logoختم نبوت

سیدنا عیسی علیہ السلام کے رفع و نزول کے عقیدے میں چارگروہ

سیدنا عیسیؑ کے رفع و نزول کے عقیدے کے بارے میں 4 گروہ ہیں

1)مسلمان

2)عیسائی

3)یہودی

4)قادیانی

ان چاروں گروہوں کے عقائد سیدنا عیسیؑ کے بارے میں درج ذیل ہیں۔

مسلمانوں کا عقیدہ

سیدنا عیسی ابن مریم علیهما السلام اللہ رب العزت کے وہ جلیل القدر نبی اور رسول ہیں جو حضور نبی اکرمﷺکی بعثت مبارکہ سے پونے چھ سو سال قبل قوم بنی اسرائیل کی طرف مبعوث کیے گئے، جب یہودیوں نے انہیں صلیب پر لٹکانے اور قتل کرنے کا در پردہ منصوبہ بنایا تو اللہ نے ان کے منصوبے اور سازش کو اس طرح ناکام بنا دیا کہ اپنی قدرت کاملہ سے انہیں زندہ آسمان پر اٹھا لیا۔ اللہ تعالی نے حضرت عیسی علیہ السلام کے سخت دشمن اور آپ کے منصوبہ قتل میں شامل ایک یہودی کی صورت کو بدل کر حضرت عیسی علیہ السلام کی صورت جیسا کر دیا۔ آپ علیہ السلام کے دشمن یہودیوں نے آپ علیہ السلام کے شبہ میں اسے پکڑا اور سولی پر چڑھا دیا۔ اس طرح حضرت عیسی علیہ السلام نہ صرف یہ کہ مصلوب ہونے سے بچ گئے بلکہ بطور معجزہ زندہ آسمان پر اٹھا لیے گئے۔

احادیث میں موجود حضور نبی اکرم ﷺ کی پیشین گوئیوں کے مطابق قرب قیامت حضرت عیسی علیہ السلام دوبارہ اس حال میں زندہ زمین پر تشریف لائیں گے کہ آپ نے اپنے دونوں ہاتھ دو فرشتوں کے بازوؤں پر رکھے ہوں گے۔ نماز فجر کے وقت دمشق کی مشرقی جانب جامع مسجد میں آپ کا نزول ہو گا، دجال کا قتل آپ کے ہاتھوں ہو گا، آپ کی شادی اور اولاد ہو گی بالآخر كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ“ کے تحت آپ کا طبعی وصال ہوگا اور تاجدار کائنات حضور نبی اکرم ﷺ کے پہلو میں گنبد خضری کے اندر آپ کو دفن کیا جائے گا۔ امت مسلمہ کا اجماعی اور متفق علیہ عقیدہ قرآن اور حدیث کے مطابق یہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی طبعی وفات نہیں ہوئی اور وہ آسمان سے زندہ زمین پر اتریں گے۔ ذیل میں آیات مبارکہ کی روشنی میں حیات مسیح کا عقیدہ بیان کیا جاتا ہے:

ا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

فَلَمَّا أَحَسَّ عِيسَى مِنْهُمُ الْكُفْرَ قَالَ مَنْ أَنْصَارِي إِلَى اللَّهِ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنْصَارُ اللَّهِ آمَنَّا بِاللَّهِ ۚ وَاشْهَدُ بِأَنَّا مُسْلِمُونَ رَبَّنَا امَنَّا بِمَا أَنْزَلْتَ وَاتَّبَعْنَا الرَّسُولَ فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّهِدِينَ وَمَكَرُوا وَمَكَرَ اللَّهُ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَكِرِينَ 1
پھر جب عیسی (ال) نے ان کا کفر محسوس کیا تو اس نے کہا: اللہ کی طرف کون لوگ میرے مددگار ہیں؟ تو اس کے مخلص ساتھیوں نے عرض کیا: ہم اللہ (کے دین) کے مددگار ہیں، ہم اللہ پر ایمان لائے ہیں اور آپ گواہ رہیں کہ ہم یقیناً مسلمان ہیں اے ہمارے رب! ہم اس کتاب پر ایمان لائے جو تو نے نازل فرمائی اور ہم نے اس رسول کی اتباع کی سو ہمیں (حق کی ) گواہی دینے والوں کے ساتھ لکھ لے پھر (یہودی) کافروں نے (عیسی علیہ السلام کے قتل کے لیے ) خفیہ سازش کی اور اللہ نے (عیسی علیہ السلام کو بچانے کے لیے ) مخفی تدبیر فرمائی ، اور اللہ سب سے بہتر مخفی تدبیر فرمانے والا ہے۔

