں کے بارے میں۔اگر آپ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے کسی صاحب علم سے مدد طلب کریں اور وہ اس فریضہ کو انجام دینے کے لیے تیار ہو تو کیا وہ آپ کے بچوں کا نوکر بن جائے گا ؟ اور پھر اپنانالائق پن چھپانے کے لئے استاد کو افیمی وغیرہ کہہ دینا ۔ یقینا ایسی سوچ کا مالک گورداس پور کے پسماندہ گائوں کا رہنے والا مرزا قادیانی ہی ہو سکتا ہے۔

مرزا قادیانی کا جھوٹ:

مرزا قادیانی کا یہ کہنا کہ میرا کوئی استاد نہیں، ایسا جھوٹ ہے جو تاویلات کے ہزار پردوں میں بھی چھپائے نہیں چھپتا۔ اب جھوٹے کے ساتھ کیا سلوک ہونا چاہئے یہ بھی مرزا صاحب خود ہی بتائیں گے۔

جھوٹے کے بارے میں مرزا صاحب کے اپنے اَقوال:

جھوٹے کے بارے میں مرزا صاحب کے چنداپنے اقوال درج ذیل ہیں:

1۔ ’’ظاہر ہے جب ایک بات میں کوئی جھوٹا ثابت ہو جائے تو پھر دوسری باتوں میں بھی اس پر اعتبار نہیں رہتا۔‘‘ 43

2۔ ’’اور محض ہنسی کے طور پر یا لوگوں کو اپنا رسوخ جتانے کے لیے دعویٰ کرتا ہے کہ مجھے یہ خواب آئی اور یا الہام ہوا اورجھوٹ بولتا ہے یا اس میں جھوٹ ملاتا ہے وہ اس نجاست کے کیڑے کی طرح ہے جو نجاست میں ہی پیدا ہوتا ہے اور نجاست میں ہی مر جاتا ہے۔‘‘44

3۔ ’’جھوٹ بولنا مرتد ہونے سے کم نہیں۔‘‘45

پہلی شادی:

مرزا صاحب کی عمر پندرہ سال تھی اور وہ ابھی زمانہ طالب علمی میں تھے کہ ان کی شادی اپنے ماموں مرزا جمعیت بیگ کی بیٹی، مرزا شیر علی ہوشیار پوری کی ہمشیرہ سے کر دی گئی۔ مرزا صاحب کی اس بیوی سے دو لڑکے مرزا سلطان احمد اور مرزا فضل احمد پیدا ہوئے۔46

مرزا قادیانی کے سوانح نگار ڈاکٹر بشارت احمد کے مطابق اس شادی کے وقت مرزا صاحب کی عمر 19 سال تھی، وہ اس اختلاف کا سبب مرزا صاحب کی تاریخِ پیدائش میں اختلاف کو قرار دیتا ہے۔47

ملازمت:

مرزا قادیانی نہ صرف دنیاوی تعلیم حاصل کرتے رہے بلکہ اس سے فائدہ اٹھایا اور 1864ء سے 1868ء تک چار سال ڈپٹی کمشنر آفس سیالکوٹ میں ملازمت کرتے رہے۔ مرزا محمود احمد اپنے والد کے بارے میں کہتا ہے:

’’اور ایسا ہوا کہ ان دنوں میں آپ گھر والوں کے طعنوں کی وجہ سے کچھ دنوں کے لیے قادیان سے باہر چلے گئے اور سیالکوٹ جا کر رہائش اختیار کر لی تو گزارہ کے لیے ضلع کچہری میں ملازمت بھی کر لی۔‘‘ 48

گھر والوں کے طعنے کس بات پر تھے؟ اس بارے میں مرزا محمود کی خاموشی صورتحال کو پراسرار بنا دیتی ہے۔

مرزا بشیر احمد اپنے والد کی ملازمت کے بارے میں نقل کرتا ہے:

’’چونکہ تمہارے دادا کا منشا رہتا تھا کہ آپ کہیں ملازم ہو جائیں اس لیے آپ سیالکوٹ شہر میں ڈپٹی کمشنر کی کچہری میں قلیل تنخواہ پر ملازم ہو گئے اور کچھ عرصہ تک وہاں ملازمت پر رہے۔ پھر جب تمہاری دادی بیمار ہوئیں تو تمہارے دادا نے آدمی بھیجا کہ ملازمت چھوڑ کر آجاؤ۔ حضرت صاحب فوراً روانہ ہوگئے … خاک سار عرض کرتا ہے کہ مسیح موعود علیہ السلام کی سیالکوٹ کی ملازمت 1864ء تا 1868ء کا واقعہ ہے۔‘‘ 49

ملازمت کے دوران مرزا صاحب ترقی کے لیے کوشاں رہے مگر ترقی کے لیے ضروری امتحان میں فیل ہو گئے۔ مرزا بشیر احمد لکھتا ہے:

’’چونکہ مرزا صاحب ملازمت کو پسند نہیں فرماتے تھے اس واسطے آپ نے مختاری کے امتحان کی تیاری کے لیے قانونی کتابوں کا مطالعہ شروع کیا، پر اس امتحان میں کامیاب نہ ہوئے۔‘‘50

انگریزی خوانی:

دوران ملازمت مرزاصاحب نے دو کتابیں انگریزی کی بھی پڑھیں۔ مرزا بشیر احمد اس حوالے سے لکھتاہے:

’’اسی زمانہ میں مولوی الٰہی بخش صاحب کی سعی سے جو چیف محرر مدراس تھے، کچہری کے ملازم منشیوں کے لیے ایک مدرسہ قائم ہوا کہ رات کو کچہری کے ملازم منشی انگریزی پڑھا کریں۔ ڈاکٹر امیر شاہ صاحب جو اس وقت اسسٹنٹ سرجن پنشنر ہیں، استاد مقرر ہوئے۔ مرزا صاحب نے بھی انگریزی شروع کی اورایک دو کتابیں انگریزی کی پڑھیں۔‘‘ 51

مرزا صاحب کا انگریزی پڑھنا یقینًاملازمت میں ترقی اور قرب شاہی کی خاطر تھا، ترقی تو مل نہ سکی مگر قرب شاہی میں بہت آگے تک پہنچ گئے۔

مختاری کا امتحان:

مرزا صاحب نے وکیل بننے کی غرض سے مختاری کا امتحان بھی دیا مگر ناکام ہو گئے۔ مرزا بشیر احمد لکھتا ہے:

’’چونکہ مرزا صاحب ملازمت کو پسند نہیں فرماتے تھے اس واسطے آپ نے مختاری کے امتحان کی تیاری شروع کر دی اور قانونی کتابوں کا مطالعہ شروع کیا پر امتحان میں کامیاب نہ ہوئے اور کیوں کر ہوتے، وہ دنیوی اشغال کے لیے بنائے نہیں گئے تھے۔‘‘52

یہ دنیاوی امتحانوں میں ناکامی مرزا صاحب کو انگریز کے در پر لے گئی اور وفاداری بشرط استواری کی بدولت دیکھتے ہی دیکھتے وہ سلطنت برطانیہ کے منظور نظربن گئے۔ قادیان کے مدعی نبوت مرزا غلام احمد کی ابتدائی زندگی سے ان کی آئندہ کی زندگی کا اندازہ ہوتا ہے۔ بچپن میں چڑیوں کا شکار کرکے انہیں سرکنڈے سے ذبح کرنے والے مرزا صاحب عمر بھرسادہ لوح مسلمانوں کا شکار کر کے ان کے عقائد کو اپنے مکر و فریب کی چھری سے ذبح کرتے رہے۔

مرزا قادیانی کے اخلاق و کردار :

تاریخ انبیاء کا مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت روشن ہو کر سامنے آتی ہے کہ یہ حضرات اپنی سیرت و کردار اور اخلاق کے لحاظ سے روشنی کا ایک مینار تھے۔ وہ اپنی قوم کے لئے جن کے درمیان وہ پیدا ہوئے ایک کامل نمونہ تقلید تھے۔ انبیاء کرام کے ذاتی اخلاق و کردار پر حرف گیری کی جسارت تو کبھی ان کے جانی دشمنوں کو بھی نہ ہوئی۔ وہ خلقت کے اعتبار سے معصوم عن الخطاء تھے، گناہ و بدی کی پرچھائیں بھی ان کے قریب سے نہ گزریں۔ اس تناظر میں مرزا صاحب کے ذاتی اخلاق و کردار کو ذرا قریب سے ان کے گریبان میں جھانک کر دیکھیں تو وہ عام اخلاقی معیار سے بھی گرا ہوا نظر آتا ہے۔ وہ مسلمانوں کے لئے تو درکنار عام انسانوں کے لئے بھی قطعی طور پر قابل رشک اور قابل تقلید قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس سیرت و کردار کے حامل شخص کو کسی اعتبار سے ایک مصلح یا مذہبی رہنما تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ مرزا صاحب کے ذاتی اخلاق و کردار کے چند حیرت انگیز گوشے درج ذیل ہیں:

(1) شراب کا بکثرت استعمال:

مرزا صاحب شراب کا استعمال بکثرت کرتے تھے۔ اس عادتاً مے نوشی کا جواز فراہم کرنے کے لئے مرزا صاحب اور ان کے حواریوں نے اسے بھی نعوذ باللہ شریعت قرار دے ڈالا۔ ان کا ایک معتقد ڈاکٹر بشارت احمد قادیانی شراب کے استعمال کا جواز پیش کرتے ہوئے کہتا ہے: ’’آپ کو ضعف کے دورے ایسے شدید پڑتے تھے کہ ہاتھ پاؤں سرد ہو جاتے تھے، نبض ڈوب جاتی تھی میں نے خود ایسی حالت میں آپ کو دیکھا ہے کہ نبض کا پتہ نہیں ملتا تھا تو اطباء یا ڈاکٹروں کے مشورے سے آپ نے ٹانک وائن کا استعمال اندریں حالات کیا ہوا ہو تو پس مطابق شریعت ہے، آپ تمام دن تصانیف کے کام میں لگے رہتے تھے، راتوں کو عبادت کرتے تھے، بڑھاپا بھی پڑتا تھا تو اندریں حالات اگر ٹانک وائن بطور علاج پی بھی لی ہو تو کیا قباحت لازم آگئی۔ 53

مرزا صاحب کے ایک عقیدت مند حکیم محمد حسین قریشی نے وہ تمام خطوط جمع کر کے شائع کر دیئے جو موصوف نے اس کے نام مختلف اوقات میں لکھے، ان میں سے ایک خط یہ بھی ہے جس میں مرزا نے اسے ٹانک وائن خرید کر بھیجنے کا حکم دیا۔ خط کا متن یہ ہے: ’’محبی اخویم حکیم محمد حسین صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ، السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ، اس وقت میاں یار محمد بھیجا جاتا ہے۔ آپ اشیاء خریدنی خود خرید دیں اور ایک بوتل ٹانک وائن ای پلومر کی دکان سے خرید دیں مگر ٹانک وائن چاہئے اس کا لحاظ رہے۔ باقی خیریت ہے۔ والسلام مرزا غلام احمد عفی عنہ

(2)ٹانک وائن کی حقیقت:

حکیم محمد علی صاحب کہتے ہیں: ٹانک وائن کی حقیقت لاہور میں ای پلومر کی دکان سے ڈاکٹر عزیز احمد صاحب کی معرفت معلوم کی گئی تو ڈاکٹر صاحب کو حسب ذیل جواب ملا:

’’ٹانک وائن ایک قسم کی طاقتور اور نشہ دینے والی شراب ہے جو ولایت سے سربند بوتلوں میں آتی ہے۔‘‘54

(3)افیون کا بطور جزو اعظم دوا میں استعمال:

حضرت مسیح موعود نے ’’تریاق الٰہی‘‘ دوا خدا تعالیٰ کی ہدایت کے ماتحت بنائی اور اس کا ایک بڑا جز افیون تھا اور یہ دوا افیون کی زیادتی کے بعد حضرت خلیفہ اول (حکیم نورالدین) کو حضور (مرزا قادیانی) چھ ماہ سے زائد تک دیتے رہے اور خود بھی وقتاً فوقتاً مختلف امراض کے دوروں کے وقت استعمال کرتے رہے۔55

دوا کا بڑا جز افیون اور پھر اس کا نام ’’تریاقِ الٰہی‘‘ مرزا صاحب کی دماغی اختراع اور ایجاد ہے جس کا سہرا ان کی ناقابلِ فہم حکمت کے سر ہی باندھا جا سکتا ہے۔

(4)وہ کبھی کبھی زنا کر لیا کرتے تھے:

