عبدالعزیز ایک پہاڑی شخص تھا۔ جس نے ۷۱۷ھ میں مہدویت کا دعویٰ کیا۔ بہت سے جہلاء خصوصاً نصیر یہ فرقہ کے پیروؤں نے اس کی متابعت اختیار کی۔ یہاں تک کہ اس کی جمعیت تین ہزار تک پہنچ گئی۔ مرزاغلام احمد قادیانی کی طرح یہ بھی کئی رنگ بدلتا رہتا تھا۔ کبھی تو کہتا کہ میں حمد مصطفیٰ ہوں، کبھی کہتا کہ میں علی مرتضی ہوں اور کبھی مہدی منتظر بن بیٹھتا۔ اس شخص کا دعوی تھا کہ نصیریہ کے سواد دنیا بھر کے ادیان باطل ہیں۔ اس کے پیرو نعرہ تکبیر کی جگہ یہ آواز بلند کیا کرتے تھے۔
لا اله الا علی ،لا حجاب الا محمد، لا باب الا سلمان
( علی کے سوا کوئی معبود نہیں محمد ﷺ کے سوا کوئی حجاب نہیں اور سلمان فارسی کے سوا کوئی دروازہ نہیں )
یہ شخص شیخین یعنی حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر فاروق کو گالیاں دیا کرتا تھا۔ اس نے مسلمانوں کی بے شمار مسجد میں مسمار کر دیں۔ اس کے پیر د مسلمانوں کو پکڑ پکڑ کر اس کے پاس لاتے تھے اور کہتے تھے کہ اپنے معبود کو سجدہ کرو۔ جو کوئی اس نابکار کے سامنے سر بسجو د ہو جاتا ۔ اس کی جان بخشی جاتی ۔ ورنہ معا حلف تیغ بنا دیا جاتا ۔ جب حاکم طراب لس کو ان واقعات کا علم ہوا تو اس نے اس کی سرکوبی کے لئے لشکر روانہ کیا۔ فوج نے آکر اس کو نہایت ذلت کے ساتھ قتل کیا اور اس کی جماعت کو بھی تباہ و برباد کر دیا۔1