اس آیت کی تفسیر میں امام فخر الدین رازی بیان کرتے ہیں:

أما مكرهم بعيسى علیه السلام فهو أنهم هموا بقتله وأما مكر الله تعالى بهم ففيه وجوه الأول مكر الله تعالى بهم هو أنه رفع عيسى علیه السلام إلى السماء وذلك أن ملك اليهود أراد قتل عيسى علیه السلام وكان جبريل علیه السلام لا يفارقه ساعة وهو معنى قوله وَأَيَّدَنَهُ بِرُوح القدس فلما أرادوا ذلك أمره جبريل علیه السلامأن يدخل بيتا فيه روزنة فلما دخلوا البيت أخرجه جبريل علیه السلام من تلك الروزنة وكان قد ألقى شبهه على غيره فأخذ وصلب فتفرق الحاضرون ثلاث فرق فرقة قالت: كان الله فينا فذهب وأخرى قالت: كان ابن الله والأخرى قالت: كان عبد الله ورسوله فأكرمه بان رفعه إلى السماء وصار لكل فرقة جمع فظهرت الكافرتان على الفرقة المؤمنة إلى أن بعث الله تعالى محمدا دراية وفي الجملة فالمراد من مكر الله بهم أن رفعه إلى السماء وما مكنهم من إيصال الشر2
پس یہود کا حضرت عیسی علیہ السلام سے مکر یہ تھا کہ انہوں نے ان کو دھوکے سے قتل کرنے کا ارادہ کیا اور اللہ تعالی نے ان کے اس مکر کی جو تدبیر فرمائی اس کی کئی صورتیں ہیں: ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسی علیہ السلام کو آسمان پر اٹھا لیا اور یہ اس طرح ہوا کہ یہود کے ایک بادشاہ نے حضرت عیسی علیہ السلام کے قتل کا ارادہ کیا جبکہ حضرت جبریل علیہ السلام حضرت عیسی علیہ السلام سے ایک لمحہ بھی جدا نہیں ہوتے تھے۔ اللہ تعالی نے اس فرمان ۔ اور ہم نے پاکیزہ روح کے ذریعے اس کی مدد فرمائی - کا یہی مطلب ہے۔ پس جب یہود نے حضرت عیسی علیہ السلام کو قتل کرنے کا ارادہ کیا تو حضرت جبریل علیہ السلام نے ان کو ایک مکان میں داخل ہونے کا کہا۔ اس مکان میں ایک روشن دان تھا، جب وہ اس مکان میں داخل ہوئے تو حضرت جبریل اللہ نے حضرت عیسی علیہ السلام کو اس روشن دان سے نکال لیا اور آپ کی شبیہ ایک اور شخص پر ڈال دی۔ پس یہود نے اسے پکڑا اور اسے ( عیسی علیہ السلام سمجھ کر ) صلیب پر لٹکاا دیا۔ پس اس پر وہاں پر موجود لوگوں کے تین گروہ بن گئے۔ ایک نے کہا کہ ہمارے درمیان (معاذ اللہ ) خدا تھا، دوسرے نے کہا: (معاذ اللہ ) وہ خدا کا بیٹا تھا، تیسرے نے کہا: وہ اللہ کے بندے اور رسول تھے۔ پس پہلے دونوں گروہ باطلہ تیسرے مومن گروہ پر غالب آ گئے حتی کہ اللہ تعالی نے حضور نبی اکرم علیہ السلام کو معبوث فرمایا۔ مختصر یہود کے ساتھ اللہ کے مکر کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالی نے حضرت عیسی علیہ السلام کو آسمان پر اٹھا لیا اور یہود کو حضرت مسیح علیہ السلام کے ساتھ دھوکہ دہی سے باز رکھا۔

یہودیوں کا عقیدہ:

یہودیوں کا عقیدہ یہ ہے کہ انہوں نے سیدنا عیسیؑ کو صلیب دے کر قتل کر دیا تھا۔

جیسا کہ قرآن مجید میں ذکر ہے۔

اِنَّا قَتَلۡنَا الۡمَسِیۡحَ عِیۡسَی ابۡنَ مَرۡیَمَ رَسُوۡلَ اللّٰه3
ہم نے اللہ کے رسول مسیح ابن مریم کو قتل کردیا تھا۔

