یہ بات قابل توجہ ہے کہ مسئلہ حیات و ممات مسیح ان کا براہ راست مسئلہ ختم نبوت سے کوئی تعلق نہیں اور بفرض محال اگر قرآن وسنت کی تصریحات سے حیات مسیح نہ بھی ثابت ہو سکے تب بھی حضور نبی اکرم ﷺ کے آخری نبی ہونے میں شک کا ذرہ بھر احتمال نہیں ۔ آپ نے ہی سب سے آخری نبی اور رسول ہیں۔ آپ ﷺ کے بعد کسی قسم کی نبوت کے اجراء کا نہ کوئی امکان ہے اور نہ کوئی جواز ، ایسا دعوی کرنے والا نصوص قرآن وسنت کا صریح منکر اور کافر و کذاب ہے۔
عالم اسلام کے جمہور علماء کا روز اول سے یہی مسلک رہا ہے اور بحمد اللہ آج بھی وہ اس پر قائم ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام رب العزت کے جلیل القدر نبی اور رسول ہیں جو بنی اسرائیل کی اصلاح و ہدایت کے لیے مبعوث کیے گئے۔ ان کی پیدائش بھی معجزے کے طور پر ہوئی اور وہ جسم و روح کے ساتھ آسمان پر زندہ اٹھا لیے گئے اور قرب قیامت کی علامت کبری کے طور پر دوبارہ آسمان سے زمین پر اتریں گے۔
یہ بات نفس الامر کے طور پر دلیل قطعی ہے اور اس پر امت کا اجماع ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی حیات قرآن حکیم سے ثابت ہے اور اس کی توضیح و تائید میں احادیث متواتر کا ایک ذخیرہ موجود ہے۔ حیات مسیح کی تائید وحمایت میں علمائے حق نے آیات قرآنی اور احادیث نبوی کی روشنی میں اپنا نقطہ نظر اتنے پر زور استدلال سے پیش کیا ہے کہ قادیانی مبلغ اس کا سامنا کرنے کی جرات نہیں کرتے ۔
مرزا صاحب کاموقف اس مسئلے پر متضاد نظریات پر مبنی ہے۔ اپنے دور اول میں وہ حیات و نزول مسیح العظیم کے قائل تھے اور اس پر ان کی تحریریں شاہد ہیں۔ اس سلسلے میں براہین احمدیہ (ص: ۴۹۸، ۴۹۹ ، ۵۰۵) اور روحانی خزائن (ص: ۵۷، ۵۸) کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے ۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ مرزا نے قرآن حکیم اور کتب حدیث میں بیان کردہ اس نظریے کی صحت کا اعتراف کیا ہے۔ مرزا صاحب لکھتے ہیں:
واضح ہو کہ اس امر سے دنیا میں کسی کو انکار نہیں کہ احادیث میں مسیح موعود کی کھلی کھلی پیشگوئی موجود ہے بلکہ قریباً تمام مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے که احادیث کی رو سے ضرور ایک شخص آنے والا ہے جس کا نام عیسی بن مریم ہوگا اور یہ پیشین گوئی بخاری، مسلم اور ترمذی وغیرہ کتب حدیث میں اس کثرت سے پائی جاتی ہے جو کہ ایک منصف مزاج کی تسلی کے لیے کافی ہے اور بالضرورت اس قدر مشترک پر ایمان لانا پڑتا ہے کہ ایک مسیح موعود آنے والا ہے ۔ 1
مرزا غلام احمد قادیانی نے چونکہ اپنے دعوی نبوت کے ابتدائی مراحل میں دعوئی مسیحیت کیا تھا، اس لیے انہوں نے ممات مسیح کا عقیدو گھڑا چنانچہ قادیانیوں کے نزدیک یہودیوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کو تختہ صلیب پر لٹکا دیا اور وہ آپ کو مردہ سمجھ کر بھاگ گئے ۔ آپ غشی کی حالت میں بیدار ہو کر براستہ افغانستان کشمیر آگئے جہاں سری نگر میں ایک سو پچیس سال کی عمر کو پہنچ کر فوت ہو گئے۔ وہاں پر محلہ خان یار میں آپ کو دفن کیا گیا۔ اس لیے کشمیر میں ایک مقام کو آپ کے مزار سے منسوب کیا جاتا ہے۔ ان کے مطابق سیدنا عیسی علیہ السلام کو اللہ تعالی نے رفع درجات اور رفع روحانی کا مقام عطا کیا۔ حضرت عیسی علیہ السلام کے بارے میں قادیانیوں کا یہ خود ساختہ عقیدہ ہے جس کا ثبوت نہ قرآن و سنت سے ملتا ہے اور نہ ہی تاریخی شواہد ہے۔ چنانچہ مرزا غلام احمد قادیانی کے متبعین اور مبلغین کا وطیرہ یہ ہے کہ وہ مسلمانوں سے اصل مسئلہ یعنی مرزا کے جھوٹے دعوئی نبوت پر گفتگو کرنے کی بجائے انہیں ممات مسیح کے بارے میں اپنے خود ساختہ تصور میں الجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں کہ وہ فوت ہو گئے، اور اگر زندہ ہیں تو ان کے رفع سماوی کو رفع جسمانی کی بجائے رفع روحانی سے تعبیر کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک مہدی و عیسی ایک ہی ذات کے دو نام ہیں۔
حقیقت میں ان سب باتوں کا تعلق حضرت عیسی علیہ السلام کی ذات سے ہے نہ کہ مرزا قادیانی کی نبوت سے ۔ بلکہ وہ موضوع ہی الگ ہے۔ اصل موضوع تو مرزا صاحب کا جھوٹا دعوی نبوت ان کے کفریہ عقائد، جھوٹی پیشین گوئیاں اور ان کے سیرت و کردار کے بارے میں حقیقت پسندانہ تجزیہ ہے، مگر جب قادیانیوں سے اس موضوع پر گفتگو کرنے کی کوشش کی جائے تو وہ اس سے میلوں دور بھاگتے ہیں۔ یہ منطق عقل و فہم سے ماوراء ہے کہ کوئی شخص کسی کو نبی مانے مگر اس کے اسوہ اور سیرت و کردار پر گفتگو کی جائے تو وہ اس کو چھپانے لگے اور اگر کوئی زیادہ اصرار کرے تو مشتعل اور سیخ پا ہو جائے۔
یہاں پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ مرزا قادیانی کے پیروکار اصل موضوع پر گفتگو کرنے کی بجائے حضرت عیسی علیہ السلام کی حیات و ممات کو موضوع بحث کیوں بناتے ہیں جس کا فی الواقعہ اصل موضوع سے کوئی تعلق ہی نہیں؟ اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ مرزا صاحب کی سیرت و کردار کے حوالے سے جو انمٹ نقوش تاریخ کے اوراق پر ثبت ہیں، ان پر خلط مبحث سے پردہ ڈالنا قادیانیوں کا شیوہ بن چکا ہے جو دراصل مرزا قادیانی کے کفریہ عقائد سے توجہ ہٹانے کی ناکام کوشش ہے۔ مرزا صاحب کے دعوی نبوت کی بجائے حضرت عیسی علیہ السلام کی حیات و وفات کے بارے میں غیر متعلقہ بحث شروع کر کے وہ اپنے مخاطبین و سامعین کے دل میں تشکیک والتباس پیدا کرنے اور انہیں اس امر پر قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام وفات پا چکے ہیں، وہ دوبارہ آسمان سے زندہ نہیں اتریں گے اور وہ احادیث رسول ﷺ جن میں مسیح ابن مریم کے دوبارہ نزول کا ذکرہے ان سے وہ مرزا غلام احمد قادیانی مراد لیتے ہیں۔
قادیانی کہتے ہیں کہ سیدنا عیسیؑ کو یہودیوں نے صلیب پر چڑھایا اور وہ تین گھنٹے تک صلیب پر رہے لیکن وہ صلیب پر چڑھنے کی وجہ سے قتل نہیں ہوئے بلکہ زخمی ہوگئے اور زخمی حالت میں آپ کو ایک غار میں لے جایا گیا اور وہاں آپ کا تین دن علاج ہوتا رہا۔تین دن کے بعد آپ صحت یاب ہوئے اور پھر اپنی والدہ کے ساتھ فلسطین سے افغانستان کے راستے سے ہوتے ہوئے کشمیر چلے گئے۔کشمیر میں 87 سال رہے۔پھر آپ کی وفات ہوئی۔اور آپ کی قبر کشمیر کے محلہ خان یار میں ہے۔
مرزا غلام احمد قادیانی(1839 – 1908) اپنی عمر کے تقريباً 52 سال (سن 1891 تک) نہ صرف خود بھی مسلمانوں والا عقیدہ رکھتے تھے بلکہ اپنی اولین کتاب "براہين احمديہ" میں قرآنى آيات سے اصلى حضرت عيسىؑ ہی کا دوبارہ دنیا میں آنا ثابت بھی کیا۔ 2
لیکن آخر عمر میں مرزا صاحب نے ایک اور انوکھا اور نیا عقیدہ اور نظریہ پیش کیا ۔
اسکا خلاصہ یہ ہے :
"حضرت مریمؑ کے بیٹے حضرت عيسىؑ عليه السلام کی عمر 33 سال 6 مہینے تھی کہ آپ کو دشمنوں نے پکڑ کر بروز جمعه بوقت عصر دو چوروں کے ساتھ صلیب پر ڈال دیا،جسم میں کیلیں لگائیں،زخمی کیا یہاں تک کہ آپ شدت تکلیف سے بے ہوش ہو گئے اور دشمن آپ کو مردہ سمجھ کر چلے گئے جب کہ در حقیقت آپ ابھی زندہ تھے۔" 3
