logoختم نبوت

مرزا قادیانی کی دماغی کیفیت اور بیماریاں

مرزا غلام احمد قادیانی کے دعویٔ نبوت کے اسباب میں سے ایک اہم ترین سبب یہ بھی ہے کہ وہ مراق کے مریض تھے۔ اطباء کی تحقیق سے ثابت ہے کہ مراق کا مریض اس قسم کے دعوے کرتا رہتا ہے، حتی کہ وہ خدائی کا دعویٰ بھی کر دیتا ہے۔ ہم نے ذیل میں خود مرزا صاحب، اُن کی اہلیہ، صاحبزادے اور دیگر مریدین کی تحریروں اور بیانات سے ثابت کیا ہے کہ مرزا صاحب کو مراق کا مرض لاحق تھا اور پھر اِس مرض کے بارے میں چند ماہرینِ طب کی آراء بھی نقل کی ہیں:

مراق کے بارے میں خود مرزا صاحب کا اِقرار:

’’ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے کئی دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سنا ہے کہ مجھے ہسٹریا ہے۔ بعض اوقات آپ مراق بھی فرمایا کرتے تھے لیکن دراصل بات یہ ہے کہ آپ کو دماغی محنت اور شبانہ روز تصنیف کی مشقت کی وجہ سے بعض ایسی عصبی علامات پیدا ہو جایا کرتی تھیں جو ہسٹریا کے مریضوں میں بھی عموماً دیکھی جاتی ہیں۔ مثلاً کام کرتے کرتے یکدم ضعف ہو جانا، چکروں کا آنا، ہاتھ پاؤں کا سرد ہوجانا، گھبراہٹ کا دورہ ہونا ایسا معلوم ہونا کہ ابھی دم نکلتا ہے یا کسی تنگ جگہ یا بعض اوقات زیادہ آدمیوں میں گھر کر بیٹھنے سے دل کا سخت پریشان ہونے لگنا وغیرہ ذلک۔‘‘ 1

مرزا صاحب کے نزدیک سب انبیاء کو مراق ہوتا ہے:

’’سیٹھی غلام نبی صاحب نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دن کا ذکر ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاول نے حضرت مسیح موعود سے فرمایا کہ حضور، غلام نبی کو مراق ہے تو حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ایک رنگ میں سب نبیوں کو مراق ہوتا ہے اور مجھ کو بھی ہے۔‘‘ 3

باقاعدہ دورہ پڑنے کا آغاز:

’’بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود (یعنی والد صاحب) کو پہلی دفعہ دوران سر اور ہسٹریا کا دورہ … بشیر اول کی وفات کے چند دن بعد ہوا تھا۔ رات کو سوتے ہوئے آپ کو اتھو آیا اور پھر اس کے بعد طبیعت خراب ہو گئی مگر یہ دورہ خفیف تھا۔ پھر اس کے کچھ عرصے بعد آپ ایک دفعہ نماز کے لیے باہر گئے اور جاتے ہوئے فرما گئے کہ آج کچھ طبیعت خراب ہے۔ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ تھوڑی دیر کے بعد شیخ حامد علی… نے دروازہ کھٹکھٹایا کہ جلدی پانی کی ایک گاگر گرم کر دو۔ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ میں سمجھ گئی کہ حضرت صاحب کی طبیعت خراب ہو گئی ہو گی چنانچہ میں نے کسی ملازم عورت کو کہا کہ اس سے پوچھو میاں کی طبیعت کا کیا حال ہے؟ شیخ حامد علی نے کہا کہ کچھ خراب ہو گئی ہے۔ میں پردہ گرا کر مسجد میں چلی گئی تو آپ لیٹے ہوئے تھے۔ میں جب پاس گئی تو فرمایا کہ میری طبیعت بہت خراب ہو گئی تھی لیکن اب افاقہ ہے۔ میں نماز پڑھ رہا تھا کہ میں نے دیکھا کہ کوئی کالی چیز میرے سامنے سے اٹھی ہے اور آسمان تک چلی گئی پھر میں چیخ مار کر زمین پر گر گیا اور غشی کی سی حالت ہو گئی۔ والدہ صاحبہ فرماتی ہیں کہ اس کے بعد سے آپ کو باقاعدہ دورے پڑنے شروع ہو گئے۔ خاکسار نے پوچھا دورہ میں کیا ہوتا تھا؟ والدہ صاحبہ نے کہا: ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہو جاتے تھے اور بدن کے پٹھے کھنچ جاتے تھے خصوصاً گردن کے پٹھے اور سر میں چکر ہوتا تھا اور اس حالت میں آپ اپنے بدن کو سہار نہیں سکتے تھے۔ شروع شروع میں یہ دورے بہت سخت ہوتے تھے پھر اس کے بعد کچھ تو دوروں کی ایسی سختی نہیں رہی اور کچھ طبیعت عادی ہو گئی۔ خاکسار نے پوچھا کہ اس سے پہلے تو سر کی کوئی تکلیف نہیں تھی؟ والدہ صاحبہ نے فرمایا پہلے معمولی سر درد کے دورے ہوا کرتے تھے۔ خاکسار نے پوچھا کیا پہلے حضرت صاحب خود نماز پڑھاتے تھے؟ والدہ صاحبہ نے کہا کہ ہاں مگر پھر دوروں کے بعد چھوڑ دی۔‘‘ 4

