مرزا غلام احمد قادیانی کے نام و نسب اور خاندان کے بارے میں جاننا اس لیے ضروری ہے کہ کسی تنظیم اور تحریک کے بانی کے عزائم و مقاصد اورنظریات و خیالات اس کی شخصیت کے گرد گھومتے ہیں اور انہیں اس کی ذات سے الگ کرکے دیکھنا اور پرکھنا ممکن نہیں۔
مرزا صاحب کا نام غلام احمد، ماں کا نام چراغ بی بی، باپ کا نام غلام مرتضیٰ، دادا کا نام عطا محمد اور پردادا کا نام گل محمد تھا۔ مرزا کے اس شجرۂ نسب سے اس کی اور اس کے آباء و اجداد کی نسل متعین کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن نظر آتا ہے کیونکہ مرزائے قادیان کو خود معلوم نہیں کہ ان کی نسل اور خاندان کیا ہے؟ وہ اس حوالے سے تشکیک و ابہام کا شکار نظر آتے ہیں۔ اس کا ثبوت خود ان کی تحریریں ہیں۔ وہ اپنی اصل ونسل کے بارے میںمتضاد بیانات دیتے ہیں اور کسی ایک نسل یا خاندان پر اکتفا نہیں کرتے۔ یہ بات عام قاری کے لیے حیرانی کا باعث ہے۔ ہم ذیل میں مرزا کی تحریروں کی روشنی میںان کی نسل وخاندان معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
مرزا صاحب کی ایک تحریر کے مطابق ان کا تعلق مغل قوم اور اس کی شاخ برلاس سے تھا۔ وہ اپنی تصنیف ’’کتاب البریہ‘‘ کے حاشیہ میں لکھتے ہیں:
’’اب میرے سوانح اس طرح پر ہیں کہ میرا نام غلام احمد میرے والدصاحب کا نام غلام مرتضیٰ اور دادا صاحب کا نام عطا محمداور پڑدادا صاحب کا نام گُل محمد تھا اور جیسا کہ بیان کیا گیا ہے ہماری قوم برلاس ہے اور میرے بزرگو علیہ السلام کے پرانے کاغذات سے جو اب تک محفوظ ہیںمعلوم ہوتا ہے کہ وہ اس ملک میں ثمرقند سے آئے تھے۔‘‘1
لیکن پھر انہیں جانے کیا سوجھی کہ قرآنی آیات اور احادیثِ نبوی ﷺ کی کچھ نصوص کو پڑھتے ہی انہوں نے خود کو ان کا مصداق سمجھنا شروع کر دیا اور کچھ عبارتیں اپنے پاس سے گھڑ کر انہیں الہام قرار دے دیا۔ بعض احادیثِ مبارکہ میں حضور ﷺ نے فارس کا تذکرہ فرمایا اور محدثین کی اکثریت نے اس سے مراد امام اعظم ابو حنیفہؒ لیے ہیں کیونکہ وہ فارسی النسل تھے اور ان کی علمی خدمات کا ایک جہان معترف ہے اور یہ اعتراف صدیوں پر پھیلا ہوا ہے۔ لیکن مرزا صاحب نے خود ہی اسے اپنے بارے میں الہام بنا کر اپنے آباء و اجداد کو فارسی الاصل قرار دینے کی کوشش کی۔
چنانچہ مذکورہ کتاب کے حاشیے میں لکھتے ہیں:
’’دوسرا الہام میری نسبت یہ ہے:
لَوْ كانَ الايْمَانُ مُعَلَّقًا بِالثُّرَيَّا لَیَنَالُهُ رَجُلٌ مِنْ فَارَس
یعنی اگر ایمان ثریا سے معلّق ہوتا تو یہ مرد جو فارسی الاصل ہے وہیں جاکر اس کو لے لیتا۔
اور پھر تیسرا الہام میری نسبت یہ ہے:
إن الذین كفروا رد علیھم رجل من فارس شكر الله سعیه
یعنی جو لوگ کافر ہوئے اس مرد نے جو فارسی الاصل ہے ان کے مذاہب کو رد کر دیا۔ خدا اس کی کوشش کا شکر گزار ہے۔
یہ تمام الہامات ظاہر کرتے ہیں کہ ہمارے آباء اوّلین فارسی تھے۔‘‘ 2
اپنے خاندان کے حوالے سے اپنے اس خلافِ حقیقت بیان کی وہ خود ہی ایک جگہ نفی کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’یاد رہے کہ اس خاکسار کا خاندان بظاہر مغلیہ خاندان ہے کوئی تذکرہ ہمارے خاندان کی تاریخ میں یہ نہیںدیکھا گیا کہ وہ بنی فارس کا خاندان تھا، ہاں بعض کاغذات میں یہ دیکھا گیا کہ ہماری بعض دادیاں شریف اور مشہور سادات میں سے تھیں، اب خدا کے کلام سے معلوم ہوا کہ در اصل ہمارا خاندان فارسی خاندان ہے، سو اس پر ہم پورے یقین سے ایمان لاتے ہیںکیونکہ خاندانوں کی حقیقت جیسا کہ اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کسی دوسرے کو ہر گز معلوم نہیں، اسی کا علم صحیح اور یقینی اور دوسرے کا شکی اور ظنی۔‘‘3
