مرزا صاحب کے بقول ان کے ساتھ پیدا ہونے والی لڑکی کی موت کے ساتھ ہی ان سے انثیت کا مادہ کلیتاً الگ کر دیا گیا تھا۔ اس کے بعد مرزا صاحب کو اپنی مردانگی کا یقین ہو جانا چاہیے تھا مگرایسا نہیں ہوا، وہ بعد میںجنس مخالف ہونے کا دعویٰ کرتے رہے۔ اس کا سبب مرزا صاحب ہی جانتے ہوں گے ہم تو یہ کہہ سکتے ہیں کہ مرزا صاحب ایک عجیب و غریب شخص تھے۔ بھول بھلیوں اور پہیلیوں کے شوقین حضرات کے لیے وہ گویا ایک پہیلی تھے وہ مرد تھے یا عورت؟ آپ بھی عقل آزمائیں۔ ان کی کہانی ان کی زبانی ملاحظہ کریں:
1۔ ’’الہام ہوا کہ تو فارسی جوان ہے۔‘‘ 1
2۔ ’’الہام ہواسلامت بر تو اے مرد سلامت۔‘‘2
3۔ لیکن اس کے بعد دعویٰ مردانگی سے منحرف ہو کر دعویٰ نسوانیت کرنے لگتے ہیں:
مرزا صاحب کا ایک مرید قاضی یار محمد اپنے ٹریکٹ نمبر 34 موسومہ ’’اسلامی قربانی‘‘ میں لکھتا ہے:
’’حضرت مسیح موعود (مرزا) نے ایک موقع پر اپنی حالت یہ ظاہر فرمائی کہ کشف کی حالت آپ پر اس طرح طاری ہوئی گویا کہ آپ عورت ہیں اور اللہ تعالیٰ نے رجولیت کی طاقت کا اظہار فرمایا تھا۔‘‘3
4۔ ’’خدا نے مجھے الہام کیا کہ تیرے گھر میں لڑکا پیدا ہو گا۔‘‘ 4
5۔ ’’بابو الٰہی بخش چاہتا ہے کہ تیرا حیض دیکھے۔‘‘ 5
مرزا کے ان الہامات سے کوئی بھی ذی شعور انسان سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ ان کی جنس کیا تھی؟آیا وہ مرد تھے یا عورت یا پھر کچھ اور!