مرزا صاحب ان دوروں اور ان کے باعث فاسد خیالات کو نزولِ وحی اور نبوت سے تعبیر کرتے تھے۔

رمضان میں دوروں کا زور:

’’بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دورے پڑنے شروع ہوئے تو آپ نے اس سال سارے رمضان کے روزے نہیں رکھے اور فدیہ ادا کر دیا۔ دوسرا رمضان آیا تو آپ نے روزے رکھنے شروع کیے مگر آٹھ نو روزے رکھے تھے کہ پھر دورہ ہوا۔ اس لیے باقی چھوڑ دیئے اور فدیہ ادا کر دیا۔ اس کے بعد جو رمضان آیا تو اس میں آپ نے دس گیارہ روزے رکھے تھے کہ پھر دورہ کی وجہ سے روزے ترک کرنے پڑے اور آپ نے فدیہ ادا کر دیا۔ اس کے بعد جو رمضان آیا تو آپ کا تیرھواں روزہ تھا کہ مغرب کے قریب آپ کو دورہ پڑا اور آپ نے روزہ توڑ دیا اور باقی روزے نہیں رکھے اور فدیہ ادا کر دیا۔ اس کے بعد جتنے رمضان آئے آپ نے سب روزے رکھے مگر پھر وفات سے دو تین سال قبل کمزوری کی وجہ سے روزے نہیں رکھ سکے اور فدیہ ادا فرماتے رہے۔ خاکسار نے دریافت کیا کہ جب آپ نے ابتداً دوروں کے زمانہ میں روزے چھوڑے تو کیا پھر بعد میں ان کو قضا کیا۔ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ نہیں صرف فدیہ ادا کر دیا تھا۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ جب شروع شروع میں حضرت مسیح موعود کو دوران سر اور برو اطراف کے دورے پڑنے شروع ہوئے تو اس زمانہ میں آپ بہت کمزور ہو گئے تھے۔‘‘ 5

بد ترین دورہ:

’’بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ اوائل میں ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سخت دورہ پڑا۔ کسی نے مرزا سلطان احمد اور مرزا فضل احمد کو بھی اطلاع دے دی اور وہ دونوں آ گئے پھر ان کے سامنے بھی حضرت مرزا صاحب کو دورہ پڑا۔ والدہ صاحبہ فرماتی ہیں اس وقت میں نے دیکھا کہ مرزا سلطان احمد تو آپ کی چار پائی کے پاس خاموشی کے ساتھ بیٹھے رہے مگر مرزا فضل احمد کے چہرہ پر ایک رنگ آتا تھا اور ایک جاتا تھا اور وہ کبھی ادھر بھاگتا تھا اور کبھی ادھر۔ کبھی اپنی پگڑی اتار کر حضرت صاحب کی ٹانگوں کو باندھتا تھا اور کبھی پاؤں دبانے لگ جاتا تھا اور گھبراہٹ میں اس کے ہاتھ کانپتے تھے۔‘‘ 6

اپنے مرض کو بھی حضور ﷺ کے ارشاد سے منسوب کر دیا:

1۔ ’’دیکھو میری بیماری کی نسبت بھی آنحضرت ﷺ نے پیش گوئی کی تھی جو اس طرح وقوع میں آئی۔ آپ نے فرمایا تھا کہ مسیح آسمان پر ہے۔ جب اترے گا تو دو زرد چادریں اس نے پہنی ہوئی ہوں گی تو اسی طرح مجھ کو دو بیماریاں ہیں ایک اوپر کے دھڑ کی اور ایک نیچے کے دھڑ کی یعنی مراق اور کثرتِ بول۔‘‘

قول مرزا غلام احمد قادیانی، مندرجہ رسالہ تشحیذ الأذہان‘‘ قادیان

3۔ ڈاکٹر بشارت احمد قادیانی لکھتے ہیں:

’’حضرت اقدس کو چونکہ شب و روز دماغی محنت سے کام تھا اس لیے سالہا سال سے آپ اعصابی کمزوری کا نشانہ بن گئے تھے……حضرت اقدس کو یہ دورہ دو طریق پر ہوتا تھا۔ یا تو اوپر کے دھڑ پر اثر پڑتا تھا اس صورت میں دوران سر درد ہونے لگتا تھا یعنی چکر آتے تھے اور دل گھٹنے لگتا تھا اور ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہوجاتے تھے اور نبض بہت کمزور پڑ جاتی … اور یا نیچے کے دھڑ پر اثر پڑتا تھا اور وہ اس طرح کہ دورہ کے وقت کبھی پیشاب کثرت سے آنے لگتا تھا اور کبھی ایسا ہوتا کہ اسہال شروع ہو جاتے تھے۔ غرض یہ کہ حضرتِ اقدس کو دورہ کے وقت کبھی تو اوپر کے دھڑ پر اثر پڑتا تھا اور کبھی نیچے کے دھڑ پر جیسا کہ میں اوپر درج کر آیا ہوں اور یہ صحیح مسلم کی اس حدیث نبوی کے مطابق تھا جس میں آنحضرت ﷺ کے مسیح موعود کو کشفی طور پر دو زرد چادروں میں ملبوس دیکھنے کا ذکر ہے۔ علم تعبیر کی کتابوں میں زرد چادروں سے مراد بیماریاں ہوتی ہیں۔ پس یہی وہ مسیح موعود کی دو قسم کی بیماریاں تھیں جو آنحضرت ﷺ کو کشف میں دو زرد چادروں کی شکل میں دکھائی گئی تھیں۔‘‘ 8

