انبیاء کرام علیھم السلام کی جیسے جوانی پاک وصاف اور قابل اتباع ہوتی ہے ایسے ہی بچپن بھی عام بچوں سے جدا نہایت پر وقار اور ہر قسم کے لہو و لعب سے پاک ہوتا ہے لیکن قادیان کے اس بناوٹی نبی کے بچپن کے حالات گلی محلے کے عام آوارہ بچوں سے بھی گئے گزرے ہیں ۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اللہ الوں کا بچپن ان کی آئندہ زندگی کاایک خوبصورت دیباچہ ہوتا ہے۔ لوگ ان کے بچپن سے ان کے سیرت و کردار کی ندرت اور عظمت کا اندازہ لگا لیتے ہیں، جبکہ اس کے برعکس مرزائے قادیان کا بچپن’’ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات‘‘ کے مصداق ان کی آئندہ زندگی کا آئینہ دار اپنی نوعیت کا عجیب بچپن تھا۔ مرزا کی اوائل عمری کی ناقابل رشک سیرت کے چند گوشے قارئین کی نذر کیے جاتے ہیں۔
مرزا قادیانی کا لڑکا بشیر احمد ایم اے مرزا قادیانی کے بچپن کا نام ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ:
مرزا قادیانی کا ابتدائی نام دسوندی تھا لیکن سندھی کے نام سے بھی پکارا جاتا تھا۔ 1
مرزا صاحب بچپن میں چڑیاں شکار کرنے کے شوقین تھے۔ ان کا بیٹا مرزا بشیر احمد اپنی والدہ کے حوالے سے لکھتا ہے:
’’والدہ صاحبہ نے فرمایاایک دفعہ چند بوڑھی عورتیں وہاں سے آئیں تو انہوں نے باتوں باتوں میں کہا کہ سندھی ہمارے گاؤں میں چڑیاں پکڑا کرتا تھا، والدہ صاحبہ فرماتی ہیں کہ میں سندھی کا مفہوم نہ سمجھ سکی آخر معلوم ہوا کہ سندھی سے مراد حضرت صاحب ہیں۔‘‘2
مرزا بشیر احمد آگے لکھتا ہے:
’’بیان کیا مجھ سے والدہ صاحبہ نے کہ ہماری دادی ایم ضلع ہوشیاپور کی رہنے والی تھیں۔ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ ہم اپنی والدہ کے ساتھ بچپن میں کئی دفعہ ایم گئے ہیں۔ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ وہاںحضرت بچپن میں چڑیاں پکڑا کرتے تھے اور چاقو نہیں ملتا تھا تو سرکنڈے سے ذبح کر لیتے تھے۔‘‘3
مرزا صاحب بچپن میں روٹی پر راکھ بطور سالن رکھ کر کھا گئے۔ مرزا بشیر احمد لکھتا ہے:
’’بیان کیا مجھ سے والدہ صاحبہ نے کہ بعض بوڑھی عورتوں نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ بچپن میں حضرت صاحب نے اپنی والدہ سے روٹی کے ساتھ کچھ کھانے کو مانگا، انہوں نے کوئی چیز شاید گڑ دیا کہ یہ لے لو۔ حضرت نے کہا یہ میں نہیں لیتا۔ انہوں نے کوئی اور چیز بتائی، حضرت صاحب نے اس پربھی وہی جواب دیا وہ اس وقت کسی بات پر چڑی ہوئی بیٹھی تھیں سختی سے کہنے لگیں کہ جاؤ پھر راکھ سے کھا لو، حضرت صاحب روٹی پر راکھ ڈال کر بیٹھ گئے اور گھر میں لطیفہ ہو گیا۔‘‘4
مرزا بشیر احمد اپنے والد مرزا غلام احمد قادیانی کے دماغی خلل کا ایک اور واقعہ بیان کرتاہے جو کسی لطیفے سے کم نہیں:
’’بیان کیا مجھ سے والدہ صاحبہ نے کہ ایک دفعہ حضرت صاحب سناتے کہ جب میں بچہ ہوتا تھا تو ایک دفعہ بعض بچوں نے مجھے کہا کہ جاؤ گھر سے میٹھا لاؤ۔ میں گھر آیا اور بغیر کسی سے پوچھنے کے ایک برتن میں سے سفید بورا اپنی جیبوں میں بھر کر باہر لے گیا اور راستہ میں ایک مٹھی بھر کرمنہ میں ڈال لی۔ بس پھر کیا تھا؟ میرا دم رک گیا اور بڑی تکلیف ہوئی کیونکہ معلوم ہوا کہ جسے میں نے سفید بورا سمجھ کر جیبوں میں بھرا تھا وہ بورا نہ تھا بلکہ پسا ہوا نمک تھا۔‘‘ 5