مرزا قادیانی اس حد تک تضاد بیانی کا شکار ہیں کہ کبھی وہ مغلوں کی شاخ برلاس کہتے ہیں، پھر فارسی الأصل ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور جب طبیعت اس پر بھی اکتفا نہیں کرتی تو بیک جنبشِ قلم خود کو اسرائیلی اور فاطمی بھی قرار دینے لگتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
’’خدا نے مجھے یہ شرف بخشا ہے کہ میں اسرائیلی بھی ہوں اور فاطمی بھی۔‘‘ 4
اپنی نسل اور اصل کے بارے میں مرزا صاحب نے ایک اور پینترا بدلا اور خود کو چینی النسل ثابت کرنے لگے۔ اپنی کتاب’’ تحفہ گولڑویہ‘‘ میں لکھا:
’’میرے بزرگ چینی حدود سے پنجاب میں پہنچے ہیں۔‘‘5
مرزائے قادیان نے مہدی بننے کے چکر میں بھی اپنی نسل بدلنے کی تحریری کاوشیں کیں۔ بعض احادیث میں چونکہ امام مہدی کے خاندانی نسب کی نشاندہی بھی موجود ہے اس لیے مرزا صاحب نے بڑے ہی تکلف کے ساتھ بنی فاطمہ سے ہونے کا دعویٰ کیا:
’’میں اگر چہ علوی تو نہیں ہوں مگر بنی فاطمہ میں سے ہوں۔ میری بعض دادیاں مشہور اور صحیح النسب سادات میں سے تھیں۔‘‘6
مرزا صاحب اپنی خاندانی اصل کے بارے میں درجہ بالا متضاد معلومات بہم پہنچانے کے بعد خود ہی لکھتے ہیں:
’’اورمیں اپنے خاندان کی نسبت کئی دفعہ لکھ چکا ہوںکہ وہ ایک شاہی خاندان ہے اور بنی فارس اور بنی فاطمہ کے خون سے ایک معجون مرکب ہے۔‘‘ 7
ہندوستان میں اپنے اردگرد پھیلے ہوئے ہندو ؤں کو خوش کرنے کے لیے مرزا صاحب اپنا ناتہ ان سے بھی جوڑنے سے نہیں چونکتے بلکہ نت نئے دعوؤں کا ریکارڈ بناتے ہوئے اعلان کرتے ہیں:
}’’پس جیسا کہ آریہ قوم کے لوگ کرشن کے ظہور کا ان دنوں میں انتظار کرتے ہیں وہ کرشن میں ہی ہوں۔‘‘8
مرزا صاحب نے سکھوں کے ساتھ بھی اپنا تعلق ظاہر کیا۔ چنانچہ سکھ ہونے کا اعلان اس تعارف کے ساتھ کرتے ہیں:
’’8 ستمبر 06 19ء بوقت فجر کئی الہام ہوئے۔ ان میں سے ایک یہ بھی ہے امین الملک جے سنگھ بہادر۔‘‘9
مرزا صاحب اپنے ایک الہام میں خود کو آریوں کا بادشاہ قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’یہ دعوی صرف میری طرف سے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ نے بار بار میرے پر ظاہر کیا ہے کہ جو کرشن آخر زمانہ میں ظاہر ہونے والا تھا وہ تو ہی ہے۔ آریوں کا بادشاہ۔10
’’جو ملک ہند میں کرشن نام ایک نبی گذرا ہے جس کو ردّر گوپال بھی کہتے ہیں (یعنی فنا کرنے والا اور پرورش کرنے والا)اس کا نام بھی مجھے دیا گیا ہے۔‘‘ 11
مختلف نسلیں تبدیل کرنے کے بعد وہ ایسی لفظی قلابازی کھاتے ہیں کہ عقل حیران اور ناطقہ سربگر یبان ہونے لگتا ہے۔ وہ کہتے ہیں:
میں کبھی آدم، کبھی موسیٰ، کبھی یعقوب ہوں
نیز ابراہیم ہوں نسلیں ہیں میری بے شمار12
پھر ان تمام نسلوں پر خطِ تنسیخ پھیرتے ہوئے ایک اور چھلانگ لگاتے ہیں اور خود کو نوع انسانی سے نکال باہر کرتے ہیں اور اپنی حقیقت کااعتراف یوں کرتے ہیں:
کِرم خاکی ہوں میں پیارے نہ میں آدم زاد ہوں
ہوں بشر کی جائے نفرت اور اِنسانوں کی عار 13
مرزا کی نسل کا مسئلہ ابھی تک لاینحل ہے، اس لیے ہم اس بحث کو یہیں سمیٹتے ہیں۔