مراق کیا ہے؟

1۔ علامہ برہان الدین نفیس مراق کے تعارف میں لکھتے ہیں:

’’مالیخولیا کی ایک قسم ہے جس کو مراق کہتے ہیں۔ یہ مرض تیز سودا سے جو معدہ میں جمع ہوتا ہے پیدا ہوتا ہے اور جس عضو میں یہ مادہ جمع ہو جاتا ہے اس سے سیاہ بخارات اُٹھ کر دماغ کی طرف چڑھتے ہیں۔

’’اس کی علامات یہ ہیں: ترش دخانی ڈکاریں آنا، ضعف معدہ کی وجہ سے کھانے کی لذت کم معلوم ہونا، ہاضمہ خراب ہو جانا، پیٹ پھولنا، پاخانہ پتلا ہونا، دھویں جیسے بخارات چڑھتے ہوئے معلوم ہونا۔‘‘ 9

2۔ حکیم بو علی سینا مالیخولیا کے متعلق لکھتے ہیں:

’’مالیخولیا اس مرض کو کہتے ہیں جس میں حالت طبعی کے خلاف خیالات و افکار متغیر بخوف و فساد ہو جاتے ہیں۔ اس کا سبب مزاج کا سودا دی ہو جانا ہوتا ہے۔ جس سے روح دماغی اندرونی طور پر متوحش ہوتی ہے اور مریض اس کی ظلمت سے پراگندہ خاطر ہو جاتا ہے یا پھر یہ مرض حرارتِ جگر کی شدت کی وجہ سے ہوتا ہے اور یہی چیز مراق ہوتی ہے۔ جب اس میں غذا کے فضلات اور آنتوں کے بخارات جمع ہو جاتے ہیں اور اس کے اخلاط جل کر سودا کی صورت میں تبدیل ہو جاتے ہیں تو ان اعضاء سے سیاہ بخارات اٹھ کر سر کی طرف چڑھتے ہیں۔ اسی کو نفخہ مراقیہ، مالیخولیائے نافخ اور مالیخولیائے مراقی کہتے ہیں۔‘‘ 10

مراق کی اہم علامات:

ماہرین طب نے مراق کی جو علامات بیان کی ہیں ان میں سے چند اہم درج ذیل ہیں:

مریض کا فکر سلامت نہیں رہتا

’’یہ ایک قسم کا مالیخولیا ہے جس میں مریض کے افکار و خیالات حالت طبعی سے بدل جاتے ہیں اور بالعموم اس میں انانیت یعنی خودی اور تکبر اور تعلی یعنی اپنی بڑائی کے فاسد خیالات سما جاتے ہیں۔ پس وہ ہر بات میں مبالغہ کرتا ہے۔‘‘ 11

دماغی حواس قائم نہیں رہتے

’’اس مرض میں مریض کے دماغی حواس درست نہیں رہتے۔ ہر وقت سست متفکر اور خودی کے خیالات میں مست رہتا ہے۔‘‘ 12

مریض مراق ہر بات میں مبالغہ کرتا ہے:

1۔ مریض ہمیشہ سست و متفکر رہتا ہے۔ اس میں خودی کے خیالات پیدا ہو جاتے ہیں۔ ہر ایک بات میں مبالغہ کرتا ہے … بھوک نہیں لگتی، کھانا ٹھیک طور پر ہضم نہیں ہوتا۔13

2۔ اس میں خودی کے خیالات پیدا ہوجاتے ہیں۔ ذرا سی بات یا تکلیف بڑھا کر پیش کرتا ہے۔ ہر بات میں مبالغہ کرتا ہے۔ 14

نبی ہونے کا دعویٰ:

’’اگر مریض دانشمند ہو تو پیغمبری اور معجزات و کرامات کا دعویٰ کرتا ہے۔ خدائی باتیں کرتا ہے اور لوگوں کو اس کی تبلیغ کرتا ہے۔‘‘ 15

فرشتہ اور خدا ہونے کا دعویٰ:

’’اور کبھی بعض میں فساد اس حد تک پہنچ جاتا ہے کہ گمان کرنے لگتے ہیں کہ وہ فرشتہ ہو گئے اور کبھی بعض میں (فساد) اس سے بھی زیادہ حد تک پہنچ جاتا ہے وہ گمان کرتے ہیں کہ وہ خدا ہیں۔‘‘ 16

علم غیب جاننے کا دعویٰ:

’’بعض مریضوں میں گاہے گاہے یہ فساد اس حد تک پہنچ جاتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو غیب دان سمجھتا ہے اور اکثر ہونے والے اُمور کی پہلے ہی خبر دے دیتا ہے اور بعض میں یہ فساد یہاں تک ترقی کر جاتا ہے کہ اس کو اپنے متعلق یہ خیال ہوتا ہے کہ میں فرشتہ ہوں۔‘‘ 17

بادشاہ و پیغمبر ہونے کا دعویٰ:

1۔ مریض اپنے آپ کو بہت کچھ سمجھنے لگتا ہے۔ اپنے آپ کو کبھی بادشاہ اور کبھی پیغمبر سمجھتا ہے۔ 18

2۔ کسی کو بادشاہ بننے اور ملک فتح کرنے کے خیالات ہو جاتے ہیں۔ بعض عالم اس مرض میں مبتلا ہوکر دعویٰ پیغمبری کرنے لگتے ہیں اور اپنے بعض اتفاقی صحیح واقعات کو معجزات قرار دینے لگتے ہیں۔ 19

