ہر طالب علم کا فرض ہے کہ وہ اپنے استاد کا ادب و احترام کرے۔ جس طرح مریض طبیب کے سامنے سر تسلیم خم کردیتا ہے، اس طرح ہر طالب علم استاد کے سامنے تواضع کا مظاہرہ کرے۔ اگر کسی شاگرد کے دل میں اپنے استاد کے خلاف نفرت و بغض ہوگا تو وہ علم تو درکناراُلٹا جہالت کا نشان بن جا تا ہے۔ مشہور کہاوت ہے: با ادب، با نصیب، بے ادب بے نصیب! آنجہانی مرزا قادیانی ہمیشہ بے ادب اور بے نصیب رہا۔ وہ علم کے میدان میں ”تیس مار خاں” تھا۔ ڈینگیں مارنا، بے پرکیاں اڑانا، شیخیاں بگھارنا، لاف زنی کرنا اس کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ اس کے کئی اساتذہ تھے اور اپنی کتابوں میں ان کا تذکرہ بھی بڑی حقارت سے کرتا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں اپنے اساتذہ کے بارے مرزا قادیانی کے طرز عمل کے چند نمونے !
جب میں چھ سات سال کا تھا تو ایک فارسی خواں معلم میرے لیے نوکر رکھا گیا، جنھوں نے قرآن شریف اور چند فارسی کتابیں مجھے پڑھائیں اور اس بزرگ کا نام فضل الٰہی تھا اور جب میری عمر تقریباً دس برس کے ہوئی تو ایک عربی خواں مولوی صاحب میری تربیت کے لیے مقرر کیے گئے جن کا نام فضل احمد تھا۔ میں خیال کرتا ہوں کہ چونکہ میری تعلیم خدا تعالیٰ کے فضل کی ایک ابتدائی تخم ریزی تھی، اس لیے ان استادوں کے نام کا پہلا لفظ بھی فضل ہی تھا۔ مولوی صاحب موصوف جو ایک دیندار اور بزرگوار آدمی تھے، وہ بہت توجہ اور محنت سے پڑھاتے رہے اور میں نے صرف کی بعض کتابیں اور کچھ قواعد نحو ان سے پڑھے اور بعد اس کے جب میں سترہ یا اٹھارہ سال کا ہوا تو ایک اور مولوی صاحب سے چند سال پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ ان کا نام گل علی شاہ تھا۔ ان کو بھی میرے والد صاحب نے نوکر رکھ کر قادیان میں پڑھانے کے لیے مقرر کیا تھا۔ اور ان آخرالذکر مولوی صاحب سے میں نے نحو اور منطق اور حکمت وغیرہ علوم مروجہ کو جہاں تک خدا تعالیٰ نے چاہا حاصل کیا اور بعض طبابت کی کتابیں میں نے اپنے والد صاحب سے پڑھیں اور وہ فن طبابت میں بڑے حاذق طبیب تھے اور ان دنوں میں مجھے کتابوں کے دیکھنے کی طرف اس قدر توجہ تھی کہ گویا میں دنیا میں نہ تھا۔1
ہمارے استاد ایک شیعہ تھے۔ گل علی شاہ ان کا نام تھا۔ کبھی نماز نہ پڑھا کرتے تھے۔ منہ تک نہ دھوتے تھے۔2
آج سے تیس سال قبل بہت سے لوگ ایسے تھے جو حضرت مسیحِ موعود (مرزا قادیانی) کے متعلق کہتے تھے انھیں اردو بھی نہیں آتی اور عربی دوسروں سے لکھا کر اپنے نام سے شائع کرتے ہیں۔ بعض لوگ کہتے مولوی نور الدین آپ کو کتابیں لکھ کر دیتے ہیں۔ خود حضرت مسیحِ موعود کو بھی یہ دعویٰ نہ تھا کہ آپ نے ظاہری علوم کہیں پڑھے۔ آپ فرمایا کرتے میرا ایک استاد تھا جو افیم کھایا کرتا تھا اور حقہ لے کر بیٹھ رہتا تھا۔ کئی دفعہ پینک میں اس سے اس کے حقہ کی چلم ٹوٹ جاتی۔ ایسے استاد نے پڑھانا کیا تھا۔ غرض آپ کو لوگ جاہل اور بے علم سمجھتے تھے۔ 3
یہ ہے مرزا قادیانی کا ادب اپنے استادوں کے بارے میں۔اگر آپ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے کسی صاحب علم سے مدد طلب کریں اور وہ اس فریضہ کو انجام دینے کے لیے تیار ہو تو کیا وہ آپ کے بچوں کا نوکر بن جائے گا ؟ اور پھر اپنانالائق پن چھپانے کے لئے استاد کو افیمی وغیرہ کہہ دینا ۔ یقینا ایسی سوچ کا مالک گورداس پور کے پسماندہ گائوں کا رہنے والا مرزا قادیانی ہی ہو سکتا ہے۔
مرزا قادیانی کا یہ کہنا کہ میرا کوئی استاد نہیں، ایسا جھوٹ ہے جو تاویلات کے ہزار پردوں میں بھی چھپائے نہیں چھپتا۔ اب جھوٹے کے ساتھ کیا سلوک ہونا چاہئے یہ بھی مرزا صاحب خود ہی بتائیں گے۔
جھوٹے کے بارے میں مرزا صاحب کے چنداپنے اقوال درج ذیل ہیں:
1۔ ’’ظاہر ہے جب ایک بات میں کوئی جھوٹا ثابت ہو جائے تو پھر دوسری باتوں میں بھی اس پر اعتبار نہیں رہتا۔‘‘ 4
2۔ ’’اور محض ہنسی کے طور پر یا لوگوں کو اپنا رسوخ جتانے کے لیے دعویٰ کرتا ہے کہ مجھے یہ خواب آئی اور یا الہام ہوا اورجھوٹ بولتا ہے یا اس میں جھوٹ ملاتا ہے وہ اس نجاست کے کیڑے کی طرح ہے جو نجاست میں ہی پیدا ہوتا ہے اور نجاست میں ہی مر جاتا ہے۔‘‘5
3۔ ’’جھوٹ بولنا مرتد ہونے سے کم نہیں۔‘‘6