جتنی پختگی سے وہ دعویٰ کرتے تھے اس سے زیادہ زور دار بیان سے قتل مسیح کی مطلق نفی کرکے قرآن نے اس غلط دعویٰ کی تردید فرمائی۔

چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ہے۔

وَّ قَوْلِهِمْ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِیْحَ عِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ رَسُوْلَ اللّٰهِۚ-وَ مَا قَتَلُوْهُ وَ مَا صَلَبُوْهُ وَ لٰـكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ وَ اِنَّ الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِیْهِ لَفِیْ شَكٍّ مِّنْه مَا لَهُمْ بِهٖ مِنْ عِلْمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ-وَ مَا قَتَلُوْهُ یَقِیْنًا بَلْ رَّفَعَهُ اللّٰهُ اِلَیْه وَ كَانَ اللّٰهُ عَزِیْزًا حَكِیْمًا 4
اور یہ کہا کہ:ہم نے اللہ کے رسول مسیح ابن مریم کو قتل کردیا تھا،حالانکہ نہ انہوں نے عیسیٰ(علیہ السلام) کو قتل کیا تھا،نہ انہیں سولی دے پائے تھے،بلکہ انہیں اشتباہ ہوگیا تھا۔اور حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں نے اس بارے میں اختلاف کیا ہے وہ اس سلسلے میں شک کا شکار ہیں،انہیں گمان کے پیچھے چلنے کے سوا اس بات کا کوئی علم حاصل نہیں ہے، اور یہ بالکل یقینی بات ہے کہ وہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل نہیں کر پائے۔بلکہ اللہ نے انہیں اپنے پاس اٹھا لیا تھا،اور اللہ بڑا صاحب اقتدار،بڑا حکمت والا ہے۔

عیسائیوں کا عقیدہ:

عیسائی کہتے ہیں کہ سیدنا عیسیؑ کو صلیب پر چڑھایا گیا وہ صلیب پر چڑھنے کی وجہ سے قتل ہوگئے۔اس کے بعد زندہ ہوئے اور اللہ تعالٰی نے ان کو آسمان پر اٹھا لیا۔اور اب وہ واپس زمین پر تشریف لائیں گے۔

عیسائیوں کا عقیدہ یہ بھی تھا کہ سیدنا عیسیؑ پھانسی پر چڑھ کر ہمارے گناہوں کا کفارہ ہو گئے انکے عقیدہ کفارہ کی بنیاد سیدنا عیسیؑ کا صلیب پر چڑھنا تھا۔

قرآن مجید نے اسکی تردید کی۔اور فرمایا :

وماصبلوہ 5
کہ وہ قطعاً پھانسی پر نہیں چڑھائے گئے۔

تو عقیدہ کفارہ کی بنیاد ہی قرآن مجید نے گرا دی کہ جب وہ سرے سے ہی صلیب پر نہیں چڑھائے گئے تو تمہارے گناہوں کا کفارہ کا عقیدہ ہی سرے سے بے بنیاد ہوا۔

چونکہ یہ عقیدہ اصولا غلط تھا۔چنانچہ قرآن مجید نے صرف نفی صلیب پہ اکتفاء نہیں کیا بلکہ واقعاتی تردید کے ساتھ ساتھ اصولی اور معقولی تردید بهی کی۔

چنانچہ قرآن مجید میں اللہ تعالٰی نے فرمایا:

وَ لَا تَزِرُ وَازِرَة وِّزۡرَ اُخۡرٰي 6
اور کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔

نیز فرمایا:

فَمَنۡ یَّعۡمَلۡ مِثۡقَالَ ذَرَّة خَیۡرًا یَّرَہٗ وَ مَنۡ یَّعۡمَلۡ مِثۡقَالَ ذَرَّة شَرًّا یَّرَه 7
چنانچہ جس نے ذرہ برابر کوئی اچھائی کی ہوگی وہ اسے دیکھے گا۔اور جس نے ذرہ برابر کوئی برائی کی ہوگی،وہ اسے دیکھے گا۔
یہ کہہ کر وہ ان کے دیکھتے دیکھتے او پر اٹھالیا گیا اور بدلی نے اسے ان کی نظروں سے چھپا لیا اور اس کے جاتے وقت جب وہ آسمان کی طرف غور سے دیکھ رہے تھے تو دیکھو دو مرد سفیدپوشاک پہنے ان کے پاس آکھڑے ہوئے اور کہنے لگے : :اے کلیلی مردو! تم کیوں کھڑے آسمان کی طرف دیکھتے ہو، یہی یسوع تمہارے پاسبچے اور جھوٹے مسیح میں فرق۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں۲۱سے آسمان پر اٹھالیا گیا، اسی طرح پھر آسمان سے آئے گا جس طرح تم نے اسے آسمان پر جاتے دیکھا ہے۔ (انجیل ، رسولوں کا باب (۱) فقرہ ۹ - ۱۱۰۱۰) (انجیل یوحنا باب (۲۰) فقره ۱۸۰۱۷)مرزا قادیانی خود بھی عیسائیوں کا عقیدہ لکھتا ہے:آن حضرت مصلی السلام کے زمانہ میں عیسائیوں کا یہی عقیدہ تھا کہ درحقیقت مسیح ابن مریم ہی دوبارہ دنیا میں آئیں گئے۔ (ازالہ اوہام مندرجہروحانی خزائن جلد : ۳ صفحه : ۳۱۸)پھر مرزا مزید لکھتا ہے :إِنَّ عَقِيدَة حَيَاتِهِ قَدْ جَاءَتْ فِي الْمُسْلِمِينَ مِنَ الْمِلَّةِ النَّصْرَانِيَّةِ"(ضمیمه حقيقة الوحى الاستفتاء: ص: ٣٩ مندرجہ روحانی خزائن جلد : ۲۲ صفحه :۱۲۰، از مرزا قادیانی )وضاحت عقیدهعیسائیوں کا عقیدہ عیسی ما السلام کے آسمان پر اٹھائے جانے کا، یا ان کے آسمان سے اترنے کا اس کی تردید نہ تو قرآن میں اور نہ ہی حدیث مبارکہ میں کی گئی، بلکہ ان دونوں عقیدوں کو ثابت کیا گیا ہے، اور یہ دونوں اسلام کے بنیادی اور قطعی ومستحکم اور اساسی ستون ہیں۔ایک اہم شبہ کا ازالہمرزا قادیانی کی یہ بات احمقانہ اور بالکل ہی غلط ہے کہ رفع یا نزول کا عقیدہ مسلمانوں میں نصرانیوں سے آیا ہے، یہاں بھی مرزا نے قرآن مجید اور حضرت خاتم النبیین سلام پیام کی عظمت اور مستقل شریعت کو نشانہ بنا گیا، اور ختم نبوت کی شرعی حیثیت کو مٹانے کی کوشش کر گیا، مسلمانوں کو یہ عقیدہ اللہ تعالی نے عطا کیا ہے اور حضرت خاتم النبیین محمد رسول اللہ صلی نیلم کی ختم نبوت کی رحمت سے نجات و مغفرت کے لئے ملا ہے، کیا یہ درست ہوگا کہ اللہ تعالی کی وحدانیت اور ربوبیت کا عقیدہ اہل کتاب سے ملا ہے، قطعا نہیں، ہم کو یہ عقیدہ اللہ رب العزت کی جانب سے اللہ کے فضل سے حضور خاتم الدین سلی از پیم کی ختم نبوت کی قطعیت اور ابدیت سے بطور رحمت کے ملا ہے، بے شکسچے اور جھوٹے مسیح میں فرق۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں۲۲تمام اہل کتاب کا یہ عقیدہ تھا مگر ان کو بھی اللہ کی جانب سے ملا تھا، عقیدہ کا تعلق یہودیت و نصرانیت سے قطعاً نہیں، عقیدہ کا تعلق کتاب اللہ اور احادیث انبیاء ورسل سے ہوتا ہے، یہ بھی مرزا کی جہالت و حماقت تھی ، جب ہی تو گمراہی کے نجاست و غلاظت میں پھنس کر اور لوگوں کو پھنسا کر آں جہانی ہو گیا۔

قادیانیوں کا عقیدہ:

قادیانی کہتے ہیں کہ سیدنا عیسیؑ کو یہودیوں نے صلیب پر چڑھایا اور وہ تین گھنٹے تک صلیب پر رہے لیکن وہ صلیب پر چڑھنے کی وجہ سے قتل نہیں ہوئے بلکہ زخمی ہوگئے اور زخمی حالت میں آپ کو ایک غار میں لے جایا گیا اور وہاں آپ کا تین دن علاج ہوتا رہا۔تین دن کے بعد آپ صحت یاب ہوئے اور پھر اپنی والدہ کے ساتھ فلسطین سے افغانستان کے راستے سے ہوتے ہوئے کشمیر چلے گئے۔کشمیر میں 87 سال رہے۔پھر آپ کی وفات ہوئی۔اور آپ کی قبر کشمیر کے محلہ خان یار میں ہے۔

"مرزا صاحب کا سیدنا عیسیؑ کے بارے میں مکمل نظریہ"

مرزا غلام احمد قادیانی(1839 – 1908) اپنی عمر کے تقريباً 52 سال (سن 1891 تک) نہ صرف خود بھی مسلمانوں والا عقیدہ رکھتے تھے بلکہ اپنی اولین کتاب "براہين احمديہ" میں قرآنى آيات سے اصلى حضرت عيسىؑ ہی کا دوبارہ دنیا میں آنا ثابت بھی کیا۔ 8

لیکن آخر عمر میں مرزا صاحب نے ایک اور انوکھا اور نیا عقیدہ اور نظریہ پیش کیا ۔

اسکا خلاصہ یہ ہے :

"حضرت مریمؑ کے بیٹے حضرت عيسىؑ عليه السلام کی عمر 33 سال 6 مہینے تھی کہ آپ کو دشمنوں نے پکڑ کر بروز جمعه بوقت عصر دو چوروں کے ساتھ صلیب پر ڈال دیا،جسم میں کیلیں لگائیں،زخمی کیا یہاں تک کہ آپ شدت تکلیف سے بے ہوش ہو گئے اور دشمن آپ کو مردہ سمجھ کر چلے گئے جب کہ در حقیقت آپ ابھی زندہ تھے۔" 9

مرزا صاحب نے الله تعالى کے حوالے سے لکھا ہے:

"الله نے یہ بیان فرمایا ہے کہ اگرچہ یہ سچ ہے کہ بظاہر مسیح صلیب پر کھینچا گیا اور اسکے مارنے کا ارادہ کیا گیا۔"10

ایک اور جگہ مرزا صاحب نے لکھا ہے:

"آپ کو کسی طرح صلیب سے اتارا گیا،حواریوں نے آپ کے زخموں پر "مرہم عيسى" لگا کر علاج کیا،اور پھر آپ اور آپ کی والدہ ملک شام سے نکلے اور افغانستان وغيره مختلف ممالک سے ہوتے ہوے کشمیر جا پہنچے۔" 11

آپؑ کشمیر میں ہی مرزا صاحب کی ایک تحریر کے مطابق 120 سال اور اسی كتاب میں لکھی ہوئی دوسری تحریر کے مطابق 125 سال کی مجموعی عمر پا کر انتقال کرگئے۔

دونوں قسم کے حوالے درج ذیل ہیں۔

(120 سال عمر)12

(125 سال عمر)13

مرزا صاحب نے سیدنا عیسیؑ کی قبر کے متعلق لکھا ہے:

"کشمیر کے شہر سری نگر کے محلہ خان یار میں جو قبر "یوز آسف" کے نام سے مشہور ہے وہ در حقیقت حضرت عيسىؑ کی قبر ہے۔"14

مرزا صاحب نے سیدنا عیسیؑ کے بارے میں ایک اور بات یہ بھی لکھی ہے:

"جن احادیث میں "مریم کے بیٹے عيسیؑ" کے نزول کی خبر دی گئی ہے،ان سے مراد اصلی عيسىؑ نہیں بلکہ ان کا ایک مثیل ہے،نیز قرآن كريم اور احاديث صحيحہ نے بشارت دی ہے کہ مثیل مسیح اور دوسرے مثیل بھی آئیں گے۔"15

مرزا صاحب نے اپنے بارے میں یوں لکھا ہے:

"وہ مثیل میں یعنی مرزا غلام احمد قادیانی بن چراغ بی بی ہوں اور اسی کی خبر احادیث میں دی گئی ہے،نیز قرآن نے میرا نام ابن مریم رکھا ہے۔اور میرے خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ مسیح محمدی،مسیح موسوی سے افضل ہے۔"16