عظمت و بزرگی کا ہر پہلو عنوانِ دعویٰ بن سکتا ہے:

اس بیماری میں مبتلا مریض کی عقل میں فتور آجاتا ہے وہ اپنے فضول اور بے بنیاد وہم کی وجہ سے خائف یا آمادۂ فساد رہتا ہے، بادشاہی یا ولایت یا پیغمبری کا دعویٰ کرتا ہے۔ 20

ایک اور ماہر طب کی رائے:

خیالات خام ہوجاتے ہیں، کوئی اپنے آپ کو بادشاہ، جرنیل قرار دیتا ہے۔ بعض پیغمبری کا دعویٰ کرتے اور اپنے اتفاقیہ صحیح واقعات کو معجزات قرار دیتے ہیں۔ 21

ڈاکٹر شاہنواز قادیانی کی رائے:

’’ایک مدعی الہام کے متعلق اگر یہ ثابت ہو جائے کہ اس کو ہسٹریا، مالیخولیا، مرگی کا مرض تھا تو اس کے دعوے کی تردید کے لیے پھر کسی اور ضرب کی ضرورت نہیں رہتی کیونکہ یہ ایسی چوٹ ہے جو اس کی صداقت کی عمارت کو بیخ و بن سے اکھاڑ دیتی ہے۔‘‘ 22

مرزا صاحب کی چند دیگر بیماریوں کا ذکر:

ہم یہاں نامناسب خیال کرتے ہیں کہ مرزا صاحب کی مراق کے علاوہ دیگر بیماریوں کا ذکر نہ کیا جائے:

1۔ دق اور سل

2۔ اعصابی کمزوری:

1۔ ’’مخدومی مکرمی اخویم (مولوی نور الدین صاحب) السلام علیکم ورحمۃ اللہ

یہ عاجز پیر کے دن 9 مارچ 1891ء کو مع اپنے عیال کے لدھیانہ کی طرف جائے گا اور چونکہ سردی اور دوسرے تیسرے روز بارش بھی ہو جاتی ہے اور اس عاجز کی مرض اعصابی ہے۔ سرد ہوا اور بارش سے بہت ضرر پہنچتا ہے اس وجہ سے یہ عاجز کسی صور ت سے اس قدر تکلیف اٹھا نہیں سکتا کہ اس حالت میں لدھیانہ پہنچ کر پھر جلدی لاہور میں آوے۔ طبیعت بیمار ہے لاچار ہوں۔ اس لیے مناسب ہے کہ اپریل کے مہینہ میں کوئی تاریخ مقرر کی جاوے۔ والسلام خاکسار غلام احمد‘‘ 25

دو مستقل بیماریاں:

حافظہ کی ابتری:

’’مکرمی اخویم سلمہ میرا حافظہ بہت خراب ہے۔ اگر کئی دفعہ کسی کی ملاقات ہو تب بھی بھول جاتا ہوں۔ یاد دہانی عمدہ طریقہ ہے۔ حافظہ کی یہ ابتری ہے کہ بیان نہیں کر سکتا۔

خاکسار غلام احمد از صدر انبالہ حاطہ ناگ پھنی‘‘ 29

اسہال کی بیماری:

’’مجھے اسہال کی بیماری ہے اور ہر روز کئی کئی دست آتے ہیں مگر جس وقت پاخانے کی بھی حاجت ہوتی ہے تو مجھے نج ہی ہوتا ہے کہ ابھی کیوں حاجت ہوئی۔ ایسا ہی روٹی کے لیے جب کئی مرتبہ کہتے ہیں تو بڑا جبر کرکے جلد جلد چند لقمے کھا لیتا ہوں بظاہر تو میں روٹی کھاتا ہوا دکھائی دیتا ہوں مگر میں سچ کہتا ہوں کہ مجھے پتہ نہیں ہوتا کہ وہ کہاں جاتی ہے اور کیا کھاتا ہوں میری توجہ اور خیال اسی طرف لگا ہوا ہوتا ہے۔‘‘ 30

مرزا صاحب کی بیماریوں کی ایک طویل فہرست ہے۔ ہم نے یہاں طوالت کے خوف سے صرف چند ایک ذکر کیا ہے۔

قادیانی کی ذہنیت :

مرزاقادیانی کے ”ظر ف” میں اخلاق حسنہ کا ایک قطرہ بھی نہیں تھا۔ بلکہ وہ سرا سر اخلاقی کمزوریوں نکتہ چینیوں، بدگوئیوں بدکلامیوں سے لبریز تھا۔ اور یہاں تک اس نے اس فن دشنام دہی میں وہ ترقی کی تھی کہ اس کو دیکھ کر او ر سن کر بد اخلاقی و بد تمیزی بھی شرم و ندامت سے سرنگوں ہو جاتی ہے۔ اس لیے اگر مرزا قادیانی کو اس فن کا ”بے تاج بادشاہ” کہا جائے تو کچھ بے جا نہیں۔ بقول مرزا قادیانی:

فواحش سے لبریز تحریریں ہر معاشرے کے لیے زہر قاتل ہیں۔ اس سے نہ صرف معاشرے میں شرم و حیا ختم ہو جاتا بلکہ عفت و عصمت اپنی اصل قدر و قیمت بھی کھو بیٹھتی ہیں۔ انسانی جذبات و احساسات کو برانگیختہ کرنے والی، آنجہانی مرزا قادیانی کی کتابیں فحش لٹریچر کا نادر نمونہ ہیں۔ اس کی تحریروں میں بے شرمی و بے حیائی کی باتیں نمایاں ہوتی ہیں۔ذیل میں دی گئی تحریر مرزا قادیانی کی گندی ذہنیت کی عکاسی کرتی ہے ۔ اس کو پڑھنے کے بعد مرزا قادیانی کے بلند بانگ دعوے یعنی بنی ، ظلی ، بروزی ، محدث وغیرہ کی طرف تو ذہن سوچتا بھی نہیںمگر یہ سوچ آتی ہے کہ کہیں یہ شخص دیوث تو نہیں تھا ۔

واقعہ یہ ہے کہ گورہ فوج میں ایک گندا قانون ” قانون دکھائی ”کے نا م سے چلتا تھا ۔ یہ قانون ان فاحشہعورتوں کے لئے تھا جو انگریز فوج کے ساتھ رکھی جاتی تھیں ان کاکام انگریز سپاہیوں کی ناجائز خواہشات کی تکمیل تھا ۔ان عورتوں کا جانوروں کی طرح معائنہ کیا جاتا تھا کہ آیا یہ عورتیں جسمانی طور پر اس کام کے لیے صحت مند ہیں یا نہیں ۔اور کہیں ان سے انگریز سپاہیوں کی صحت پر اثر تو نہ ہو گا۔ یہ قانون ختم کیا گیا۔انگریز سپاہیوںکی صحت کا خطرہ پیدا ہوا ۔ مرزا قادیانی نے ایک ماہر دلال کی طرح تمام حالات کا جائزہ لیا اور انگریز گورنمنٹ کو اپنی ماہرانہ رپورٹ پیش کی ۔

تحریر ملاحظہ کیجئے:

قانون دکھائی:

(02) ”وزارت کے تبدیل ہوتے ہی ولایت کے نامور اور سربرآوردہ اخبار ٹائمز نے جس زور شور سے قانون دکھائی کو پھر جاری کرنے کے سلسلہ جنبانی کی ہے، وہ ناظرین پر ظاہر کی جا چکی ہے۔ کنسرویٹو وزارت سے جو سرکاری عہدہ داران کی رائے کو ہمیشہ بڑی وقعت سے دیکھتی ہے۔ امید ہو سکتی ہے کہ بالضرور وہ اس معاملہ پر اچھی طرح غور کرے گی کیونکہ اس قانون کی منسوخی کے وقت سرجارج وائٹ صاحب کمانڈر انچیف افواج ہند نے جو پر زور مخالفانہ رائے ظاہر کی تھی، وہ اس قابل ہے کہ ضرور کنسرویٹو گورنمنٹ اس پر توجہ کرے گورنمنٹ ہند بھی اس قانون کے منسوخ کرنے پر رضامند نہ تھی پس ان واقعات کی رو سے پورے طور پر خیال ہو سکتا ہے کہ قانون دکھائی پھر جاری کیا جاوے اس میں شک نہیں ہے کہ قانون دکھائی کے منسوخ ہونے کے دن سے گورہ سپاہیوں کی حالت بہت خراب ہو گئی ہے۔ دیکھا جاتا ہے کہ برٹش کے بہادر سپاہی بازاروں میں آتشک کی مریض فاحشہ عورتوں کے ساتھ خراب ہوتے پھرتے ہیں۔ جس کا نتیجہ حسب رائے کمانڈر انچیف صاحب بہادر بہت خوفناک نکلنے کی امید ہے۔ ہمیں افسوس ہے کہ سرکاری طور پر ہمیں اس بات کی خبر نہیں ملی کہ سال 1894ء میں کتنے گورے سپاہی مرض آتشک میں مبتلا ہوئے۔ گو مخالفان قانون دکھائی نے مہم چترال کی گورہ فوج کی صحت کو دیکھ کر نہایت مسرت ظاہر کی تھی اور کہا تھا کہ مویدان قانون دکھائی کی یہ رائے کہ اس قانون کے منسوخ ہونے سے تمام گورہ سپاہ مرض آتشک وغیرہ میں مبتلا ہو جائے گی، غلط ٹھہرتی ہے مگر یہ واقعہ اس قابل نہیں ہے کہ جس سے تشفی ہو سکے کیونکہ مہم چترال میں چیدہ اور تندرست جوان بھیجے گئے تھے نیز لڑائی اور جنگلی ملک کی وجہ سے وہ کہیں خراب ہو کر بیمار نہیں ہو سکتے تھے۔ اس امر کا دہرانا ضروری نہیں کہ گورے سپاہی چونکہ بالکل کم تعلیم یافتہ اور دیہاتی نوجوان ہیں۔ نیز بوجہ گوشت خور ہونے کے وہ زیادہ گرم مزاج کے ہیں۔ اس لیے ان سے نفسانی خواہش روکے رکھنے کی امید رکھنا محض لاحاصل ہے۔ قانون دکھائی کے جاری ہونے کے دنوں ہر ایک گورہ پلٹن کے لیے کسبی عورتیں ملازم رکھی جاتی تھیں جن کا ہمیشہ ڈاکٹری معائنہ ہوتا رہتا تھا اور تمام گورہ لوگوں کو ان ملازم رنڈیوں کے علاوہ اور جگہ جانے کی بھی شاید ممانعت تھی۔ اس طریق سے ان کی صحت میں کسی قسم کا خلل واقع نہیں ہوتا تھا نیز اس طریق کے بند ہونے کی وجہ سے اور بھی کئی ایسی وارداتیں ہوئی ہیں جن سے اہل ہند کی طرف سے بہت ناراضی پھیلتی جاتی ہے جن میں سے میاں میر کا مقدمہ زنا بالجبر جو گورہ سپاہیوں کی طرف سے ایک بدصورت بڈھی اور اندھی عورت سے کیا گیا تھا، قابل غور ہے۔ ایسا ہی ایک واقعہ مدراس کے صوبہ میں ہوا جہاں ایک ریلوے پھاٹک کے چوکیدار نے ہندوستانی عورتوں کی عفت بچانے میں اپنی جان دے دی تھی۔ اگر چندے گورے سپاہیوں کے لیے انتظام سرکاری طور پر نہ کیا گیا تو علاوہ اس کے کہ تمام فوج بیماری سے ناکارہ ہو جائے ملک میں بڑی بھاری بددلی پھیلنے کا اندیشہ ہے اور یہ دونوں امور قیام سلطنت کے لیے غیر مفید ہیں۔ اس وقت جبکہ قانون دکھائی کو پھر جاری کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ہمیں یہ ظاہر کر دینا بھی نہایت ضروری ہے کہ اگر اب پھر قانون مذکور جاری کیا جاوے تو گورنمنٹ ہند اور خصوصاً کمانڈر انچیف افواج ہند کو یہ بھی ضرور انتظام کرنا چاہیے کہ بجائے ہندوستانی عورتوں کے یورپین عورتیں ملازم رکھی جائیں کیونکہ قانون دکھائی کے متعلق ہندوستانی اور انگریز مخالفین کا سب سے بڑا اعتراض یہی تھا کہ ہندوستان کی غریب عورتوں کو دلالہ عورتوں کے ذریعہ سے اس فحش ملازمت کی ترغیب دی جاتی ہے اور بعض اوقات نہایت کمینہ فریبوں سے اچھے گھروں کی یتیم لڑکیوں کو اس پیشہ کے لیے مجبور کیا جاتا ہے اور یہی وجہ تھی جس سے ہند کے بہت سے باشندگان نے قانون دکھائی کی منسوخی میں معمول سے بڑھ کر انٹرسٹ لیا تھا۔ ورنہ کسی معمولی سمجھ کا آدمی کو بھی ان بدمعاش عورتوں سے ہرگز ہمدردی نہیں ہو سکتی تھی۔ قانون دکھائی کے مکرر اجرا کی کوشش محض اسی غرض سے کی جاتی ہے کہ گورہ سپاہیوں کی خواہش نفسانی کو پورا کرنے کے لیے سرکاری طور پر انتظام کیا جائے ورنہ دیسی لوگوں کی بہتری کلاس میں ذرا بھی خیال نہیں۔ اس لیے اگر مخالفین قانون مذکور کی دلجوئی گورنمنٹ کو منظور ہو تو یہی ایک طریق ہے جس سے بلاقانون مذکور کے جاری کرنے کے مقصد مطلوبہ حاصل ہو سکتا ہے۔ اگر حسب تجویز ہماری کے یورپین سپاہیوں کے لیے یورپین عورتیں بہم پہنچائی جائیں تو ان سے مرض آتشک کا خدشہ نہیں رہ سکتا کیونکہ ایک تو یورپ میں مرض مذکور شاید ہوگا ہی نہیں دوم ان عورتوں کو بروقت بھرتی ہونے کے دایہ ڈاکٹروں کے ذریعہ مثل فوجی سپاہیوں کے ملاحظہ کرایا جائے گا اس سے فریقین کے مرض مذکور سے پاک ہونے کی وجہ سے ڈاکٹری معائنہ کی ہمیشہ کے لیے ضرورت ہی نہ رہے گی۔ اس طرح بغیر قانون دکھائی جاری کرنے کے سپاہیوں کی خواہش نفسانی کے لیے عمدہ طور سے انتظام ہو سکتا ہے۔

اس بات سے تو کوئی انکار ہی نہیں کر سکتا کہ ولایت میں مثل ہندوستان کے فاحشہ عورتیں موجود ہیں۔ اس لیے گورنمنٹ کو اس انتظام میں ذرا بھی وقت نہ ہوگی بلکہ ہمیں یقین ہے کہ یورپ کی مہذب کسبیاں (واہ مرزا قادیانی! کسبیاں اور مہذب!۔مرتب) بہادر سپاہیوں کو خوش رکھنے کے لیے نہایت خوشی سے اپنی خدمات سپرد کر دیں گی رہی یہ بات کہ ان عورتوں کے ہندوستان لانے اور واپس لے جانے میں گورنمنٹ کو رقم کثیر خرچ کرنی پڑے گی۔ اس کا ہندوستان کے باشندوں کو ذرا بھی رنج نہ ہوگا جہاں وہ ملٹری ڈیپارٹمنٹ کے اخراجات کے لیے پہلے سے ہی لاتعداد روپیہ خوشی سے دیتے ہیں اس رقم کے اضافہ سے بھی ہرگز انھیں اختلاف نہ ہوگا بلکہ وہ اس تجویز کو جس سے ہندوستان کی بدبخت عورتوں کی عفت بچ رہے گی اور برٹش گورنمنٹ کے بہادر گورے سپاہی تندرست اور خوش رہ سکیں گے۔ نہایت خوشی سے پسند کریں گے۔