مرزا صاحب نے الله تعالى کے حوالے سے لکھا ہے:
"الله نے یہ بیان فرمایا ہے کہ اگرچہ یہ سچ ہے کہ بظاہر مسیح صلیب پر کھینچا گیا اور اسکے مارنے کا ارادہ کیا گیا۔"4
ایک اور جگہ مرزا صاحب نے لکھا ہے:
"آپ کو کسی طرح صلیب سے اتارا گیا،حواریوں نے آپ کے زخموں پر "مرہم عيسى" لگا کر علاج کیا،اور پھر آپ اور آپ کی والدہ ملک شام سے نکلے اور افغانستان وغيره مختلف ممالک سے ہوتے ہوے کشمیر جا پہنچے۔" 5
آپؑ کشمیر میں ہی مرزا صاحب کی ایک تحریر کے مطابق 120 سال اور اسی كتاب میں لکھی ہوئی دوسری تحریر کے مطابق 125 سال کی مجموعی عمر پا کر انتقال کرگئے۔
دونوں قسم کے حوالے درج ذیل ہیں۔
(120 سال عمر)6
(125 سال عمر)7
مرزا صاحب نے سیدنا عیسیؑ کی قبر کے متعلق لکھا ہے:
"کشمیر کے شہر سری نگر کے محلہ خان یار میں جو قبر "یوز آسف" کے نام سے مشہور ہے وہ در حقیقت حضرت عيسىؑ کی قبر ہے۔"8
مرزا صاحب نے سیدنا عیسیؑ کے بارے میں ایک اور بات یہ بھی لکھی ہے:
"جن احادیث میں "مریم کے بیٹے عيسیؑ" کے نزول کی خبر دی گئی ہے،ان سے مراد اصلی عيسىؑ نہیں بلکہ ان کا ایک مثیل ہے،نیز قرآن كريم اور احاديث صحيحہ نے بشارت دی ہے کہ مثیل مسیح اور دوسرے مثیل بھی آئیں گے۔"9
مرزا صاحب نے اپنے بارے میں یوں لکھا ہے:
"وہ مثیل میں یعنی مرزا غلام احمد قادیانی بن چراغ بی بی ہوں اور اسی کی خبر احادیث میں دی گئی ہے،نیز قرآن نے میرا نام ابن مریم رکھا ہے۔اور میرے خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ مسیح محمدی،مسیح موسوی سے افضل ہے۔"10
مرزا صاحب نے دجال کے بارے میں لکھا ہے:
"احادیث میں "عيسىؑ" کے ہاتھوں جس دجال کے قتل ہونے کا ذکر ہے اس دجال سے مراد یا تو عیسائی پادری ہیں،یا دجال شیطان کا اسم اعظم ہے،یا دجال مفسدین کے گروہ کا نام ہے، یا دجال عیسائیت کا بھوت ہے،یا دجال سے مراد خناس ہے،یا دجال سے مراد با اقبال قومیں ہیں۔" 11
مرزا صاحب نے سیدنا عیسیؑ کے بہن اور بھائیوں کے متعلق یوں لکھا ہے:
"حضرت مسیحؑ کے چار حقیقی بھائی اور دو حقیقی بہنیں بھی تھیں۔"12
مرزا صاحب کی مندرجہ بالا عبارات سے مندرجہ ذیل مرزا صاحب کے عقائد ہمیں پتہ چلے۔
1)سیدنا عیسیؑ کو 2 چوروں کے ساتھ صلیب پر لٹکایا گیا۔
2)سیدنا عیسیؑ صلیب پر چڑھنے کی وجہ سے زخمی ہوگئے۔
3)اللہ نے یہ فرمایا کہ سیدنا عیسیؑ کو صلیب پر کھینچا گیا۔
4)سیدنا عیسیؑ کو صلیب سے زخمی حالت میں اتارا گیا۔پھر ان کے مرہموں پر "مرہم عیسی" لگائی گئی۔
5)اس کے بعد سیدنا عیسیؑ کشمیر چلے گئے۔
6)سیدنا عیسیؑ کی وفات کشمیر میں 120 یا 125 سال کی عمر میں ہوئی۔
7)سیدنا عیسیؑ کی قبر کشمیر کے محلہ خان یار میں ہے۔
8)جن احادیث میں مریمؑ کے بیٹے سیدنا عیسیؑ کے آنے کی خبر دی گئی ہے اس سے مراد مریمؑ کے بیٹے سیدنا عیسیؑ نہیں ہیں بلکہ یہ مراد ہے کہ ان کا کوئی مثیل آئے گا۔
9)وہ مثیل مسیح جس کے آنے کی خبر احادیث میں دی گئی ہے وہ مثیل مسیح "مرزا غلام احمد قادیانی" ہے۔
10)مرزا صاحب کا نام قرآن نے "ابن مریم" رکھا ہے۔
11)جس دجال کا سیدنا عیسیؑ کے ہاتھوں قتل ہونے کا ذکر احادیث میں آیا ہے اس دجال سے مراد یا تو شیطان ہے یا عیسائی پادری وغیرہ ہیں۔
12)سیدنا عیسیؑ کے 4 حقیقی بھائی اور 2 حقیقی بہنیں تھیں۔