مرزا صاحب نے دجال کے بارے میں لکھا ہے:

"احادیث میں "عيسىؑ" کے ہاتھوں جس دجال کے قتل ہونے کا ذکر ہے اس دجال سے مراد یا تو عیسائی پادری ہیں،یا دجال شیطان کا اسم اعظم ہے،یا دجال مفسدین کے گروہ کا نام ہے، یا دجال عیسائیت کا بھوت ہے،یا دجال سے مراد خناس ہے،یا دجال سے مراد با اقبال قومیں ہیں۔" 17

مرزا صاحب نے سیدنا عیسیؑ کے بہن اور بھائیوں کے متعلق یوں لکھا ہے:

"حضرت مسیحؑ کے چار حقیقی بھائی اور دو حقیقی بہنیں بھی تھیں۔"18

مرزا صاحب کی مندرجہ بالا عبارات سے مندرجہ ذیل مرزا صاحب کے عقائد ہمیں پتہ چلے۔

1)سیدنا عیسیؑ کو 2 چوروں کے ساتھ صلیب پر لٹکایا گیا۔

2)سیدنا عیسیؑ صلیب پر چڑھنے کی وجہ سے زخمی ہوگئے۔

3)اللہ نے یہ فرمایا کہ سیدنا عیسیؑ کو صلیب پر کھینچا گیا۔

4)سیدنا عیسیؑ کو صلیب سے زخمی حالت میں اتارا گیا۔پھر ان کے مرہموں پر "مرہم عیسی" لگائی گئی۔

5)اس کے بعد سیدنا عیسیؑ کشمیر چلے گئے۔

6)سیدنا عیسیؑ کی وفات کشمیر میں 120 یا 125 سال کی عمر میں ہوئی۔

7)سیدنا عیسیؑ کی قبر کشمیر کے محلہ خان یار میں ہے۔

8)جن احادیث میں مریمؑ کے بیٹے سیدنا عیسیؑ کے آنے کی خبر دی گئی ہے اس سے مراد مریمؑ کے بیٹے سیدنا عیسیؑ نہیں ہیں بلکہ یہ مراد ہے کہ ان کا کوئی مثیل آئے گا۔

9)وہ مثیل مسیح جس کے آنے کی خبر احادیث میں دی گئی ہے وہ مثیل مسیح "مرزا غلام احمد قادیانی" ہے۔

10)مرزا صاحب کا نام قرآن نے "ابن مریم" رکھا ہے۔

11)جس دجال کا سیدنا عیسیؑ کے ہاتھوں قتل ہونے کا ذکر احادیث میں آیا ہے اس دجال سے مراد یا تو شیطان ہے یا عیسائی پادری وغیرہ ہیں۔

12)سیدنا عیسیؑ کے 4 حقیقی بھائی اور 2 حقیقی بہنیں تھیں۔


  • 1 البقرة ،3/253
  • 2 رازی، التفسير الكبير،58/8
  • 3 النساء ،157/4
  • 4 النساء ،4/157،158
  • 5 النساء ،157/4
  • 6 فاطر ،35/4
  • 7 زلزال ،8،7/99
  • 8 اعجاز احمدی ضمیمہ نزول المسیح صفحہ 6 مندرجہ روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 113
  • 9 تحفہ گولڑویہ صفحہ 127 مندرجہ روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 311
  • 10 مسیح ہندوستان میں صفحہ 49 مندرجہ روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 51
  • 11 ست بچن صفحہ 176 مندرجہ روحانی خزائن جلد 10صفحہ301
  • 12 مسیح ہندوستان میں صفحہ 12 مندرجہ روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 14
  • 13 مسیح ہندوستان میں صفحہ 53 مندرجہ روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 55
  • 14 دافع البلاء صفحہ 15 مندرجہ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 235
  • 15 ازالہ اوہام حصہ اول صفحہ 413 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 314
  • 16 اربعین نمبر 3 صفحہ 25 مندرجہ روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 413
  • 17 ایام الصلح صفحہ 168٬169 مندرجہ روحانی خزائن جلد 14صفحہ416-417
  • 18 کشتی نوح صفحہ 17 مندرجہ روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 18

Netsol OnlinePowered by