مرزا صاحب نفسانیت اور شہوت پرستی سے کبھی کبھار حظ اٹھا لیا کرتے تھے لیکن ان کے خلیفہ تو ساری حدیں پھلانگ گئے تھے۔ اس حوالے سے ماہنامہ ’’الفضل‘‘ کی ایک رپورٹ درج ذیل ہے:

حضرت مسیح موعود (مرزا قادیانی) ولی اللہ تھے اور ولی اللہ بھی کبھی کبھی زنا کر لیا کرتے تھے اگر انہوں نے کبھی کبھار زنا کر لیا تو اس میں حرج کیا ہوا پھر لکھا ہے، ہمیں حضرت مسیح موعود (مرزا قادیانی) پر اعتراض نہیں، کیونکہ وہ کبھی کبھی زنا کیا کرتے تھے، ہمیں اعتراض موجودہ خلیفہ پر ہے کیونکہ وہ ہر وقت زنا کرتا رہتا ہے۔56

(5)غیر محرم عورتوں سے اختلاط:

مرزا صاحب غیر محرم عورتوں سے اختلاط اور قربت کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے، قادیانی اخبار الحکم کی ایک خبر دیکھئے:

’’سوال ششم: حضرت اقدس (مرزا قادیانی) غیر عورتوں سے ہاتھ پاؤں کیوں دبواتے تھے؟

جواب: وہ نبی معصوم ہیں ان سے مس کرنا اور اختلاط منع نہیں بلکہ موجب رحمت و برکات ہے۔ 57

متعدد غیر محرم عورتیں مرزا صاحب کی ذاتی خدمت پر مامور تھیں جو خلوت کے لمحات میں بھی ان کی اطاعت بجا لاتی تھیں، ان کی خواب گاہ میں صبح تک ان کے احکام کی تعمیل کرتیں تھیں۔ وہ اسے ہر گز معیوب خیال نہ کرتے تھے بلکہ اس عمل کو خوب سراہتے تھے۔

ان عورتوں کے نام بھی لکھیں گئے ہیں: 58

(6)عشقیہ شاعری:

خاکسار عرض کرتا ہے کہ مرزا سلطان احمد صاحب سے مجھے حضرت مسیح موعود کی ایک شعروں کی کاپی ملی ہے، جو بہت پرانی معلوم ہوتی ہے، غالباً جوانی کا کلام ہے۔ حضرت صاحب کے اپنے خط میں ہے، جسے میں پہچانتا ہوں، بعض شعر بطور نمونہ درج ذیل ہیں:

عشق کا روگ ہے کیا پوچھتے ہو اس کی دوا

ایسے بیمار کا مرنا ہی دوا ہوتا ہے

کچھ مزا پایا ہے میرے دل! ابھی کچھ پاؤ گے

تم بھی کہتے تھے کہ الفت میں بڑا مزا ہوتا ہے

سبب کوئی خداوند بنا دے

کسی صورت میں وہ صورت دکھا دے

کرم فرما کے آ او میرے جانی

بہت روئے ہیں اب ہم کو ہنسا دے

کبھی نکلے گا آخر تنگ ہو کر

دلا اک بار شور و غل مچا دے

نہیں منظور تھی گر تم کو الفت

تو یہ مجھ کو بھی جتلایا تو ہوتا

مری دلسوزیوں سے بے خبر ہو

مرا کچھ بھید بھی پایا تو ہوتا

دل اپنا اس کو دوں یا ہوش یا جاں

کوئی اک حکم فرمایا تو ہوتا59

(6)دشنام طرازیاں:

گالی دینا ایک نازیبا اور مذمو م حرکت ہے۔ خود مرزا صاحب کے نزدیک بھی گالی دینا طریق شرافت نہیں گالیاں دینا اور بدزبانی کرنا طریق شرافت نہیں ہے۔60

مگر مرزا صاحب کا عمل اس کے بر عکس نظر آتا ہے۔ وہ مغلوب الغضب ہو کر گاہے گاہے غلیظ گالیوں پر اتر آتے تھے، چند نمونے ملاحظہ ہوں:

سعد اللہ لدھیانوی بے وقوفوں کا نطفہ اور کنجری کا بیٹا ہے۔ 61

خدا تعالیٰ نے اس کی بیوی کے رحم پر مہر لگا دی۔62

آریوں کا پرمیشور (خدا) ناف سے دس انگل نیچے ہے، سمجھنے والے سمجھ لیں۔63

ہر مسلمان مجھے قبول کرتا ہے اور میرے دعوے پر ایمان لاتا ہے مگر زناکار کنجریوں کی اولاد، جن کے دلوں پر خدا نے مہر کر دی ہے وہ مجھے قبول نہیں کرتے۔64

جھوٹے آدمی کی یہی نشانی ہے کہ جاہلوں کے روبرو تو بہت لاف گزاف مارتے ہیں مگر جب کوئی دامن پکڑ کر پوچھے کہ ذرا ثبوت دے کر جاؤ تو جہاں سے نکلے تھے، وہیں داخل ہو جاتے ہیں۔65

عبدالحق کو پوچھنا چاہئے کہ اس کا وہ مباہلہ کی برکت کا لڑکا کہاں گیا، اندر ہی اندر پیٹ میں تحلیل پا گیا یا پھر رجعت قہقری کر کے نطفہ بن گیا، اب تک اس کی عورت کے پیٹ سے ایک چوہا بھی پیدا نہ ہوا۔66

(7)لعنت کی گردان:

لعنت بازی صدیقوں کا کام نہیں، مومن لعان نہیں ہوتا۔67

مرزا قادیانی کی ذہنی کیفیت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ اس نے کسی پر لعنت ڈالی تو بجائے یہ کہنے کے کہ تجھ پر ہزار لعنت ہو یا تحریری طور پر اسے اس طرح لکھ دیتا مگر اس نے باقاعدہ لعنت نمبر 1، لعنت نمبر 2، لعنت نمبر 3، لعنت نمبر 1000 تک لکھ دیا۔68

(8)ملکہ برطانیہ کی خوشامد اور چاپلوسی:

مرزا صاحب نے انگریز بہادر کی قصیدہ گوئی میں کس طرح زمین و آسمان کے قلابے ایک کر دیئے اس کی مثال درج ذیل تحریر میں دیکھی جا سکتی ہے:

میں اس (اللہ تعالیٰ) کا شکر کرتا ہوں کہ اس نے مجھے ایک ایسی گورنمنٹ کے سایہ رحمت کے نیچے جگہ دی، جس کے زیرسایہ میں بڑی آزادی سے اپنا کام نصیحت و وعظ کا ادا کر رہا ہوں اگرچہ اس محسن گورنمنٹ کا ہر ایک پر رعایا میں سے شکر واجب ہے مگر میں خیال کرتا ہوں کہ مجھ پر سب سے زیادہ واجب ہے کیونکہ یہ میرے اعلیٰ مقاصد جو جناب قیصرہ ہند کی حکومت کے سایہ کے نیچے اختتام پذیر ہو سکتے اگرچہ وہ کوئی اسلامی گورنمنٹ ہی ہوتی۔ اب میں حضورِ ملکہ معظمہ میں زیادہ مصدع اوقات ہونا نہیں چاہتا اور اس دعا پر عریضہ ختم کرتا ہوں کہ اے قادر و کریم اپنے فضل و کریم سے ہماری ملکہ معظمہ کو خوش رکھ جیسا کہ ہم اس کے سایہ عاطفت کے نیچے خوش ہیں اور اس سے نیکی کر جیسا کہ ہم اس کی نیکیوں و احسانوں کے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں اور ان معروضات پر کریمانہ توجہ کرنے کے لیے اس کے دل میں آپ الہام کر کہ ہر ایک قدرت و طاقت تجھی کو ہے۔

آمین ثم آمین

الملتمس خاکسار: مرزا غلام احمد از قادیان 69

(9)حکومتِ برطانیہ کی اطاعت مرزا صاحب کے مذہب کا ایک حصہ:

سو میرا مذہب جس کو میں بار بار ظاہر کرتا ہوں یہی ہے کہ اسلام کے دو حصے ہیں، ایک یہ کہ خدا تعالیٰ کی اطاعت کریں دوسرے اس سلطنت کی جس نے امن قائم کیا ہو۔ جس نے ظالموں کے ہاتھ سے اپنے سایہ میں ہمیں پناہ دی ہو۔ سو وہ سلطنت حکومت برطانیہ ہے۔70

(10)انگریزی سلطنت رحمت اور برکت ہے:

خدا کا شکر ہے کہ اس نے ایسی گورنمنٹ کے سایہ رحمت کے نیچے جگہ دی جس کے زیرسایہ میں بڑی آزادی سے اپنا کام چلا رہا ہوں جو کسی اسلامی گورنمنٹ میں نہیں چلایا جا سکتا۔71

سو یہی انگریز ہیں جن کو لوگ کافر کہتے ہیں جو تمہیں ان خونخوار دشمنوں سے بچاتے ہیں اور ان کی تلوار کے خوف سے تم قتل کیے جانے سے بچے ہوئے ہو، ذرا کسی اور سلطنت کے زیرسایہ رہ کر دیکھ لو کہ تم سے کیا سلوک کیا جاتا ہے۔ سو انگریزی سلطنت تمہارے لیے ایک رحمت ہے، تمہارے لیے ایک برکت ہے اور خدا کی طرف سے تمہاری وہ سپر ہے پس تم دل و جان سے سپر کی قدر کرو۔ 72

(11)حکومتِ برطانیہ کے احسانات کا پرچار:

میں روح کے جوش سے اس بات میں مصروف ہوں کہ اس گورنمنٹ کے فوائد اور احسانات کو تمام لوگوں پر ظاہر کر دوں اور اس حکومت کی فرضیت کو دلوں میں جما دوں۔73

میں اپنے کام کو نہ مکہ میں نہ مدینہ میں نہ روم و شام میں نہ ایران و کابل میں چلا سکتا ہوں مگر اس گورنمنٹ میں جس کے اقبال کی میں دعا کرتا ہو۔74

برٹش گورنمنٹ فضل ایزدی اور سایہ رحمت ہے اس کی ہستی احمدیت کی ہستی ہے۔ 75

مرزا صاحب کی بیویاں:

مرزا غلام احمد قادیانی کی دو بیویاں تھیں۔

"پھجے دی ماں"

" پہلی بیوی جسکو "پھجے دی ماں" کہا جاتا ہے اسکا نام حرمت بی بی تھا۔اس سے 1852ء یا 1853ء میں شادی ہوئی۔"

مرزا صاحب کے بیٹے مرزا بشیر احمد نے لکھا ہے:

"بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود (مرزا قادیانی) کو اوائل سے ہی مرزا فضل احمد کی والدہ سے جنکو لوگ عام طور پر "پجھے دی ماں" کہا کرتے تھے۔بے تعلقی سی تھی۔جسکی وجہ یہ تھی کہ حضرت صاحب کے رشتے داروں کو دین سے سخت بے رغبتی تھی۔ اور انکا انکی طرف میلان تھا اور وہ اسی رنگ میں رنگین تھیں اس لیے حضرت مسیح موعود (مرزا قادیانی) نے ان سے مباشرت ترک کر دی تھی۔" 76

قادیانی ذہنیت کی پستی ملاحظہ فرمائیں کہ مرزا بشیر احمد ایم اے جو مرزا صاحب کی دوسری بیوی نصرت جہاں بیگم کی اولاد میں سے ہے جب اپنی والدہ کا ذکر کرتا ہے تو اسے ام المومنین کے لقب سے یاد کرتا ہے اور جب مرزا صاحب کی پہلی بیوی کا ذکر کرتا ہے تو اسے "پھجے کی ماں" کہتا ہے۔پھجے سے مراد مرزا فضل احمد ہے جس نے مرزا صاحب کو نبی تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تها مرزا صاحب نے محمدی بیگم کی وجہ سے حرمت بی بی کو طلاق دے دی تهی۔77

پہلی بیوی سے مرزا صاحب کی اولاد:

پہلی بیوی سے مرزا صاحب کے 2 بیٹے تھے۔

مرزا سلطان احمد

مرزا فضل احمد

ان دونوں بیٹوں نے مرزا صاحب کو دعوی نبوت میں کذاب سمجھا تھا۔

مرزا فضل احمد، مرزا صاحب (اپنے باپ) کی زندگی میں مر گیا لیکن مرزا صاحب نے اسکا جنازہ نہ پڑھا۔ 78

دوسرے بیٹے مرزا سلطان احمد کو مرزا صاحب نے عاق کر دیا تھا۔

مرزا سلطان احمد کے مرزا صاحب کو نبی نہ ماننے کا حوالہ یہ ہے۔ 79

نصرت جہاں بیگم:

دوسری بیوی جسکا نام نصرت جہاں بیگم ہے اس سے نکاح 1884ء میں ہوا. "نصرت جہاں بیگم کے متعلق مرزا صاحب نے خود اعتراف کیا ہے کہ لوگ میری بیوی پر الزام لگاتے ہیں کہ اسکی میرے بعض مریدوں سے آشنائی ہے۔"80

مرزا صاحب کے بیٹے مرزا بشیر احمد نے لکھا ہے:

"کیا وجہ ہے کہ حکیم نور الدین اور عبدالکریم سیالکوٹی باقی قادیانی جماعت کے برعکس نصرت جہاں بیگم کو " ام المومنین " کی بجائے "بیوی صاحبہ" کہتے تھے؟ 81

نصرت جہاں سے مرزا صاحب کی اولاد:

مرزا صاحب کی دوسری بیوی نصرت جہاں سے درج ذیل اولاد ہوئی۔

"لڑکے"

1) مرزا بشیر احمد (1887ء تا 1888ء)

2) مرزا بشیر الدین محمود احمد (1889ء تا 1965ء)

3) مرزا شوکت احمد (1891ء تا 1892ء)

4) مرزا بشیر احمد ایم اے (1893ء تا 1963ء)

5) مرزا شریف احمد (1895ء تا 1961ء)

6) مرزا مبارک احمد (1899ء تا 1908ء)

لڑکیاں:

1) عصمت (1886ءتا 1891ء)

2) مبارکہ بیگم (1897ء تا1997ء)

3) امتہ النصیر (1903ء تا 1903ء)

4) امتہ الحفیظ بیگم (1904ء تا 1987ء)

ان میں سے فضل احمد (جو پہلی بیوی سے تھا) بشیر اول، شوکت احمد، مبارک احمد، عصمت اور امتہ النصیر کا مرزا صاحب کی زندگی میں میں ہی انتقال ہو گیا تھا۔ جبکہ باقی اولاد سلطان احمد (پہلی بیوی سے) بشیر الدین محمود احمد، بشیر احمد، شریف احمد مبارکہ بیگم، امتہ الحفیظ بیگم ) مرزا صاحب کی موت کے بعد بهی زندہ رہی۔82

مرزا صاحب نے اپنی لڑکی مبارکہ بیگم کا نکاح نواب محمد علی خان سے کیا اور اسکا حق مہر چھپن ہزار روپے مقرر کیا تھا۔ 83

اور اپنی لڑکی امتہ الحفیظ کا نکاح نواب عبداللہ خان سے کیا اور اسکا حق مہر پندرہ ہزار روپے مقرر کیا۔ 84

محمدی بیگم:

مرزا صاحب کی ان دو بیویوں کے علاوہ ایک اور بیوی بھی تھی جسکے ساتھ بقول مرزا صاحب کے اسکا نکاح آسمانوں پہ ہوا تھا۔ جسکا نام "محمدی بیگم" تھا مگر اسکے ساتھ اس کی شادی ساری زندگی نہ ہوسکی۔ اسکا مفصل تذکرہ آیندہ پیش گوئیوں کے ذیل میں آئے گا۔

مرزا قادیانی کی دماغی کیفیت اور بیماریاں :

مرزا غلام احمد قادیانی کے دعویٔ نبوت کے اسباب میں سے ایک اہم ترین سبب یہ بھی ہے کہ وہ مراق کے مریض تھے۔ اطباء کی تحقیق سے ثابت ہے کہ مراق کا مریض اس قسم کے دعوے کرتا رہتا ہے، حتی کہ وہ خدائی کا دعویٰ بھی کر دیتا ہے۔ ہم نے ذیل میں خود مرزا صاحب، اُن کی اہلیہ، صاحبزادے اور دیگر مریدین کی تحریروں اور بیانات سے ثابت کیا ہے کہ مرزا صاحب کو مراق کا مرض لاحق تھا اور پھر اِس مرض کے بارے میں چند ماہرینِ طب کی آراء بھی نقل کی ہیں:

مراق کے بارے میں خود مرزا صاحب کا اِقرار:

’’ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے کئی دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سنا ہے کہ مجھے ہسٹریا ہے۔ بعض اوقات آپ مراق بھی فرمایا کرتے تھے لیکن دراصل بات یہ ہے کہ آپ کو دماغی محنت اور شبانہ روز تصنیف کی مشقت کی وجہ سے بعض ایسی عصبی علامات پیدا ہو جایا کرتی تھیں جو ہسٹریا کے مریضوں میں بھی عموماً دیکھی جاتی ہیں۔ مثلاً کام کرتے کرتے یکدم ضعف ہو جانا، چکروں کا آنا، ہاتھ پاؤں کا سرد ہوجانا، گھبراہٹ کا دورہ ہونا ایسا معلوم ہونا کہ ابھی دم نکلتا ہے یا کسی تنگ جگہ یا بعض اوقات زیادہ آدمیوں میں گھر کر بیٹھنے سے دل کا سخت پریشان ہونے لگنا وغیرہ ذلک۔‘‘ 85

2۔ ’’میرا تو یہ حال ہے کہ باوجود اس کے کہ دو بیماریوں میں ہمیشہ مبتلا رہتا ہوں تاہم آج کل کی مصروفیت کا یہ حال ہے کہ رات کو مکان کے دروازے بند کرکے بڑی بڑی رات تک بیٹھا اس کام کو کرتا رہتا ہوں حالانکہ زیادہ جاگنے سے مراق کی بیماری ترقی کرتی ہے اور اس دوران سر کا دورہ زیادہ ہو جاتا ہے تاہم میں اس بات کی پروا نہیں کرتا اور اس کام کو کیے جاتا ہوں۔‘‘ 86

مرزا صاحب کے نزدیک سب انبیاء کو مراق ہوتا ہے:

’’سیٹھی غلام نبی صاحب نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دن کا ذکر ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاول نے حضرت مسیح موعود سے فرمایا کہ حضور، غلام نبی کو مراق ہے تو حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ایک رنگ میں سب نبیوں کو مراق ہوتا ہے اور مجھ کو بھی ہے۔‘‘ 87

باقاعدہ دورہ پڑنے کا آغاز:

’’بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود (یعنی والد صاحب) کو پہلی دفعہ دوران سر اور ہسٹریا کا دورہ … بشیر اول کی وفات کے چند دن بعد ہوا تھا۔ رات کو سوتے ہوئے آپ کو اتھو آیا اور پھر اس کے بعد طبیعت خراب ہو گئی مگر یہ دورہ خفیف تھا۔ پھر اس کے کچھ عرصے بعد آپ ایک دفعہ نماز کے لیے باہر گئے اور جاتے ہوئے فرما گئے کہ آج کچھ طبیعت خراب ہے۔ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ تھوڑی دیر کے بعد شیخ حامد علی… نے دروازہ کھٹکھٹایا کہ جلدی پانی کی ایک گاگر گرم کر دو۔ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ میں سمجھ گئی کہ حضرت صاحب کی طبیعت خراب ہو گئی ہو گی چنانچہ میں نے کسی ملازم عورت کو کہا کہ اس سے پوچھو میاں کی طبیعت کا کیا حال ہے؟ شیخ حامد علی نے کہا کہ کچھ خراب ہو گئی ہے۔ میں پردہ گرا کر مسجد میں چلی گئی تو آپ لیٹے ہوئے تھے۔ میں جب پاس گئی تو فرمایا کہ میری طبیعت بہت خراب ہو گئی تھی لیکن اب افاقہ ہے۔ میں نماز پڑھ رہا تھا کہ میں نے دیکھا کہ کوئی کالی چیز میرے سامنے سے اٹھی ہے اور آسمان تک چلی گئی پھر میں چیخ مار کر زمین پر گر گیا اور غشی کی سی حالت ہو گئی۔ والدہ صاحبہ فرماتی ہیں کہ اس کے بعد سے آپ کو باقاعدہ دورے پڑنے شروع ہو گئے۔ خاکسار نے پوچھا دورہ میں کیا ہوتا تھا؟ والدہ صاحبہ نے کہا: ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہو جاتے تھے اور بدن کے پٹھے کھنچ جاتے تھے خصوصاً گردن کے پٹھے اور سر میں چکر ہوتا تھا اور اس حالت میں آپ اپنے بدن کو سہار نہیں سکتے تھے۔ شروع شروع میں یہ دورے بہت سخت ہوتے تھے پھر اس کے بعد کچھ تو دوروں کی ایسی سختی نہیں رہی اور کچھ طبیعت عادی ہو گئی۔ خاکسار نے پوچھا کہ اس سے پہلے تو سر کی کوئی تکلیف نہیں تھی؟ والدہ صاحبہ نے فرمایا پہلے معمولی سر درد کے دورے ہوا کرتے تھے۔ خاکسار نے پوچھا کیا پہلے حضرت صاحب خود نماز پڑھاتے تھے؟ والدہ صاحبہ نے کہا کہ ہاں مگر پھر دوروں کے بعد چھوڑ دی۔‘‘ 88

مرزا صاحب ان دوروں اور ان کے باعث فاسد خیالات کو نزولِ وحی اور نبوت سے تعبیر کرتے تھے۔

رمضان میں دوروں کا زور:

’’بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دورے پڑنے شروع ہوئے تو آپ نے اس سال سارے رمضان کے روزے نہیں رکھے اور فدیہ ادا کر دیا۔ دوسرا رمضان آیا تو آپ نے روزے رکھنے شروع کیے مگر آٹھ نو روزے رکھے تھے کہ پھر دورہ ہوا۔ اس لیے باقی چھوڑ دیئے اور فدیہ ادا کر دیا۔ اس کے بعد جو رمضان آیا تو اس میں آپ نے دس گیارہ روزے رکھے تھے کہ پھر دورہ کی وجہ سے روزے ترک کرنے پڑے اور آپ نے فدیہ ادا کر دیا۔ اس کے بعد جو رمضان آیا تو آپ کا تیرھواں روزہ تھا کہ مغرب کے قریب آپ کو دورہ پڑا اور آپ نے روزہ توڑ دیا اور باقی روزے نہیں رکھے اور فدیہ ادا کر دیا۔ اس کے بعد جتنے رمضان آئے آپ نے سب روزے رکھے مگر پھر وفات سے دو تین سال قبل کمزوری کی وجہ سے روزے نہیں رکھ سکے اور فدیہ ادا فرماتے رہے۔ خاکسار نے دریافت کیا کہ جب آپ نے ابتداً دوروں کے زمانہ میں روزے چھوڑے تو کیا پھر بعد میں ان کو قضا کیا۔ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ نہیں صرف فدیہ ادا کر دیا تھا۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ جب شروع شروع میں حضرت مسیح موعود کو دوران سر اور برو اطراف کے دورے پڑنے شروع ہوئے تو اس زمانہ میں آپ بہت کمزور ہو گئے تھے۔‘‘ 89

بد ترین دورہ:

’’بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ اوائل میں ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سخت دورہ پڑا۔ کسی نے مرزا سلطان احمد اور مرزا فضل احمد کو بھی اطلاع دے دی اور وہ دونوں آ گئے پھر ان کے سامنے بھی حضرت مرزا صاحب کو دورہ پڑا۔ والدہ صاحبہ فرماتی ہیں اس وقت میں نے دیکھا کہ مرزا سلطان احمد تو آپ کی چار پائی کے پاس خاموشی کے ساتھ بیٹھے رہے مگر مرزا فضل احمد کے چہرہ پر ایک رنگ آتا تھا اور ایک جاتا تھا اور وہ کبھی ادھر بھاگتا تھا اور کبھی ادھر۔ کبھی اپنی پگڑی اتار کر حضرت صاحب کی ٹانگوں کو باندھتا تھا اور کبھی پاؤں دبانے لگ جاتا تھا اور گھبراہٹ میں اس کے ہاتھ کانپتے تھے۔‘‘ 90

اپنے مرض کو بھی حضور ﷺ کے ارشاد سے منسوب کر دیا:

1۔ ’’دیکھو میری بیماری کی نسبت بھی آنحضرت ﷺ نے پیش گوئی کی تھی جو اس طرح وقوع میں آئی۔ آپ نے فرمایا تھا کہ مسیح آسمان پر ہے۔ جب اترے گا تو دو زرد چادریں اس نے پہنی ہوئی ہوں گی تو اسی طرح مجھ کو دو بیماریاں ہیں ایک اوپر کے دھڑ کی اور ایک نیچے کے دھڑ کی یعنی مراق اور کثرتِ بول۔‘‘