مرزا قادیانی بچپن میں تیرنے کا بھی دلدادہ تھا برسات میں جب قادیان کی ساری غلاظت بارشوں میں بہہ کر قادیان کے اردگرد جمع ہوجاتی تو مرزا قادیانی اس گندے پانی میں دیر تک تیرتا رہتا چنانچہ مرزا قادیانی کا لڑکا لکھتا ہے :
حضرت صاحب (مرزا قادیانی ) نے فرمایا کہ میں بچپن میں اتنا تیرتا تھا کہ ایک وقت میں ساری قادیان کے اردگرد تیر جاتا تھا۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ برسات کے موسم میں قادیان کے اردگرد اتنا پانی جمع ہوتا ہے کہ قادیان ایک جزیرہ بن جاتا ہے۔ 6
اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ مرزا صاحب کو چوری کی عادت بچپن سے ہی تھی جو بڑھتے بڑھتے ختمِ نبوت کی عمارت میں نقب زنی پرمنتج ہوئی۔
’’لالہ بھین سین وکیل سیالکوٹ کا بیان ہے کہ جب میں اور مرزا غلام احمد بٹالہ میں پڑھا کرتے تھے تو ان کی عادت تھی کہ مٹی کا ایک لوٹا (سبلوچہ گلی) پانی سے بھرواتے اور دو لڑکوں سے کہتے کہ اسے ہاتھ میں ایک ایک انگلی سے اٹھائے رہو۔ لڑکے انگلیوں کے سہارے لوٹے کو تھام لیتے اس کے بعد مرزا صاحب کیمیا کے نسخوں کی دوائیں جدا کاغذ کے پرزوں پر لکھ کر گولیاں بناتے اور ایک ایک گولی اس لوٹے میں ڈالتے جاتے اور ساتھ ہی کوئی اسم پڑھتے جاتے تھے، جس گولی کی نوبت پر لوٹا گھوم جاتا تھا، اس گولی کا نسخہ پڑھ کر علیحدہ رکھ لیتے تھے اور پھر اس نسخہ کا تجربہ کرتے تھے لیکن کیمیا گری میں کامیابی کا منہ دیکھنا نصیب نہ ہوا۔‘‘7
مرزا صاحب کی جوانی کا اوائل دور بھی کسی عام نوجوان سے کم نہیں۔ موصوف نے عمر کے اس سنہری دور میں خوب مزے کیے۔ درج ذیل واقعہ جس کی راویہ مرزا صاحب کی اپنی اہلیہ اور ناقل صاحبزادے ہیں اس بات کا واضح ثبوت ہے:
’’بیان کیا مجھ سے والدہ صاحبہ نے کہ ایک دفعہ اپنی جوانی کے زمانے میں حضرت مسیح موعود تمہارے دادا کی پنشن مبلغ 700 روپے وصول کرنے گئے تو پیچھے پیچھے مرزا امام الدین چلاگیا۔ جب آپ نے پنشن وصول کر لی تو آپ کو بھلا پھسلا کر اور دھوکا دے کر بجائے قادیان لانے کے باہر لے گیا اور ادھر ادھر پھراتا رہا۔ پھر جب اس نے سارا روپیہ اڑا کر ختم کر دیا تو آپ کو چھوڑ کر کہیں اور جگہ چلا گیا۔ حضرت مسیح موعود اس شرم سے گھر واپس نہیں آئے۔‘‘8
آج سے قریبا سوا سو سال قبل 700 روپیہ ایک خطیر رقم تھی۔ اتنی رقم کو کہاں اڑا کر ختم کر دیا؟ اس کا جواب سوائے ’’آوارگی‘‘ کے اور کیا ہو سکتا ہے؟
مرزا قادیانی کے بچپن کے چند گوشے آپ کے سامنے رکھے ہیں اس کے برعکس اولیاء اﷲ کے بچپن کو دیکھ لیں ان کا بچپن بھی علم و حکمت، تقویٰ و طہارت اور خدا خوفی سے بھرا ہوتا ہے اور ان کا بچپن ان کے روشن پاکیزہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے لیکن یہاں معاملہ برعکس ہے۔