اگر گورنمنٹ ہند کو یہ مطلوب ہے کہ ہندوستان کے نوجوان بھی جن میں دیسی پلٹنوں اور رسالوں کے سپاہی بھی شامل ہیں بازاری عورتوں کے ذریعہ مریض ہونے سے بچ رہیں تو ہم تمام ہندوستان کی فاحشہ عورتوں کے لیے قانون دکھائی کے جاری ہونے کو صدق دل سے پسند کرتے ہیں۔ کسی شریف ہندوستانی کو ان بدکار فاحشہ عورتوں کے ساتھ جو تمام قسم کے لوگوں کے لیے باعث خرابی ہیں۔ ذرا بھی ہمدردی نہیں ہو سکتی۔ ہم قبل ازیں بارہا کہہ چکے ہیں کہ ایسی عورتوں کے لیے جنھوں نے اپنے خاندان کے ناموس کو خیرباد کہہ دی ہے، قانون دکھائی کی آزمائش باعث شرم نہیں ہو سکتی ہے۔ وہ عورتیں جو تھوڑے سے پیسوں میں بھنگی کے ساتھ منہ کالا کرنے کو تیارہیں۔ معزز ڈاکٹر کے معائنہ سے کب شرمسار ہو سکتی ہیں۔ بے شک یہ افسوسناک امر ہے کہ عورتوں کی عفت کا مردوں کے ذریعہ امتحان کرایا جائے مگر کیا ہو سکتا ہے ان بے شرم بدذات عورتوں کے لیے جنھوں نے دنیا کی شرم کو بالائے طاق رکھ دیا ہے حق بات تو یہ ہے کہ قانون دکھائی کی ہندوستان میں سخت ضرورت ہے۔ جب یہ قانون جاری تھا تو ہر ایک بدکار عورت کو خوف ہوتا تھا کہ اگر وہ فحش پیشہ اختیار کرے گی تو اسے قانون دکھائی کی سخت آزمائش بھی برداشت کرنی پڑے گی۔ بہت سی عورتیں اسی خوف کی وجہ سے اپنی زندگی خراب کرنے سے بچ رہتی تھیں۔ اس زمانہ میں جبکہ دکھائی کا طریق بند ہے۔ مرض آتشک کے ادویات کے اشتہارات کثرت سے شائع ہوتے ہیں جو اس امر کا کافی ثبوت ہیں کہ ملک میں مرض آتشک بہت پھیلا ہوا ہے اول تو ہمیں اس خراب فرقہ کے وجود سے ہی سخت اختلاف ہے مگر ایسے زمانہ میں جبکہ اخلاق اور مذہب کی سخت کمزوری ہو رہی ہے، یہ امید کرنا فضول ہے(کیامرزا قادیانی کی ان باتوں کو پڑھنے کے بعدبھی مرزائی اسے مسیح اور مہدی کہنے سے باز نہ آئیں گے؟ مرتب) کہ یہ شیطانی فرقہ نیست و نابود ہو جائے گا۔ اس لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ ان کے لیے کوئی ایسا قانون بنایا جائے جس سے یہ اخلاق اور مذہب کو بگاڑنے کے علاوہ عوام کی صحت کو ہمیشہ کے لیے خراب کرنے کے قابل نہ رہ سکیں اور وہ قانون صرف قانون دکھائی ہی ہے۔ ہم نہایت شکر گزار ہوں گے اگر دوبارہ ہند میں قانون دکھائی جاری کیا جائے گا مگر یہ شرط ضرور ساتھ ہے کہ گورہ لوگوں کے لیے یورپین رنڈیاں بہم پہنچائی جائیں۔ یقین ہے کہ گورنمنٹ ہند اور معزز ہمعصران اس معاملہ پر ضرور توجہ اور غور فرمائیں گے۔” 32

قارئین کرام !کیا یہ کسی مصلح ،کسی مہدی یا مسیح مو عود کے الفاظ لگتے ہیں ؟ یہ تو کسی شریف انسان کی بھی تحر یر نہیں لگتی ۔مرزا قادیانی کی اس عبارت کو پڑھ کر اس بات کا اندازہ بخوبی ہو سکتا ہے کہ مرزا قا دیانی کس قماش کا آدمی تھا ۔ قادیانیوں کو شرم نہیں آتی کہ ایسی گندی سوچ کے مالک انسان کو نعوذباﷲ پیغمبر کہہ رہے ہیں ۔

مگر ساتھ ساتھ یہ بات ہم مسلمانوں کے منہ پرطمانچہ بھی ہے ۔ ہم مسلمان ا پنی توہین پر سخت غصہ میں آجاتے ہیں ،ہماری اوقات کیا ہے ، ہمارا یہ چھ فٹ کا وجود حیثیت ہی کیا رکھتا ہے ۔ دنیا کی عظیم ترین ہستیاں جنھیں اﷲ رب العزت نے ا پنے پیغمبر کے طور پر مبعوث فرمایا اصل عزت تو ان کی ہے، اصل مقام تو ان کا ہے اور امام الانبیاء میرے اور آپ کے آقا علیہ الصلوة والتسلیما ت کی شان سب سے اعلیٰ ہے ۔ اگر کوئی عزت ہمیں حاصل ہو تو سب ان کی جوتیوں کی خاک کی عزت کے برابر بھی نہیں ۔ مگر قادیانیوں کا بے شرم اور بے حیاء ٹولہ مرزا قادیانی جیسے گندہ ذہن آدمی کو کن مقدس ہستیوں میں شامل کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ کیا یہ ان انبیاء کی توہین نہیں ۔ مسلمانو اگر کسی نبی نے آنا ہوتا تو پھر ہم غافل پڑے رہتے کوئی بات نہ تھی مگر آقاعلیہ الصلوة والتسلیمات کی آمد کے بعد اب کوئی نبی نہیں ۔اب اس امت کی ذمہ داری ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی عزت و ناموس کی حفاظت کریں ۔