قول مرزا غلام احمد قادیانی، مندرجہ رسالہ تشحیذ الأذہان‘‘ قادیان

2۔ ’’مسیح موعود زرد چادروں میں اترے گا ایک چادر بدن کے اوپر کے حصہ میں ہوگی اور دوسری چادر بدن کے نیچے کے حصہ میں ہوگی۔ سو میں نے کہا کہ اس طرف اشارہ تھا کہ مسیح موعود دو بیماریوں کے ساتھ ظاہر ہوگا کیونکہ تعبیر کے علم میں زرد کپڑے سے مراد بیماری ہے اور وہ دونوں بیماریاں مجھ میں ہیں یعنی ایک سر کی بیماری اور دوسری کثرت پیشاب اور دستوں کی بیماری۔‘‘ 91

3۔ ڈاکٹر بشارت احمد قادیانی لکھتے ہیں:

’’حضرت اقدس کو چونکہ شب و روز دماغی محنت سے کام تھا اس لیے سالہا سال سے آپ اعصابی کمزوری کا نشانہ بن گئے تھے……حضرت اقدس کو یہ دورہ دو طریق پر ہوتا تھا۔ یا تو اوپر کے دھڑ پر اثر پڑتا تھا اس صورت میں دوران سر درد ہونے لگتا تھا یعنی چکر آتے تھے اور دل گھٹنے لگتا تھا اور ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہوجاتے تھے اور نبض بہت کمزور پڑ جاتی … اور یا نیچے کے دھڑ پر اثر پڑتا تھا اور وہ اس طرح کہ دورہ کے وقت کبھی پیشاب کثرت سے آنے لگتا تھا اور کبھی ایسا ہوتا کہ اسہال شروع ہو جاتے تھے۔ غرض یہ کہ حضرتِ اقدس کو دورہ کے وقت کبھی تو اوپر کے دھڑ پر اثر پڑتا تھا اور کبھی نیچے کے دھڑ پر جیسا کہ میں اوپر درج کر آیا ہوں اور یہ صحیح مسلم کی اس حدیث نبوی کے مطابق تھا جس میں آنحضرت ﷺ کے مسیح موعود کو کشفی طور پر دو زرد چادروں میں ملبوس دیکھنے کا ذکر ہے۔ علم تعبیر کی کتابوں میں زرد چادروں سے مراد بیماریاں ہوتی ہیں۔ پس یہی وہ مسیح موعود کی دو قسم کی بیماریاں تھیں جو آنحضرت ﷺ کو کشف میں دو زرد چادروں کی شکل میں دکھائی گئی تھیں۔‘‘ 92

مراق کیا ہے؟

1۔ علامہ برہان الدین نفیس مراق کے تعارف میں لکھتے ہیں:

’’مالیخولیا کی ایک قسم ہے جس کو مراق کہتے ہیں۔ یہ مرض تیز سودا سے جو معدہ میں جمع ہوتا ہے پیدا ہوتا ہے اور جس عضو میں یہ مادہ جمع ہو جاتا ہے اس سے سیاہ بخارات اُٹھ کر دماغ کی طرف چڑھتے ہیں۔

’’اس کی علامات یہ ہیں: ترش دخانی ڈکاریں آنا، ضعف معدہ کی وجہ سے کھانے کی لذت کم معلوم ہونا، ہاضمہ خراب ہو جانا، پیٹ پھولنا، پاخانہ پتلا ہونا، دھویں جیسے بخارات چڑھتے ہوئے معلوم ہونا۔‘‘ 93

2۔ حکیم بو علی سینا مالیخولیا کے متعلق لکھتے ہیں:

’’مالیخولیا اس مرض کو کہتے ہیں جس میں حالت طبعی کے خلاف خیالات و افکار متغیر بخوف و فساد ہو جاتے ہیں۔ اس کا سبب مزاج کا سودا دی ہو جانا ہوتا ہے۔ جس سے روح دماغی اندرونی طور پر متوحش ہوتی ہے اور مریض اس کی ظلمت سے پراگندہ خاطر ہو جاتا ہے یا پھر یہ مرض حرارتِ جگر کی شدت کی وجہ سے ہوتا ہے اور یہی چیز مراق ہوتی ہے۔ جب اس میں غذا کے فضلات اور آنتوں کے بخارات جمع ہو جاتے ہیں اور اس کے اخلاط جل کر سودا کی صورت میں تبدیل ہو جاتے ہیں تو ان اعضاء سے سیاہ بخارات اٹھ کر سر کی طرف چڑھتے ہیں۔ اسی کو نفخہ مراقیہ، مالیخولیائے نافخ اور مالیخولیائے مراقی کہتے ہیں۔‘‘ 94

مراق کی اہم علامات:

ماہرین طب نے مراق کی جو علامات بیان کی ہیں ان میں سے چند اہم درج ذیل ہیں:

مریض کا فکر سلامت نہیں رہتا

’’یہ ایک قسم کا مالیخولیا ہے جس میں مریض کے افکار و خیالات حالت طبعی سے بدل جاتے ہیں اور بالعموم اس میں انانیت یعنی خودی اور تکبر اور تعلی یعنی اپنی بڑائی کے فاسد خیالات سما جاتے ہیں۔ پس وہ ہر بات میں مبالغہ کرتا ہے۔‘‘ 95

دماغی حواس قائم نہیں رہتے

’’اس مرض میں مریض کے دماغی حواس درست نہیں رہتے۔ ہر وقت سست متفکر اور خودی کے خیالات میں مست رہتا ہے۔‘‘ 96

مریض مراق ہر بات میں مبالغہ کرتا ہے:

1۔ مریض ہمیشہ سست و متفکر رہتا ہے۔ اس میں خودی کے خیالات پیدا ہو جاتے ہیں۔ ہر ایک بات میں مبالغہ کرتا ہے … بھوک نہیں لگتی، کھانا ٹھیک طور پر ہضم نہیں ہوتا۔97

2۔ اس میں خودی کے خیالات پیدا ہوجاتے ہیں۔ ذرا سی بات یا تکلیف بڑھا کر پیش کرتا ہے۔ ہر بات میں مبالغہ کرتا ہے۔ 98

نبی ہونے کا دعویٰ:

’’اگر مریض دانشمند ہو تو پیغمبری اور معجزات و کرامات کا دعویٰ کرتا ہے۔ خدائی باتیں کرتا ہے اور لوگوں کو اس کی تبلیغ کرتا ہے۔‘‘ 99

فرشتہ اور خدا ہونے کا دعویٰ:

’’اور کبھی بعض میں فساد اس حد تک پہنچ جاتا ہے کہ گمان کرنے لگتے ہیں کہ وہ فرشتہ ہو گئے اور کبھی بعض میں (فساد) اس سے بھی زیادہ حد تک پہنچ جاتا ہے وہ گمان کرتے ہیں کہ وہ خدا ہیں۔‘‘ 100

علم غیب جاننے کا دعویٰ:

’’بعض مریضوں میں گاہے گاہے یہ فساد اس حد تک پہنچ جاتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو غیب دان سمجھتا ہے اور اکثر ہونے والے اُمور کی پہلے ہی خبر دے دیتا ہے اور بعض میں یہ فساد یہاں تک ترقی کر جاتا ہے کہ اس کو اپنے متعلق یہ خیال ہوتا ہے کہ میں فرشتہ ہوں۔‘‘ 101

بادشاہ و پیغمبر ہونے کا دعویٰ:

1۔ مریض اپنے آپ کو بہت کچھ سمجھنے لگتا ہے۔ اپنے آپ کو کبھی بادشاہ اور کبھی پیغمبر سمجھتا ہے۔ 102

2۔ کسی کو بادشاہ بننے اور ملک فتح کرنے کے خیالات ہو جاتے ہیں۔ بعض عالم اس مرض میں مبتلا ہوکر دعویٰ پیغمبری کرنے لگتے ہیں اور اپنے بعض اتفاقی صحیح واقعات کو معجزات قرار دینے لگتے ہیں۔ 103

عظمت و بزرگی کا ہر پہلو عنوانِ دعویٰ بن سکتا ہے:

اس بیماری میں مبتلا مریض کی عقل میں فتور آجاتا ہے وہ اپنے فضول اور بے بنیاد وہم کی وجہ سے خائف یا آمادۂ فساد رہتا ہے، بادشاہی یا ولایت یا پیغمبری کا دعویٰ کرتا ہے۔ 104

ایک اور ماہر طب کی رائے:

خیالات خام ہوجاتے ہیں، کوئی اپنے آپ کو بادشاہ، جرنیل قرار دیتا ہے۔ بعض پیغمبری کا دعویٰ کرتے اور اپنے اتفاقیہ صحیح واقعات کو معجزات قرار دیتے ہیں۔ 105

ڈاکٹر شاہنواز قادیانی کی رائے:

’’ایک مدعی الہام کے متعلق اگر یہ ثابت ہو جائے کہ اس کو ہسٹریا، مالیخولیا، مرگی کا مرض تھا تو اس کے دعوے کی تردید کے لیے پھر کسی اور ضرب کی ضرورت نہیں رہتی کیونکہ یہ ایسی چوٹ ہے جو اس کی صداقت کی عمارت کو بیخ و بن سے اکھاڑ دیتی ہے۔‘‘ 106

مرزا صاحب کی چند دیگر بیماریوں کا ذکر:

ہم یہاں نامناسب خیال کرتے ہیں کہ مرزا صاحب کی مراق کے علاوہ دیگر بیماریوں کا ذکر نہ کیا جائے:

1۔ دق اور سل

1۔ ’’حضرت اقدس نے اپنی بیماری دق کا بھی ذکر کیا ہے یہ بیماری آپ کو حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب مرحوم کی زندگی میں ہو گئی تھی اور آپ قریبًا چھ ماہ تک بیمار رہے۔ حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب آپ کا علاج خود کرتے تھے اور آپ کو بکرے کے پائے کا شوربا کھلایا کرتے تھے۔ اس بیماری میں آپ کی حالت بہت نازک ہو گئی تھی۔‘‘ 107

2۔ بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحب نے ’’ایک دفعہ تمہارے دادا کی زندگی میں حضرت (مرزا) صاحب کو سل ہوگئی … حتی کہ زندگی سے نا اُمید ہوگئی … والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ تمہارے دادا خود حضرت صاحب کا علاج کرتے تھے اور برابر چھ ماہ تک انہوں نے اپنے آپ کو بکرے کے پائے کا شوربہ کھلایا تھا۔‘‘ 108

2۔ اعصابی کمزوری:

1۔ ’’مخدومی مکرمی اخویم (مولوی نور الدین صاحب) السلام علیکم ورحمۃ اللہ

یہ عاجز پیر کے دن 9 مارچ 1891ء کو مع اپنے عیال کے لدھیانہ کی طرف جائے گا اور چونکہ سردی اور دوسرے تیسرے روز بارش بھی ہو جاتی ہے اور اس عاجز کی مرض اعصابی ہے۔ سرد ہوا اور بارش سے بہت ضرر پہنچتا ہے اس وجہ سے یہ عاجز کسی صور ت سے اس قدر تکلیف اٹھا نہیں سکتا کہ اس حالت میں لدھیانہ پہنچ کر پھر جلدی لاہور میں آوے۔ طبیعت بیمار ہے لاچار ہوں۔ اس لیے مناسب ہے کہ اپریل کے مہینہ میں کوئی تاریخ مقرر کی جاوے۔ والسلام خاکسار غلام احمد‘‘ 109

2۔ حضرت (مرزا) صاحب کی تمام تکالیف مثلًا دوران سر، درد سر، کمی خواب، تشنج دل، بد ہضمی، اسہال، کثرت پیشاب اور مراق وغیرہ کا صرف ایک ہی باعث تھا اور وہ عصبی کمزوری تھا۔ 110

دو مستقل بیماریاں:

1۔ ’’مجھے دو مرض دامن گیر ہیں۔ ایک جسم کے اوپر کے حصہ میں کہ سردرد اور دوران سر اور دوران خون کم ہو کر ہاتھ پیر سرد ہو جانا۔ نبض کم ہو جانا اور دوسرے جسم کے نیچے کے حصہ میں کہ پیشاب کثرت سے آنا اور اکثر دست آتے رہنا۔ یہ دونوں بیماریاں قریبًا تیس برس سے ہیں۔‘‘ 111

2۔ ’’میں ایک دائم المرض آدمی ہوں … ہمیشہ درد سر اور دوران سر اور کمی خواب اور تشنج دل کی بیماری دورہ کے ساتھ آتی ہے … وہ بیماری ذیابیطس ہے کہ ایک مدت سے دامن گیر ہے اور بسا اوقات سو سو دفعہ رات کو یا دن کو پیشاب آتا ہے اور اس قدر کثرت پیشاب سے جس قدر عوارض ضعف وغیرہ ہوتے ہیں وہ سب میرے شامل حال رہتے ہیں۔‘‘ 112

حافظہ کی ابتری:

’’مکرمی اخویم سلمہ میرا حافظہ بہت خراب ہے۔ اگر کئی دفعہ کسی کی ملاقات ہو تب بھی بھول جاتا ہوں۔ یاد دہانی عمدہ طریقہ ہے۔ حافظہ کی یہ ابتری ہے کہ بیان نہیں کر سکتا۔

خاکسار غلام احمد از صدر انبالہ حاطہ ناگ پھنی‘‘ 113

اسہال کی بیماری:

’’مجھے اسہال کی بیماری ہے اور ہر روز کئی کئی دست آتے ہیں مگر جس وقت پاخانے کی بھی حاجت ہوتی ہے تو مجھے نج ہی ہوتا ہے کہ ابھی کیوں حاجت ہوئی۔ ایسا ہی روٹی کے لیے جب کئی مرتبہ کہتے ہیں تو بڑا جبر کرکے جلد جلد چند لقمے کھا لیتا ہوں بظاہر تو میں روٹی کھاتا ہوا دکھائی دیتا ہوں مگر میں سچ کہتا ہوں کہ مجھے پتہ نہیں ہوتا کہ وہ کہاں جاتی ہے اور کیا کھاتا ہوں میری توجہ اور خیال اسی طرف لگا ہوا ہوتا ہے۔‘‘ 114

مرزا صاحب کی بیماریوں کی ایک طویل فہرست ہے۔ ہم نے یہاں طوالت کے خوف سے صرف چند ایک ذکر کیا ہے۔

قادیانی کی ذہنیت :

مرزاقادیانی کے ”ظر ف” میں اخلاق حسنہ کا ایک قطرہ بھی نہیں تھا۔ بلکہ وہ سرا سر اخلاقی کمزوریوں نکتہ چینیوں، بدگوئیوں بدکلامیوں سے لبریز تھا۔ اور یہاں تک اس نے اس فن دشنام دہی میں وہ ترقی کی تھی کہ اس کو دیکھ کر او ر سن کر بد اخلاقی و بد تمیزی بھی شرم و ندامت سے سرنگوں ہو جاتی ہے۔ اس لیے اگر مرزا قادیانی کو اس فن کا ”بے تاج بادشاہ” کہا جائے تو کچھ بے جا نہیں۔ بقول مرزا قادیانی:

(1) ”ہر ایک برتن سے وہی ٹپکتا ہے جو اس کے اندر ہے۔” 115

فواحش سے لبریز تحریریں ہر معاشرے کے لیے زہر قاتل ہیں۔ اس سے نہ صرف معاشرے میں شرم و حیا ختم ہو جاتا بلکہ عفت و عصمت اپنی اصل قدر و قیمت بھی کھو بیٹھتی ہیں۔ انسانی جذبات و احساسات کو برانگیختہ کرنے والی، آنجہانی مرزا قادیانی کی کتابیں فحش لٹریچر کا نادر نمونہ ہیں۔ اس کی تحریروں میں بے شرمی و بے حیائی کی باتیں نمایاں ہوتی ہیں۔ذیل میں دی گئی تحریر مرزا قادیانی کی گندی ذہنیت کی عکاسی کرتی ہے ۔ اس کو پڑھنے کے بعد مرزا قادیانی کے بلند بانگ دعوے یعنی بنی ، ظلی ، بروزی ، محدث وغیرہ کی طرف تو ذہن سوچتا بھی نہیںمگر یہ سوچ آتی ہے کہ کہیں یہ شخص دیوث تو نہیں تھا ۔

واقعہ یہ ہے کہ گورہ فوج میں ایک گندا قانون ” قانون دکھائی ”کے نا م سے چلتا تھا ۔ یہ قانون ان فاحشہعورتوں کے لئے تھا جو انگریز فوج کے ساتھ رکھی جاتی تھیں ان کاکام انگریز سپاہیوں کی ناجائز خواہشات کی تکمیل تھا ۔ان عورتوں کا جانوروں کی طرح معائنہ کیا جاتا تھا کہ آیا یہ عورتیں جسمانی طور پر اس کام کے لیے صحت مند ہیں یا نہیں ۔اور کہیں ان سے انگریز سپاہیوں کی صحت پر اثر تو نہ ہو گا۔ یہ قانون ختم کیا گیا۔انگریز سپاہیوںکی صحت کا خطرہ پیدا ہوا ۔ مرزا قادیانی نے ایک ماہر دلال کی طرح تمام حالات کا جائزہ لیا اور انگریز گورنمنٹ کو اپنی ماہرانہ رپورٹ پیش کی ۔

تحریر ملاحظہ کیجئے:

قانون دکھائی:

(02) ”وزارت کے تبدیل ہوتے ہی ولایت کے نامور اور سربرآوردہ اخبار ٹائمز نے جس زور شور سے قانون دکھائی کو پھر جاری کرنے کے سلسلہ جنبانی کی ہے، وہ ناظرین پر ظاہر کی جا چکی ہے۔ کنسرویٹو وزارت سے جو سرکاری عہدہ داران کی رائے کو ہمیشہ بڑی وقعت سے دیکھتی ہے۔ امید ہو سکتی ہے کہ بالضرور وہ اس معاملہ پر اچھی طرح غور کرے گی کیونکہ اس قانون کی منسوخی کے وقت سرجارج وائٹ صاحب کمانڈر انچیف افواج ہند نے جو پر زور مخالفانہ رائے ظاہر کی تھی، وہ اس قابل ہے کہ ضرور کنسرویٹو گورنمنٹ اس پر توجہ کرے گورنمنٹ ہند بھی اس قانون کے منسوخ کرنے پر رضامند نہ تھی پس ان واقعات کی رو سے پورے طور پر خیال ہو سکتا ہے کہ قانون دکھائی پھر جاری کیا جاوے اس میں شک نہیں ہے کہ قانون دکھائی کے منسوخ ہونے کے دن سے گورہ سپاہیوں کی حالت بہت خراب ہو گئی ہے۔ دیکھا جاتا ہے کہ برٹش کے بہادر سپاہی بازاروں میں آتشک کی مریض فاحشہ عورتوں کے ساتھ خراب ہوتے پھرتے ہیں۔ جس کا نتیجہ حسب رائے کمانڈر انچیف صاحب بہادر بہت خوفناک نکلنے کی امید ہے۔ ہمیں افسوس ہے کہ سرکاری طور پر ہمیں اس بات کی خبر نہیں ملی کہ سال 1894ء میں کتنے گورے سپاہی مرض آتشک میں مبتلا ہوئے۔ گو مخالفان قانون دکھائی نے مہم چترال کی گورہ فوج کی صحت کو دیکھ کر نہایت مسرت ظاہر کی تھی اور کہا تھا کہ مویدان قانون دکھائی کی یہ رائے کہ اس قانون کے منسوخ ہونے سے تمام گورہ سپاہ مرض آتشک وغیرہ میں مبتلا ہو جائے گی، غلط ٹھہرتی ہے مگر یہ واقعہ اس قابل نہیں ہے کہ جس سے تشفی ہو سکے کیونکہ مہم چترال میں چیدہ اور تندرست جوان بھیجے گئے تھے نیز لڑائی اور جنگلی ملک کی وجہ سے وہ کہیں خراب ہو کر بیمار نہیں ہو سکتے تھے۔ اس امر کا دہرانا ضروری نہیں کہ گورے سپاہی چونکہ بالکل کم تعلیم یافتہ اور دیہاتی نوجوان ہیں۔ نیز بوجہ گوشت خور ہونے کے وہ زیادہ گرم مزاج کے ہیں۔ اس لیے ان سے نفسانی خواہش روکے رکھنے کی امید رکھنا محض لاحاصل ہے۔ قانون دکھائی کے جاری ہونے کے دنوں ہر ایک گورہ پلٹن کے لیے کسبی عورتیں ملازم رکھی جاتی تھیں جن کا ہمیشہ ڈاکٹری معائنہ ہوتا رہتا تھا اور تمام گورہ لوگوں کو ان ملازم رنڈیوں کے علاوہ اور جگہ جانے کی بھی شاید ممانعت تھی۔ اس طریق سے ان کی صحت میں کسی قسم کا خلل واقع نہیں ہوتا تھا نیز اس طریق کے بند ہونے کی وجہ سے اور بھی کئی ایسی وارداتیں ہوئی ہیں جن سے اہل ہند کی طرف سے بہت ناراضی پھیلتی جاتی ہے جن میں سے میاں میر کا مقدمہ زنا بالجبر جو گورہ سپاہیوں کی طرف سے ایک بدصورت بڈھی اور اندھی عورت سے کیا گیا تھا، قابل غور ہے۔ ایسا ہی ایک واقعہ مدراس کے صوبہ میں ہوا جہاں ایک ریلوے پھاٹک کے چوکیدار نے ہندوستانی عورتوں کی عفت بچانے میں اپنی جان دے دی تھی۔ اگر چندے گورے سپاہیوں کے لیے انتظام سرکاری طور پر نہ کیا گیا تو علاوہ اس کے کہ تمام فوج بیماری سے ناکارہ ہو جائے ملک میں بڑی بھاری بددلی پھیلنے کا اندیشہ ہے اور یہ دونوں امور قیام سلطنت کے لیے غیر مفید ہیں۔ اس وقت جبکہ قانون دکھائی کو پھر جاری کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ہمیں یہ ظاہر کر دینا بھی نہایت ضروری ہے کہ اگر اب پھر قانون مذکور جاری کیا جاوے تو گورنمنٹ ہند اور خصوصاً کمانڈر انچیف افواج ہند کو یہ بھی ضرور انتظام کرنا چاہیے کہ بجائے ہندوستانی عورتوں کے یورپین عورتیں ملازم رکھی جائیں کیونکہ قانون دکھائی کے متعلق ہندوستانی اور انگریز مخالفین کا سب سے بڑا اعتراض یہی تھا کہ ہندوستان کی غریب عورتوں کو دلالہ عورتوں کے ذریعہ سے اس فحش ملازمت کی ترغیب دی جاتی ہے اور بعض اوقات نہایت کمینہ فریبوں سے اچھے گھروں کی یتیم لڑکیوں کو اس پیشہ کے لیے مجبور کیا جاتا ہے اور یہی وجہ تھی جس سے ہند کے بہت سے باشندگان نے قانون دکھائی کی منسوخی میں معمول سے بڑھ کر انٹرسٹ لیا تھا۔ ورنہ کسی معمولی سمجھ کا آدمی کو بھی ان بدمعاش عورتوں سے ہرگز ہمدردی نہیں ہو سکتی تھی۔ قانون دکھائی کے مکرر اجرا کی کوشش محض اسی غرض سے کی جاتی ہے کہ گورہ سپاہیوں کی خواہش نفسانی کو پورا کرنے کے لیے سرکاری طور پر انتظام کیا جائے ورنہ دیسی لوگوں کی بہتری کلاس میں ذرا بھی خیال نہیں۔ اس لیے اگر مخالفین قانون مذکور کی دلجوئی گورنمنٹ کو منظور ہو تو یہی ایک طریق ہے جس سے بلاقانون مذکور کے جاری کرنے کے مقصد مطلوبہ حاصل ہو سکتا ہے۔ اگر حسب تجویز ہماری کے یورپین سپاہیوں کے لیے یورپین عورتیں بہم پہنچائی جائیں تو ان سے مرض آتشک کا خدشہ نہیں رہ سکتا کیونکہ ایک تو یورپ میں مرض مذکور شاید ہوگا ہی نہیں دوم ان عورتوں کو بروقت بھرتی ہونے کے دایہ ڈاکٹروں کے ذریعہ مثل فوجی سپاہیوں کے ملاحظہ کرایا جائے گا اس سے فریقین کے مرض مذکور سے پاک ہونے کی وجہ سے ڈاکٹری معائنہ کی ہمیشہ کے لیے ضرورت ہی نہ رہے گی۔ اس طرح بغیر قانون دکھائی جاری کرنے کے سپاہیوں کی خواہش نفسانی کے لیے عمدہ طور سے انتظام ہو سکتا ہے۔

