logoختم نبوت

مرزا غلام احمد قادیانی کی ابتدائی تعلیم

یہ ایک مسلمہ حقیقت اور طے شدہ امر ہے کہ نبی کا اس دنیا میں کوئی استاد نہیں ہوتا، بلکہ وہ براہ راست اللہ رب العزت سے فیض حاصل کرتا ہے۔ نبی کی تعلیم و تربیت کا انتظام و انصرام اللہ پاک خود فرماتا ہے، انبیاء کی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ کسی نبی نے دنیوی مکتب میں استاد کے آگے زانوئے تلمذ طے نہیں کئے، نبوت کی یہ ایک ایسی تسلیم شدہ علامت ہے کہ مرزا قادیانی کو بھی یہ ڈھونگ رچانے کے لیے کہ اس کا کوئی استاد نہیں یہ مضحکہ خیز اعلان کرنا پڑا۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ اسے ثابت نہیں کر سکا بلکہ اس بات میں اپنے جھوٹے ہونے کی ایک اور شہادت رقم کر گیا۔

مرزا صاحب اپنے بارے میں رقمطراز ہیں:

’’سو آنے والے کا نام جو مہدی رکھا گیا، سو اس میں یہ اشارہ ہے کہ وہ آنے والا علم دین خدا سے ہی حاصل کرے گا اور قرآن و حدیث میں کسی استاد کا شاگرد نہیں ہو گا۔ سو میں حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ میرا حال یہی ہے۔ کوئی ثابت نہیں کر سکتا کہ میں نے کسی انسان سے قرآن یا حدیث یا تفسیر کا ایک سبق بھی پڑھا ہے یا کسی مفسر یا محدث کی شاگردی اختیار کی ہے پس یہی مہدویت ہے جو نبوت محمدیہ کے منہاج پر مجھے حاصل ہوئی ہے اور اسرار دین بلاواسطہ میرے پر کھولے گئے۔‘‘1

اس دعویٰ کی تکذیب مرزا صاحب کی اپنی خود نوشت سے ہوتی ہے جو درج ذیل ہے:

’’بچپن کے زمانہ میں میری تعلیم اس طرح پر ہوئی کہ جب میں چھ سات سال کا تھا تو ایک فارسی خواں معلم میرے لیے نوکر رکھا گیا، جنہوں نے قرآن شریف اور چند فارسی کتابیں مجھے پڑھائیں اور اس بزرگ کانام فضل الٰہی تھا اورجب میری عمر تقریباً دس برس کے ہوئی تو ایک عربی خواں مولوی صاحب میری تربیت کے لیے مقرر کیے گئے جن کا نام فضل احمد تھا۔ میں خیال کرتا ہوں کہ چونکہ میری تعلیم خدا تعالیٰ کے فضل کی ایک ابتدائی تخم ریزی تھی اس لیے ان استادوں کے نام کا پہلا لفظ بھی فضل ہی تھا۔ مولوی صاحب موصوف جو ایک دیندار ااور بزرگ وار آدمی تھے۔ وہ بہت توجہ اور محنت سے پڑھاتے رہے اور میں نے صرف کی بعض کتابیں پڑھیںاور کچھ قواعدِنحو ان سے پڑھے اور بعد اس کے جب میں سترہ یااٹھارہ سال کا ہوا تو ایک مولوی صاحب سے چند سال پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ ان کا نام گل علی شاہ تھا۔ ان کو بھی میرے والدصاحب نے نوکررکھ کر قادیان میں پڑھانے کے لیے مقررکیا تھا اور ان آخر الذکر مولوی صاحب سے میں نے نحو اور منطق اور حکمت وٖغیرہ کے علومِ مروجہ کو جہاں تک خدا تعالیٰ نے چاہا حاصل کیا۔‘‘2

طب کا علم انہوں نے اپنے والد صاحب سے پڑھا جو ایک مجرب و حاذق طبیب تھے۔

’’اور بعض طبابت کی کتابیں میں نے اپنے والد صاحب سے پڑھیں اور وہ فن طبابت میں بڑے حاذق طبیب تھے۔‘‘3

انہیں اپنے زمانہ طالب علمی میں کتابوں سے گہرا شغف تھا وہ ایک جگہ لکھتے ہیں:

’’اور ان دنوں مجھے کتابوں کے دیکھنے کی طرف اس قدر توجہ تھی کہ گویا میں دنیا میںنہ تھا۔ میرے والد صاحب مجھے بار بار یہی ہدایت کرتے تھے کہ کتابوں کا مطالعہ کم کرنا چاہیے کیونکہ وہ نہایت ہمدردی سے ڈرتے تھے کہ صحت میں فرق نہ آوے۔‘‘ 4

لیکن ان کو اپنے والد کے اصرار پر تعلیمی سلسلہ منقطع کرکے اپنی آبائی زمینوں کے حصول کے لیے تگ و دو اور عدالتی کارروائیوں میں مصروف ہونا پڑا جیسا کہ وہ لکھتے ہیں:

’’میرے والد صاحب اپنے بعض آباؤ و اجداد کے دیہات کو دوبارہ لینے کے لیے انگریزی عدالتوں میں مقدمات کر رہے تھے۔ انہوں نے انہی مقدمات میں مجھے بھی لگایا اور ایک زمانہ دراز تک میں ان کاموں میں مشغول رہا۔ مجھے افسوس ہے کہ بہت سا وقت عزیز میرا ان بیہودہ جھگڑوں میں ضائع گیا اوراس کے ساتھ ہی والد صاحب موصوف نے زمینداری امور کی نگرانی میں مجھے لگا دیا۔ میں اس طبیعت اور فطرت کا آدمی نہیں تھا اس لیے اکثر والد صاحب کی ناراضگی کا نشانہ رہتا تھا۔‘‘5


  • 1 غلام احمد قادیانی، ایام الصلح: 147؛ مندرجہ روحانی خزائن، 14: 394
  • 2 غلام احمد قادیانی، کتاب البریہ، حاشیہ: 161؛ مندرجہ روحانی خزائن، 13: 179-181
  • 3 غلام احمد قادیانی، کتاب البریہ، حاشیہ: 163؛ روحانی خزائن، 13: 181
  • 4 غلام احمد قادیانی، کتاب البریہ، حاشیہ: 163؛ روحانی خزائن، 13: 181
  • 5 غلام احمد قادیانی، کتاب البریہ، حاشیہ: 164؛ مندرجہ روحانی خزائن، 13: 182

Netsol OnlinePowered by