ایسے گستاخ ٹولے کے بارے میں شریعت کا جو حکم ہے حکومت وقت پر لازم ہے کہ اس پر عمل درآمد کروائے ۔ جب تک حکومت ایسا نہیں کرتی عام عوام پر فرض ہے کہ مرزائیوں کا مکمل بائیکاٹ کریں ۔ ان کے ساتھ کسی بھی قسم کا تعلق رکھنا ناجائز اور حرام ہے ۔


  • 1 مرزا بشیر احمد، سیرت المہدی، 2: 55
  • 2 ملفوظات، 2: 376، مورخہ 30 اکتوبر 1901ء، بیان مرزا غلام احمد قادیانی، مندرجہ اخبار ’’الحکم‘‘ قادیان، 5: 40
  • 3 مرزا بشیر احمد، سیرۃ المہدی، 3: 304
  • 4 مرزا بشیراحمد قادیانی، سیرۃ المہدی، 1: 13، روایت نمبر: 19
  • 5 مرزا بشیر احمد قادیانی، سیرۃ المہدی، 1: 51، روایت نمبر: 81
  • 6 مرزا بشیر احمد قادیانی، سیرۃ المہدی، 1: 22، روایت نمبر: 36
  • 7 مرزاغلام احمد قادیانی، تذکرۃ الشہادتین: 23۔ 24، مندرجہ روحانی خزائن، 20: 46
  • 8 ڈاکٹر بشارت احمد، مجدد اعظم، حصہ دوئم رضی اللہ عنہ 8/1207، بار اول ازجون 1900 تا وفات (سوانح عمری مرزا قادیانی) ذی قعد ھ 1359ھ دسمبر 1940ء
  • 9 برہان الدین نفیس، شرح اسباب و علامات
  • 10 قانون شیخ الرئیس حکیم بو علی سینا، فن اول از کتاب ثالث بحوالہ پروفیسر محمد الیاس برنی، قادیانی مذہب کا علمی محاسبہ: 143، 144
  • 11 ڈاکٹر غلام جیلانی، مخزن حکمت، 2: 69، طبع نہم، 1368ء
  • 12 محمد رفیق حجازی، کنز العلاج: 139، طبع چہارم، 1959ء
  • 13 حکیم ڈاکٹر غلام جیلانی، مخزن حکمت، طبع دوم
  • 14 ڈاکٹر فضل کریمِ، کتاب تشخیص امراض مکمل، 2: 21
  • 15 حکیم محمد اعظم خان، اکسیر اعظم: 190، مطبع لکھنو، طبع چہارم
  • 16 حکیم نفیس بن عوض، شرح الاسباب والعلامات، 1: 70، باب امراض الرأس، مطبع منشی نو لکشور لکھنو ربیع الثانی 1345ھ اکتوبر 1926ء
  • 17 برھان الدین نفیس، شرح الاسباب و العلامات، 1: 69، مطبع لکھنو
  • 18 محمد رفیق حجازی، کنز العلاج: 134، طبع چہارم، 1959ء
  • 19 ڈاکٹر غلام جیلانی، مخزنِ حکمت، 2: 1364، طبع نہم
  • 20 حکیم حاجی مرزا محمد نذیر عرشی، کلید مطب: 139
  • 21 ڈاکٹر فضل کریم، کتاب تشخیص امراض مکمل، 2: 21
  • 22 مضمون ڈاکٹر شاہ نواز قادیانی، مندرجہ رسالہ ’’ریویو آف ریلیجز‘‘ قادیان: 6، 7، بابت ماہ اگست 1926ء
  • 23 یعقوب علی صاحب قادیانی، حیات احمد، 2: 79
  • 24 مرزا بشیر احمد قادیانی، سیرۃ المہدی، 1: 42، روایت: 66
  • 25 مکتوبات أحمدیہ، جلد پنجم نمبر 2: 90
  • 26 رسالہ، ’’ریویو‘‘ قادیان، بابت مئی 1937ء
  • 27 نسیمِ دعوت: 68، مندرجہ روحانی خزائن، 19: 435
  • 28 ضمیمہ أربعین نمبر 3۔ 4 ص: 4، مندرجہ روحانی خزائن، 17: 470۔ 471
  • 29 مکتوبات احمدیہ، 5: 21، نمبر: 3
  • 30 ملفوظات، 2 :377، 376 ،یان مرزا غلام احمد قادیانی، مندرجہ اخبار ’’الحکم‘‘ قادیان جلد 5 نمبر 40، منقول از کتاب منظور الٰہی:349
  • 31 چشمہ معرفت صفحہ 1 مندرجہ روحانی خزائن جلد 23 صفحہ9 از مرزا قادیانی
  • 32 آریہ دھرم صفحہ 72 تا 75 مندرجہ روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 72 تا 75 از مرزا قادیانی

Netsol OnlinePowered by