اس بات سے تو کوئی انکار ہی نہیں کر سکتا کہ ولایت میں مثل ہندوستان کے فاحشہ عورتیں موجود ہیں۔ اس لیے گورنمنٹ کو اس انتظام میں ذرا بھی وقت نہ ہوگی بلکہ ہمیں یقین ہے کہ یورپ کی مہذب کسبیاں (واہ مرزا قادیانی! کسبیاں اور مہذب!۔مرتب) بہادر سپاہیوں کو خوش رکھنے کے لیے نہایت خوشی سے اپنی خدمات سپرد کر دیں گی رہی یہ بات کہ ان عورتوں کے ہندوستان لانے اور واپس لے جانے میں گورنمنٹ کو رقم کثیر خرچ کرنی پڑے گی۔ اس کا ہندوستان کے باشندوں کو ذرا بھی رنج نہ ہوگا جہاں وہ ملٹری ڈیپارٹمنٹ کے اخراجات کے لیے پہلے سے ہی لاتعداد روپیہ خوشی سے دیتے ہیں اس رقم کے اضافہ سے بھی ہرگز انھیں اختلاف نہ ہوگا بلکہ وہ اس تجویز کو جس سے ہندوستان کی بدبخت عورتوں کی عفت بچ رہے گی اور برٹش گورنمنٹ کے بہادر گورے سپاہی تندرست اور خوش رہ سکیں گے۔ نہایت خوشی سے پسند کریں گے۔ اگر گورنمنٹ ہند کو یہ مطلوب ہے کہ ہندوستان کے نوجوان بھی جن میں دیسی پلٹنوں اور رسالوں کے سپاہی بھی شامل ہیں بازاری عورتوں کے ذریعہ مریض ہونے سے بچ رہیں تو ہم تمام ہندوستان کی فاحشہ عورتوں کے لیے قانون دکھائی کے جاری ہونے کو صدق دل سے پسند کرتے ہیں۔ کسی شریف ہندوستانی کو ان بدکار فاحشہ عورتوں کے ساتھ جو تمام قسم کے لوگوں کے لیے باعث خرابی ہیں۔ ذرا بھی ہمدردی نہیں ہو سکتی۔ ہم قبل ازیں بارہا کہہ چکے ہیں کہ ایسی عورتوں کے لیے جنھوں نے اپنے خاندان کے ناموس کو خیرباد کہہ دی ہے، قانون دکھائی کی آزمائش باعث شرم نہیں ہو سکتی ہے۔ وہ عورتیں جو تھوڑے سے پیسوں میں بھنگی کے ساتھ منہ کالا کرنے کو تیارہیں۔ معزز ڈاکٹر کے معائنہ سے کب شرمسار ہو سکتی ہیں۔ بے شک یہ افسوسناک امر ہے کہ عورتوں کی عفت کا مردوں کے ذریعہ امتحان کرایا جائے مگر کیا ہو سکتا ہے ان بے شرم بدذات عورتوں کے لیے جنھوں نے دنیا کی شرم کو بالائے طاق رکھ دیا ہے حق بات تو یہ ہے کہ قانون دکھائی کی ہندوستان میں سخت ضرورت ہے۔ جب یہ قانون جاری تھا تو ہر ایک بدکار عورت کو خوف ہوتا تھا کہ اگر وہ فحش پیشہ اختیار کرے گی تو اسے قانون دکھائی کی سخت آزمائش بھی برداشت کرنی پڑے گی۔ بہت سی عورتیں اسی خوف کی وجہ سے اپنی زندگی خراب کرنے سے بچ رہتی تھیں۔ اس زمانہ میں جبکہ دکھائی کا طریق بند ہے۔ مرض آتشک کے ادویات کے اشتہارات کثرت سے شائع ہوتے ہیں جو اس امر کا کافی ثبوت ہیں کہ ملک میں مرض آتشک بہت پھیلا ہوا ہے اول تو ہمیں اس خراب فرقہ کے وجود سے ہی سخت اختلاف ہے مگر ایسے زمانہ میں جبکہ اخلاق اور مذہب کی سخت کمزوری ہو رہی ہے، یہ امید کرنا فضول ہے(کیامرزا قادیانی کی ان باتوں کو پڑھنے کے بعدبھی مرزائی اسے مسیح اور مہدی کہنے سے باز نہ آئیں گے؟ مرتب) کہ یہ شیطانی فرقہ نیست و نابود ہو جائے گا۔ اس لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ ان کے لیے کوئی ایسا قانون بنایا جائے جس سے یہ اخلاق اور مذہب کو بگاڑنے کے علاوہ عوام کی صحت کو ہمیشہ کے لیے خراب کرنے کے قابل نہ رہ سکیں اور وہ قانون صرف قانون دکھائی ہی ہے۔ ہم نہایت شکر گزار ہوں گے اگر دوبارہ ہند میں قانون دکھائی جاری کیا جائے گا مگر یہ شرط ضرور ساتھ ہے کہ گورہ لوگوں کے لیے یورپین رنڈیاں بہم پہنچائی جائیں۔ یقین ہے کہ گورنمنٹ ہند اور معزز ہمعصران اس معاملہ پر ضرور توجہ اور غور فرمائیں گے۔” 116

قارئین کرام !کیا یہ کسی مصلح ،کسی مہدی یا مسیح مو عود کے الفاظ لگتے ہیں ؟ یہ تو کسی شریف انسان کی بھی تحر یر نہیں لگتی ۔مرزا قادیانی کی اس عبارت کو پڑھ کر اس بات کا اندازہ بخوبی ہو سکتا ہے کہ مرزا قا دیانی کس قماش کا آدمی تھا ۔ قادیانیوں کو شرم نہیں آتی کہ ایسی گندی سوچ کے مالک انسان کو نعوذباﷲ پیغمبر کہہ رہے ہیں ۔

مگر ساتھ ساتھ یہ بات ہم مسلمانوں کے منہ پرطمانچہ بھی ہے ۔ ہم مسلمان ا پنی توہین پر سخت غصہ میں آجاتے ہیں ،ہماری اوقات کیا ہے ، ہمارا یہ چھ فٹ کا وجود حیثیت ہی کیا رکھتا ہے ۔ دنیا کی عظیم ترین ہستیاں جنھیں اﷲ رب العزت نے ا پنے پیغمبر کے طور پر مبعوث فرمایا اصل عزت تو ان کی ہے، اصل مقام تو ان کا ہے اور امام الانبیاء میرے اور آپ کے آقا علیہ الصلوة والتسلیما ت کی شان سب سے اعلیٰ ہے ۔ اگر کوئی عزت ہمیں حاصل ہو تو سب ان کی جوتیوں کی خاک کی عزت کے برابر بھی نہیں ۔ مگر قادیانیوں کا بے شرم اور بے حیاء ٹولہ مرزا قادیانی جیسے گندہ ذہن آدمی کو کن مقدس ہستیوں میں شامل کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ کیا یہ ان انبیاء کی توہین نہیں ۔ مسلمانو اگر کسی نبی نے آنا ہوتا تو پھر ہم غافل پڑے رہتے کوئی بات نہ تھی مگر آقاعلیہ الصلوة والتسلیمات کی آمد کے بعد اب کوئی نبی نہیں ۔اب اس امت کی ذمہ داری ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی عزت و ناموس کی حفاظت کریں ۔

ایسے گستاخ ٹولے کے بارے میں شریعت کا جو حکم ہے حکومت وقت پر لازم ہے کہ اس پر عمل درآمد کروائے ۔ جب تک حکومت ایسا نہیں کرتی عام عوام پر فرض ہے کہ مرزائیوں کا مکمل بائیکاٹ کریں ۔ ان کے ساتھ کسی بھی قسم کا تعلق رکھنا ناجائز اور حرام ہے ۔

تصانیف وتالیفات:

ظاہر ہے کہ جب بے تکی، لا یعنی اور بے بنیاد باتیں ہی جمع کرنی ہیں، تو پھر ایک کیوں، ہزاروں کتابیں، رسائل اور کتابچے طباعت کے مرحلے سے گزر کر عوام کے درمیان پھیل سکتے ہیں۔ لہٰذا ہمیں یہ جان کر چنداں حیرت نہیں کہ مرزا غلام احمد قادیانی کی تصنیفات وتالیفات کی فہرست میں بیسیوں کتابیں کس طرح شامل ہوگئی ہیں؟

بات نہایت ہی وقیع وبا وزن ہوتی اگر مرزا غلام احمد قادیانی سے منسوب ہونے والی ایک کتاب بھی نپے تلے اسلوب، باہمی تضادات واختلافات سے منزہ اور دلائل وبراہین سے مزین ہوتی۔ یہ اور بات کہ اس کی تردید ثابت شدہ ذخیرۂ اسلامی کی مدد سے بہ آسانی ہو جاتی، لیکن ہوتی بہر کیف، پر لطف اور قابل التفات۔

اجمالی طور پر بعض تصنیفات وتالیفات کے حوالے سے کچھ باتیں ذکر کی جائیگی ، تاکہ قارئین کی نگاہوں سے قادیانیت کا کوئی پہلو اوجھل نہ رہے۔

ایک اہم بات پیش نگاہ رہے کہ ابتداء میں غلام احمد قادیانی نے معاشرے میں خود کو اسلام کے ایک مخلص، محبت اور جانثار خادم کی حیثیت سے متعارف کرانے کی کوشش کی ہے۔ لہٰذا یہ رنگ ابتدائی تصنیفات وتالیفات میں پوری طرح چھایا ہوا دکھائی دیتا ہے اور عام قاری کے لیے یہ سمجھنا قطعی دشوار ہو جاتا ہے کہ آنے والے دنوں میں یہ شخص مسلمانوں کے درمیان افتراق وانتشار پھیلانے کا باعث ہوگا۔ اس لیے آنے والے بعض جرائد ورسائل کے تذکرے میں پرکشش دعوے دیکھنے کو ملیں، تو کسی مغالطے میں نہ پڑیئے گا۔

براہین احمدیہ:

مرزا غلام احمد قادیانی نے "براھين احمدیۃ على حقیقۃ كتاب الله القرآن والنبوة المحمدیۃ" کی تصنیف کے بارے میں نہایت ہی بلند بانگ دعوے کیے اور اسے دفاع اسلام کے میدان میں زمانے کی سب سے معرکۃ الآراء کتاب قرار دی۔

عام تصنیفات کے عیوب ونقائص شمار کراتے ہوئے لکھتے ہیں۔

"لیکن یہ کتاب تمام فرقوں کے مقابلہ پر حقیت اسلام اور سچائی عقائد اسلام کی ثابت کرتی ہے اور عام تحقیقات سے حقانیت فرقان مجید کی بہ پایہ ثبوت پہنچاتی ہے اور ظاہر ہے کہ جو جو حقائق اور دقائق عام تحقیقات میں کھلتے ہیں، خاص مباحثات میں انکشاف ان کا ہرگز ممکن نہیں۔ کسی خاص قوم کے ساتھ جو شخص مناظرہ کرتا ہے، اس کو ایسی حاجتیں کہاں پڑتی ہیں کہ جن امور کو اس قوم نے تسلیم کیا ہوا ہے، ان کو بھی اپنی عمیق اور مستحکم تحقیقات سے ثابت کرے۔"

یوں تو علمائے کرام، محققین اور ارباب حل وعقد نے "براہین احمدیہ" میں چھپی ہوئی دریدہ دہنی کے بے نقاب کرنے کے لیے بہت سی کتابیں لکھی ہیں، تاہم ان میں شیخ انوار اللہ خان حیدر آبادی کی کتاب ممتاز حیثیت رکھتی ہے۔ آپ کی یہ کتاب دو ضخیم جلدوں میں "افادۃ الافہام" کے نام سے موسوم ہے۔ براہین احمدیہ کے حوالے سے حضرت لکھتے ہیں،

"ہر چند مرزا قادیانی نے تصریح کی کہ یہ کتاب صرف قرآن شریف اور نبی کریم ﷺ کی نبوت ثابت کرنے کی غرض سے لکھی گئی ہے، مگر بحث نفس الہام اور مطلق نبوت کی چھیڑ دی۔ گویا روئے سخن آریہ اور برھمو سماج کی طرف ہے، جو منکر الہام ونبوت ہیں اور یہ ثابت کیا کہ عقل سے کچھ کام چل نہیں سکتا، جب تک وحی الہٰی نہ ہو، نہ واقعات گذشتہ معلوم ہو سکتے ہیں، نہ کیفیت حشر وغیره، نہ مباحث الہٰیات۔ پھر جب یہ ثابت کیا کہ وحی قطعی چیز ہے، جس کا انکار ہو نہیں سکتا اور اس پر زور دیا کہ وحی اور الہام ایک ہی چیز ہے اور اس کا دروازہ ہمیشہ کے لیے کھلا ہوا ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں، کیا سرمایہ خدا کا خرچ ہوگیا یا اس کے منہ پر مہر لگ گئی یا الہام بھیجنے سے عاجز ہوگیا۔ اور رسالت میں بھی عام طور پر گفتگو کی کہ وہ ہر شخص کو مل نہیں سکتی بلکہ حسب قابلیت بعض افراد کو ملا کرتی ہے۔" 117

