ایک شیخ نے جسے اویس کہا کرتے تھے ( ترکی ) سلطان بایزید کے عہد سلطنت میں مہدویت کا دعویٰ کیا۔ اس کے اسی خلیفہ تھے۔ ایک دن خلفاء کو جمع کر کے کہنے لگا مجھے کشف سے معلوم ہوتا ہے کہ میں مہدی ہوں ۔ تم بھی اپنے باطن کی طرف توجہ کرو اور جو کچھ تم پر ظاہر ہو اس سے مجھے اطلاع دو۔ خلفاء اپنی اپنی جگہ توجہ باطنی کرتے رہے۔ آخر سب نے آکر بیان کیا کہ ہمارے نزدیک آپ اس دعوئ میں حق پر ہیں۔ اس کے بعض خلفاء نے سلطان بایزید سے یہ واقعہ عرض کیا۔ سلطان بڑا دیندار بادشاہ تھا۔ اس نے سن کر کہا بہتر ہے کہ تم لوگ خروج کرو۔ میں ہر طرح سے تمہارے ساتھ ہوں اور ہر قسم کی مدد دینے کو تیار ہوں ۔ لیکن جب اویس نے تھوڑے دن کے بعد از سر نو باطن کی طرف رجوع کیا تو معلوم ہوا کہ الہام ربانی نہ تھا۔ بلکہ القائے شیطانی تھا۔ جھٹ دعوائے مہدویت سے رجوع کیا۔ اپنے خلفاء کو اس کی اطلاع کرائی اور سلطان کو بھی اس سے مطلع کر دیا۔ 1
تاہم غنیمت ہے کہ جلد سنبھل گیا ور نہ نہ صرف خود ابدالاباد تک ورطہ خسران میں پڑا رہتا۔ بلکہ جب تک اس کے اغوا واضلال کا کوئی شائبہ معمورہ عالم میں پایا جاتا اس کے پیروں کی گمراہی کا بال بھی اس پر پڑتا لیکن مرزا کے مقابلہ میں مرزاغلام احمد قادیانی کی حرمان نصیبی قابل افسوس ہے۔ یہ بیچارے پہلے دن جن بھول بھلیوں میں پھنسے دم واپسین تک انہی میں سرگشتہ و حیران رہے اور ان سے نکلنا کبھی نصیب نہ ہوا ۔ بعض لوگ کہیں گے کہ اویس کی ہدایت یابی اور مرزا قادیانی کی شقاوت پسندی قضاء وقد رسے وابستہ تھی۔ یہ نظریہ ٹھیک ہے ۔ لیکن اتنا ضرور کہوں گا کہ خوبی قسمت کو خلوص و حسن نیت سے اور شومی تقدیر کو سؤ نیت سے گہرا تعلق ہے۔ اویس اور مرزا قادیانی کے نصب العین اور زاویہ ہائے نگاہ میں بین فرق تھا۔ اویس بے چارہ ، رب غفور کا مخلص بندہ تھا۔ خدائے کردگار کی نصرت بخشیوں نے اس کے خلوص اور حسن نیت کی برکت سے اسے شیاطین کے پنجہ اغوا سے نجات دلائی لیکن اس کے مقابلہ میں مرزا قادیانی کو للہیت سے کوئی دور کا بھی واسطہ نہ تھا۔ ان کی زندگی کا نصب العین دنیا پرستی اور عیش و راحت تھا اور وہ از سرتا بقدم خواہشات نفسانی اور حظوظ فانی کے غلام تھے۔ چنانچہ اس کا اندازہ اس حقیقت سے ہو سکتا ہے کہ مرزا قادیانی نے حسب بیان ماہنامہ الفضل کے ایک لڑکی عائشہ بیگم بنت شادی خان کو پیر دہانے پر تعین کر رکھا تھا۔ پلومر کمپنی لاہور سے پورٹ وائن منگوایا کرتے تھے اور حضرت مسیح موعود صاحب کے لئے جو پلاؤ تیار کیا جاتا تھا۔ اس میں گھی کی جگہ روغن بادام ڈالا جاتا تھا۔