دلچسپ پہلو یہ ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی نے ابتداء میں براہین احمدیہ کو پچاس جلدوں میں لکھنے کا اعلان کیا تھا، لیکن پانچ حصوں کے بعد مزید حصے منظر عام پر نہیں آئے۔ ارباب قرطاس وقلم سے یہ بات ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ جب کسی کتاب کے لکھنے کا ارادہ ہوتا ہے، تو ایک اجمالی خاکہ تیار کرنے کے بعد صفحات ومجلدات کی تخمینا تعین ہو جاتی ہے، جو کبھی قدرے بڑھ جاتی ہے کبھی گھٹ بھی جاتی ہے، تاہم مصنف کے قید حیات میں رہتے ہوئے پچاس حصوں کے تیس چالیس میں نہیں، بلکہ صرف پانچ میں سمٹ جانے کی مثال تصنیفی تاریخ میں کوئی دوسری نہیں ملتی۔

مجھے تو لگتا ہے کہ یہ بلند بانگ دعویٰ لوگوں پر صرف علمی رعب ودبدبہ جمانے کے لیے ہو کہ لکھنے والے کے پاس کافی مواد ہے اور وہ فن تصنیف کا بڑا ہی ماہر بھی ہے۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جناب نے کتاب کی نشر واشاعت کے لیے چندہ کی اپیل کی تھی، جس کے بعد لوگوں نے دل کھول کر چندہ دیا۔ اب جب کہ کتاب ایک دو نہیں، بلکہ پچاس جلدوں میں آئے گی، اس لیے ممکن ہے کہ لوگوں نے مستقبل میں شائع ہونے والے حصوں کے لیے بھی اضافی چندہ دے دیا ہو۔ اس طرح متذکرہ اعلان کے پیچھے بڑے مالی فائدے کی توقع رہی ہو تو کوئی بعید نہیں۔

اور سینے کہ جب پانچ سے بات آگے نہ بڑھی، تو معذرت کرنے کے بجائے، اپنی بات کو بنانے کے لیے ایسی تاویل پیش کی ہے، جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔

"پہلے پچاس حصے لکھنے کا ارادہ تھا مگر پچاس سے پانچ پر اکتفا کیا گیا اور چونکہ پچاس اور پانچ کے عدد میں صرف ایک نقطہ کا فرق ہے، اس لیے پانچ حصوں سے وہ وعدہ پورا ہو گیا۔ 118

ہم نے تو سنا یہ تھا کہ عدد ومعدود نہایت ہی صریح ہوتے ہیں، جن میں کسی طرح کی تاویل کی کوئی حاجت ہی نہیں ہوتی لیکن فہم وفراست کے سارے پیمانے قادیانی شبستان کی چوکھٹ پر گر کر پاش پاش ہوتے رہے اور چہرے پر نہ شرمساری کے آثار اور نہ ہی پیشانی پر تفکرات کی سلوٹیں!

جو چاہے آپ کا قبح کرشمہ ساز کرے

ازالہ اوہام:

اس میں مرزا نے دعویٰ مسیح موعود کا آغاز کیا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کا عقیدہ پیش کیا ۔

فتح اسلام:

قادیانی تحریک کے قیام اور اس کے مقاصد ذکر کئے ۔

توضیح مرام:

مرزا کے عقائد کا تعارف، عیسائیوں اور آریوں پر تنقید ہیں۔

تحفہ گولڑویہ:

پیر مہر علی شاہ گولڑوی کے خلاف گستاخانہ عبارات اور دیگر مغلظات ۔

انجام آتھم:

پنڈت لیکھ رام اور عیسائیوں سے مناظرات اور جھوٹی پیش گوئیوں پر مشتمل کتاب ۔

تریاق القلوب:

صوفیاء، علما اور علماء دین کے خلاف سخت زبان استعمال کی گئی ۔

تجلیات الٰہیہ:

خدائی القابات اپنے لیے استعمال کیے۔اور اپنے آپ کو ایک عظیم تر شخصیت بتایا ۔

دافع البلاء:

مرزا نے طاعون کو اپنی صداقت کی دلیل قرار دیا۔

کشتی نوح:

قادیانیت کو نجات کا واحد ذریعہ قرار دیا گیا۔

التذکرہ:

مرزا کے مکاشفات، خوابیں اور الہامات کا مجموعہ

در مکنون :

در مکنون ا لمعروف کلام احمد مرزا قادیانی کی وہ بکواساتی اشعار کا مجموعہ ہے جسے اس نے ادعائے کاذبانہ سے پہلے کہا جس وقت یہ تخلص فرخ قادیانی استعمال کیا کرتا یہ فارسی میں ہے۔

مکتوبات احمد:

یعقوب علی عرفانی نے مرزا قادیانی کے خطوط کو اخبار الحکم میں شائع کرتا رہا پھر بعد میں الگ سے چھپواکر مکتوبات احمد نام رکھا۔

ملفوظات:

سب سےپہلے یہ ملفوظات قادیان کے مرزا کی حیات میں اخبار الحکم اور اخبار البدر میں شائع ہوئیں پھر مختلف لوگوں نے اسے ایک جگہ ترتیب دیکر علیحدہ طبع کرایا ۔

مجموعہ اشتہارات :

جو مرزا قادیانی کی کتابوں میں اشتہارات تھے اس کو محمد صادق ایڈیٹر اخبار بدر(قادیان) نے اشتھارات کو چھ جلدوں میں لگ شائع کیا ۔

یہ کتابوں کی مختصر وضاحت ہے ذیل میں مرزا قادیانی کی کتابوں کی تفصیلی فہرست دی گئی ہے جس میں کتابوں کے نام دیئے گئے ہیں پھر کتاب کے سن کو لکھا گیا ہے پھر کتاب کے سن اشاعت کو لکھا گیا ہے ۔ پھر آخر میں ملت قادیانیت نے مرزا قادیانیوں کی کتابوں کا مجموعہ چھاپہ ہے جس میں مرزا غلام احمد قادیانی کی تمام کتب کو یکجا طبع کرایا ہے جس کا نام انہوں نے روحانی خزائن رکھا ہے جس کی 23 جلدیں ہیں ان جلدوں کا بھی حوالہ دیا گیا ہے کہ کونسی کتابیں کس جلد اور کس صفحہ پر ہے ۔

undefined

undefined
undefined
undefined
undefined
undefined


موت:

۲۷ اپریل ۱۹۰۸ء کے دن مرزا غلام احمد قادیانی لاہور کے سفر پر نکل پڑے، تاہم خصوصی گاڑی کے انتظام میں تاخیر ہوئی اور ۲۹ اپریل کے دن لاہور پہنچے۔ یہاں قیام احمدیہ بلڈنگ میں تھا۔ یہیں مرزا غلام احمد قادیانی کی موت ۲۲ مئی ۱۹۰۸ء کے دن ۷۳ سال کی عمر میں ہوئی۔ 116

مرزا غلام احمد قادیانی کی موت سے چند ایام پہلے کے حالات وواقعات کے حوالے سے جو روایات جماعت احمدیہ کے زیر اہتمام شائع ہوئی ہیں، وہ الفاظ وتراکیب کے پس منظر میں باہم مختلف ضرور ہیں، لیکن متعارض نہیں کہی جاسکتی ہیں۔

سب سے پہلے مرزا قادیانی کے صاحبزادے کی روایت پڑھیے۔

"بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ جب حضرت مسیح موعود آخری بیماری بیمار ہوئے اور آپ کی حالت نازک ہوئی تو میں نے گھبرا کر کہا اللہ یہ کیا ہونے لگا ہے؟ اس پر حضرت صاحب نے فرمایا یہ وہی ہے جو میں کہا کرتا تھا۔ خاکسار نے والدہ صاحبہ کی یہ روایت جو شروع میں درج کی گئی ہے، جب دوبارہ والدہ صاحبہ کے پاس برائے تصدیق بیان کی اور حضرت مسیح موعود کی وفات کا ذکر آیا، تو والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود کو پہلا دست کھانا کھانے کے وقت آیا تھا، مگر اس کے بعد تھوڑی دیر تک ہم لوگ آپ کے پاؤں دباتے رہے اور آپ آرام سے لیٹ کر سو گئے اور میں بھی سوگئی لیکن کچھ دیر کے بعد آپ کو پھر حاجت محسوس ہوئی اور غالباً ایک یا دو دفعہ رفع حاجت کے لیے آپ پاخانہ تشریف لے گئے۔ اس کے بعد آپ نے زیادہ محسوس کیا تو اپنے ہاتھ سے مجھے جگایا۔ میں اٹھی تو آپ کو اتنا ضعف تھا کہ آپ میری چارپائی پر لیٹ گئے اور میں آپ کے پاؤں دبانے کے لیے بیٹھ گئی۔ تھوڑی دیر کے بعد حضرت صاحب نے فرمایا تم اب سو جاؤ۔ میں نے کہا نہیں، میں دباتی ہوں۔ اتنے میں آپ کو ایک اور دست آیا، مگر اب اس قدر ضعف تھا کہ آپ پاخانہ نہ جاسکتے تھے، اس لیے میں نے چارپائی کے پاس ہی انتظام کر دیا اور آپ وہیں بیٹھ کر فارغ ہوئے اور پھر اٹھ کر لیٹ گئے اور میں پاؤں دباتی رہی مگر ضعف بہت ہو گیا تھا۔ اس کے بعد ایک اور دست آیا اور پھر آپ کو ایک قے آئی۔ جب آپ قے سے فارغ ہو کر لیٹنے لگے، تو اتنا ضعف تھا کہ آپ لیٹتے لیٹتے پشت کے بل چارپائی پر گر گئے اور آپ کا سر چارپائی کی لکڑی سے ٹکرایا اور حالت دگرگوں ہوگئی۔ 116

خیال رہے کہ یہ معلومات مرزا غلام احمد قادیانی کی اہلیہ کی بیان کردہ روایت پر مبنی ہے، جسے اس کے صاحبزادے مرزا بشیر احمد ایم - اے نے اپنی کتاب میں جگہ دی ہے، لہٰذا اسے "گھر کی بات گھر والوں کی زبان سے" کے ضمن میں رکھنا چاہیے، نیز اس امر میں بھی کوئی شک وشبہ کی گنجائش نہیں کہ یہ روایت قادیانی فرقہ کے نزدیک بھی معتمد اور مستند سمجھی جاتی ہے۔

آگے بڑھنے سے پہلے ہم یہاں اور ایک عینی شہادت قارئین کرام کے سامنے رکھنا چاہیں گے، تاکہ تجزیاتی بحث پوری طرح حقائق ومعلومات کے اجالے میں ہو سکے اور حاصل نتیجہ بیان آسانی کے ساتھ قابل قبول ہو جائے۔

مرزا غلام احمد قادیانی کے معتمد اور سسر میر ناصر نواب کہتے ہیں:

"حضرت صاحب جس رات کو بیمار ہوئے، اس رات کو میں اپنے مقام پر جا کر سو چکا تھا۔ جب آپ کو بہت تکلیف ہوئی تو مجھے جگایا گیا تھا۔ جب میں حضرت صاحب کے پاس پہنچا اور آپ کا حال دیکھا، تو آپ نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ میر صاحب مجھے وبائی ہیضہ ہو گیا ہے۔ اس کے بعد آپ نے کوئی ایسی صاف بات میرے خیال میں نہیں فرمائی یہاں تک کہ دوسرے روز دس بجے کے بعد آپ کا انتقال ہو گیا۔ 119

لگے ہاتھوں میر ناصر نواب ہی کی ایک دوسری روایت یہ بھی ہے۔

"آپ نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ میر صاحب مجھے وبائی ہیضہ ہو گیا ہے۔ اس کے بعد آپ نے کوئی ایسی صاف بات میرے خیال میں نہیں فرمائی یہاں تک کہ دوسرے روز دس بجے کے بعد آپ کو ایک قے آئی۔ قے سے فارغ ہو کر آپ فرمانے لگے کہ یہ وہی ہے جو میں کہا کرتا تھا اتنے میں آپ کو ایک دست آیا مگر اب اس قدر ضعف تھا کہ آپ پاخانہ میں پہنچتے ہی گر گئے اور ہمیں تب معلوم ہوا، جب آپ جہان فانی سے کوچ فرما چکے تھے۔ 120

متذکرہ بالا تینوں روایات کے بطن سے اٹھنے والے سوالات یہ ہیں:

1. کیا مرزا غلام احمد قادیانی کی موت وبائی ہیضہ سے ہوئی؟

2. کیا مرزا کی موت سے خود اپنی ہی پیشن گوئی اپنے خلاف ثابت ہوگئی؟

3. کیا مرزا کی موت پاخانہ میں ہوئی؟





  • 1 تریاق القلوب: 351؛ روحانی خزائن، 15: 479
  • 2 حیات النّبی، 1: 50
  • 3 کتاب البریہ، حاشیہ: 159؛ مندرجہ روحانی خزائن 13: 177
  • 4 مرزا بشیر احمد، سیرۃ المہدی، 2: 150
  • 5 مرزا بشیر احمد، سیرۃ المہدی، 2: 74
  • 6 مرزا بشیر احمد، سیرۃ المہدی، 2:76
  • 7 مرزا بشیر احمد، سیرۃ المہدی، 3: 194
  • 8 مرزا بشیر احمد، سیرۃ المہدی، 3: 302
  • 9 غلام احمد قادیانی، کتاب البریہ، حاشیہ: 144، 145؛ روحانی خزائن، 13: 162، 163
  • 10 غلام احمد قادیانی، کتاب البریہ، حاشیہ: 135؛ مندرجہ روحانی خزائن، 13: 163
  • 11 غلام احمد قادیانی، اربعین، حاشیہ: 23؛ مندرجہ روحانی خزائن، 17: 365
  • 12 مرزا غلام احمد قادیانی، ایک غلطی کا ازالہ: 12؛ مندرجہ روحانی خزائن، 18: 216
  • 13 مرزا غلام احمد قادیانی، تحفہ گولڑویہ:41؛ مندرجہ روحانی خزائن، 17: 127
  • 14 غلام احمد قادیانی، نزول المسیح، حاشیہ: 48؛ مندرجہ روحانی خزائن، 18: 626
  • 15 غلام احمد قادیانی، تریاق القلوب:158، 159؛ مندرجہ روحانی خزائن، 15: 286، 287
  • 16 غلام احمد قادیانی، حقیقۃ الوحی، تتمہ: 85؛ مندرجہ روحانی خزائن، 22: 521
  • 17 تذکرہ، مجموعہ الہاماتِ مرزا: 472
  • 18 غلام احمد قادیانی، تتمہ حقیقہ الوحی: 85؛ مندرجہ روحانی خزائن، 22: 522
  • 19 غلام احمد قادیا نی، تتمہ حقیقۃ الوحی: 85؛ مندرجہ روحانی خزائن، 22: 521
  • 20 غلام احمد قادیانی، در ثمین: 100
  • 21 غلام احمد قادیانی، در ثمین: 68
  • 22 مرزا بشیر احمد، سیرۃ المہدی، 3: 194
  • 23 تذکرہ، مجموعہ الہامات: 297
  • 24 قاضی یار محمد، اسلامی قربانی، ٹریکٹ نمبر 34، صفحہ: 34
  • 25 غلام احمد قادیانی، حقیقۃ الوحی: 95؛ تذکرہ: 144
  • 26 غلام احمد قادیانی، تتمہ حقیقۃ الوحی: 143؛ مندرجہ روحانی خزائن، 22: 581
  • 27 سیرت المہدی حصہ اول ص :36
  • 28 مرزا بشیر احمد قادیانی، سیرت المہدی، 1: 45
  • 29 مرزا بشیر احمد قادیانی، سیرت المہدی، 1: 45
  • 30 مرزا بشیر احمد، سیرت المہدی، 1: 245
  • 31 مرزا بشیر احمد، سیرت المہدی، 1: 244
  • 32 سیرت المہدی حصہ اول ص:276
  • 33 چودھویں صدی کا مسیح: 11، مطبوعہ امرتسر، 1324ھ
  • 34 مرزا بشیر احمد قادیانی، سیرۃ المہدی، 1: 34، 35
  • 35 غلام احمد قادیانی، ایام الصلح: 147؛ مندرجہ روحانی خزائن، 14: 394
  • 36 غلام احمد قادیانی، کتاب البریہ، حاشیہ: 161؛ مندرجہ روحانی خزائن، 13: 179-181
  • 37 غلام احمد قادیانی، کتاب البریہ، حاشیہ: 163؛ روحانی خزائن، 13: 181
  • 38 غلام احمد قادیانی، کتاب البریہ، حاشیہ: 163؛ روحانی خزائن، 13: 181
  • 39 غلام احمد قادیانی، کتاب البریہ، حاشیہ: 164؛ مندرجہ روحانی خزائن، 13: 182
  • 40 کتاب البریہ صفحہ 162 مندرجہ روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 180، 181
  • 41 ملفوظات جلد اوّل صفحہ 583
  • 42 خبار ”الفضل” قادیان، جلد 16، نمبر 62، صفحہ 8، مورخہ 5 فروری 1929
  • 43 چشمہ معرفت: 222؛ مندرجہ روحانی خزائن، 23: 231
  • 44 تحفہ گولڑویہ: 20؛ مندرجہ روحانی خزائن، 17: 56
  • 45 تحفہ گولڑویہ، حاشیہ: 20؛ مندرجہ روحانی خزائن، 17: 56
  • 46 مرزا بشیر احمد، سیرۃ المہدی، 2: 150
  • 47 ڈاکٹر بشارت احمد، مجدد اعظم، 1: 25
  • 48 تحفہ شہزادہ ویلز: 341 بحوالہ رئیس قادیان
  • 49 مرزا بشیر احمد، سیرۃ المہدی، 1: 35، روایت نمبر: 49
  • 50 مرزا بشیر احمد، سیرۃ المہدی، 1: 138، روایت نمبر: 150
  • 51 مرزا بشیر احمد قادیانی، سیرۃ المہدی، 1: 137، روایت نمبر: 150
  • 52 مرزا بشیر احمد، سیرۃ المھدی، 1: 138؛ روایت نمبر: 150
  • 53 اخبار پیغام صلح، 4 مارچ 1935ء
  • 54 21ستمبر 1933، سودائے مرزا :39، حاشیہ حکیم محمد علی صاحب پرنسپل طیبہ کالج امرتسر
  • 55 محمود احمد قادیانی، اخبار الفضل، جلد: 17، نمبر:4، 9ا جولائی 1929
  • 56 روزنامہ الفضل، قادیان دار لأمان مؤرخہ 31 اگست 1938
  • 57 قادیانی اخبار الحکم، قادیان، جلد: 11، نمبر 13۔ 17 اپریل 1907ء
  • 58 بشیر احمد قادیانی، مرزا، سیرت المہدی، 3: 210
  • 59 بشیر احمد قادیانی، مرزا، سیرت المہدی، 1: 232، 233
  • 60 ضمیمہ اربعین نمبر: 4
  • 61 غلام احمد قادیانی، تتمہ حقیقۃ الوحی : 14
  • 62 غلام احمد قادیانی، تتمہ حقیقۃ الوحی : 13
  • 63 غلام احمد قادیانی، چشمہ معرفت : 116
  • 64 غلام احمد قادیانی، آئینہ کمالات اسلام : 547
  • 65 مکتوبات احمد، 1:25
  • 66 غلام احمد قادیانی، ضمیمہ انجام آتھم : 27
  • 67 غلام احمد قادیانی، ازالہ اوہام، 2: 356، مندرجہ روحانی خزائن، 3: 456
  • 68 غلام احمد قادیانی، نورالحق: 118-122، مندرجہ روحانی خزائن، 8: 158-162
  • 69 غلام احمد قادیانی، تحفہ قیصریہ: 31، 32، مندرجہ روحانی خزائن، 12: 283، 284
  • 70 غلام احمد قادیانی، شہادۃ القرآن: 84، مندرجہ روحانی خزائن، 6: 380
  • 71 غلام احمد قادیانی، تحفہ قیصریہ: 27
  • 72 مجموعہ اشتہارات، 3: 584
  • 73 تبلیغ رسالت، مولفہ میر قاسم علی قادیانی، 7: 10۔ 11
  • 74 تبلیغ رسالت، مولفہ میر قاسم علی قادیانی، 6: 65
  • 75 الفضل، 13 ستمبر 1914
  • 76 سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 30 روایت نمبر 41
  • 77 سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 30 روایت نمبر 41
  • 78 روزنامہ الفضل قادیان 7 جولائی 1943ء صفحہ 3
  • 79 سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 750 ،751 روایت نمبر 834، 835
  • 80 کشف الغطاء صفحہ 16 ٬ 20 مندرجہ روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 197 ، 203
  • 81 سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 56 روایت نمبر 77
  • 82 سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 443 روایت نمبر 470
  • 83 سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 338 روایت نمبر 369
  • 84 سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 338 روایت 369
  • 85 مرزا بشیر احمد، سیرت المہدی، 2: 55
  • 86 ملفوظات، 2: 376، مورخہ 30 اکتوبر 1901ء، بیان مرزا غلام احمد قادیانی، مندرجہ اخبار ’’الحکم‘‘ قادیان، 5: 40
  • 87 مرزا بشیر احمد، سیرۃ المہدی، 3: 304
  • 88 مرزا بشیراحمد قادیانی، سیرۃ المہدی، 1: 13، روایت نمبر: 19
  • 89 مرزا بشیر احمد قادیانی، سیرۃ المہدی، 1: 51، روایت نمبر: 81
  • 90 مرزا بشیر احمد قادیانی، سیرۃ المہدی، 1: 22، روایت نمبر: 36
  • 91 مرزاغلام احمد قادیانی، تذکرۃ الشہادتین: 23۔ 24، مندرجہ روحانی خزائن، 20: 46
  • 92 ڈاکٹر بشارت احمد، مجدد اعظم، حصہ دوئم رضی اللہ عنہ 8/1207، بار اول ازجون 1900 تا وفات (سوانح عمری مرزا قادیانی) ذی قعد ھ 1359ھ دسمبر 1940ء
  • 93 برہان الدین نفیس، شرح اسباب و علامات
  • 94 قانون شیخ الرئیس حکیم بو علی سینا، فن اول از کتاب ثالث بحوالہ پروفیسر محمد الیاس برنی، قادیانی مذہب کا علمی محاسبہ: 143، 144
  • 95 ڈاکٹر غلام جیلانی، مخزن حکمت، 2: 69، طبع نہم، 1368ء
  • 96 محمد رفیق حجازی، کنز العلاج: 139، طبع چہارم، 1959ء
  • 97 حکیم ڈاکٹر غلام جیلانی، مخزن حکمت، طبع دوم
  • 98 ڈاکٹر فضل کریمِ، کتاب تشخیص امراض مکمل، 2: 21
  • 99 حکیم محمد اعظم خان، اکسیر اعظم: 190، مطبع لکھنو، طبع چہارم
  • 100 حکیم نفیس بن عوض، شرح الاسباب والعلامات، 1: 70، باب امراض الرأس، مطبع منشی نو لکشور لکھنو ربیع الثانی 1345ھ اکتوبر 1926ء
  • 101 برھان الدین نفیس، شرح الاسباب و العلامات، 1: 69، مطبع لکھنو
  • 102 محمد رفیق حجازی، کنز العلاج: 134، طبع چہارم، 1959ء
  • 103 ڈاکٹر غلام جیلانی، مخزنِ حکمت، 2: 1364، طبع نہم
  • 104 حکیم حاجی مرزا محمد نذیر عرشی، کلید مطب: 139
  • 105 ڈاکٹر فضل کریم، کتاب تشخیص امراض مکمل، 2: 21
  • 106 مضمون ڈاکٹر شاہ نواز قادیانی، مندرجہ رسالہ ’’ریویو آف ریلیجز‘‘ قادیان: 6، 7، بابت ماہ اگست 1926ء
  • 107 یعقوب علی صاحب قادیانی، حیات احمد، 2: 79
  • 108 مرزا بشیر احمد قادیانی، سیرۃ المہدی، 1: 42، روایت: 66
  • 109 مکتوبات أحمدیہ، جلد پنجم نمبر 2: 90
  • 110 رسالہ، ’’ریویو‘‘ قادیان، بابت مئی 1937ء
  • 111 نسیمِ دعوت: 68، مندرجہ روحانی خزائن، 19: 435
  • 112 ضمیمہ أربعین نمبر 3۔ 4 ص: 4، مندرجہ روحانی خزائن، 17: 470۔ 471
  • 113 مکتوبات احمدیہ، 5: 21، نمبر: 3
  • 114 ملفوظات، 2 :377، 376 ،یان مرزا غلام احمد قادیانی، مندرجہ اخبار ’’الحکم‘‘ قادیان جلد 5 نمبر 40، منقول از کتاب منظور الٰہی:349
  • 115 چشمہ معرفت صفحہ 1 مندرجہ روحانی خزائن جلد 23 صفحہ9 از مرزا قادیانی
  • 116 آریہ دھرم صفحہ 72 تا 75 مندرجہ روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 72 تا 75 از مرزا قادیانی
  • 116 حیات طیبہ: شیخ عبد القادر، ص: 347
  • 116 سیرت المہدی، ج 1، ص 11
  • 117 افادۃ الافہام ،ج:1،ص:16
  • 118 دیباچہ براہین احمدیہ، ج :5، مندرجہ روحانی خزائن، ج :21، ص :9
  • 119 حیات ناصر، مرتبہ یعقوب علی عرفانی، ص 14
  • 120 حیات ناصر، مرتبہ مولوی محمد اعظم، ص 14

Netsol OnlinePowered by