سید محمد نور بخش جونپوری اولیائے مغلوب الحال میں سے تھے۔ ایک مرتبہ انہوں نے عالم حال و وجد میں دیکھا کہ شخص خطاب کر رہا ہے ۔ انت مهدی یعنی تو مہدی ہے۔ وہ یہ سمجھے کہ میں مہدی موعود ہوں ۔ مہدویت کبری کا دعوی کر بیٹھے اور یہ کہنا شروع کیا کہ میں وہی ہوں۔ جس کی بشارت جناب مخبر صادق ﷺ نے احادیث صحیحہ میں دی ہے۔ کچھ زمانہ تک اس دعوئ پر قائم رہے۔ ہزار ہا لوگوں نے ان کی متابعت کی ۔ آخر حج بیت اللہ کا قصد کیا۔ اثنائے راہ میں ان کو کشف ہوا کہ وہ مہدی موعود نہیں۔ بلکہ بایں معنی مہدی ہیں کہ عبادت الہی کی طرف خلق خدا کی راہنمائی کرنے میں ہدایت یافتہ ہیں۔ اس کشف کے بعد دعوائے مہدویت سے تائب ہوئے اور اپنے مریدوں اور ہمرا ہوں کو بھی ہدایت کی کہ اس اعتقاد سے توبہ کریں اور کہا کہ سفر حج سے واپس چل کر اعلان عام کر دوں گا کہ میں مہدی موعود نہیں ہوں۔ لیکن اثنائے سفر میں سفر آخرین اختیار کر لیا۔ وہ مرید جو رفقائے سفر تھے۔ جب وطن کو لوٹے تو انہوں نے آکر بتایا کہ سید نور بخش نے سفر واپسیس سے پیشتر دعوائے مہدویت سے رجوع کیا تھا۔ بعض لوگ اس عقیدہ سے تائب ہوئے اور بعض پہلے عقیدہ پر اڑے رہے۔1
مؤخر الذکر جماعت کو نوربخشیہ کہتے ہیں۔ مرزا حیدر نے تاریخ رشیدی میں لکھا ہے کہ پہلے اہل کشمیر تمام حنفی المذہب تھے۔ لیکن فتح شاہ کے زمانہ میں عراق سے ایک شخص جس کا نام شمس الدین تھا۔ کشمیر آیا اور اپنے آپ کو میر محمد نور بخش کی طرف منسوب کر کے لوگوں کو مذہب نوربخشیہ کی دعوت دینے لگا۔ یہ مذہب کفر وزندقہ سے ہمکنار ہے۔ اس کے پیر وروافض کی طرح خلفائے ثلاثہ اور ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ کو گالیاں دیتے ہیں ۔ میر سید محمد نور بخش کو صاحب الزمان اور مہدی موعود یقین کرتے ہیں۔ ان لوگوں نے تمام عبادات اور معاملات میں بڑے بڑے تصرفات کئے ہیں۔ حالانکہ میں نے بدخشان وغیرہ مقامات میں جن نور بخشیوں کو دیکھا تھا وہ شریعت ظاہری سے آراستہ اور سنن نبویہ سے پیراستہ تھے۔ وہ لوگ ہر بات میں اہل سنت و جماعت سے متفق تھے۔
مرزا حید ر لکھتے ہیں کہ میر سید محمد نور بخش کی اولاد میں سے ایک شخص نے ان کا ایک رسالہ بھی مجھے دکھایا تھا۔ اس میں بعض باتیں خوب لکھی تھیں۔ مثلا یہ کہ سلاطین، امراء اور جہال کا گمان ہے کہ ظاہری سلطنت طہارت و تقوی کے ساتھ جمع نہیں ہو سکتی ۔ محض غلط ہے کیونکہ اعظم انبیاء ورسل منصب نبوت کے ساتھ بر سر حکومت تھے۔ اسی طرح حضرت یوسف ، سلیمان اور داؤد علیہم السلام بھی فرمانروا تھے شمس الدین مذکور نے نور بخشی مذہب میں تصرفات کر کے اپنے مذہب کی جو کتاب کشمیر میں رائج کی۔ اس کو ( یا احوطہ) کہتے تھے۔ میں نے یہ کتاب بغرض تنقید کشمیر سے ہندوستان بھیجی۔ علمائے ہند نے اس کتاب کی نسبت یہ رائے ظاہر کی کہ اس کتاب کا مصنف باطل مذہب کا پیرو اور سنت مطہرہ سے دور ہے۔ اسے فرقہ حقہ اہل سنت و جماعت سے کوئی واسطہ نہیں اور اس کا یہ دعوی :
" ان الله امرنى ان ارفع الاختلاف من بين هذه الامة أولا في الفروع سنن الشريعة المحمدية كما كانت في زمانه من غير زيادة ونقصان وثانيا في الأصول من بين الاسم وكافة أهل العلم باليقين "
خدا نے مجھے حکم دیا ہے کہ امت کے اختلاف منادوں۔
بالکل جھوٹا ہے اس کتاب کا مؤلف زندقہ کی طرف مائل ہے۔ جن لوگوں کو قدرت ہو ان پر لازم ہے کہ اس کتاب کو تلف کر دیں اور اس کے پیروؤں کو اس مذہب باطل سے ہٹا کر حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کے مذہب حق کی متابعت پر مائل کریں۔ 2
مرزا حید ر لکھتے ہیں کہ جب یہ فتوی میرے پاس کشمیر پہنچا اور میں نے اس کا اعلان کیا تو بہت سے نور بخشی تائب ہو کر حنفی مذہب میں داخل ہو گئے اور بعض تصوف کا لبادہ اوڑھ کر صوفی کہلانے لگے۔ حالانکہ وہ قطعا صوفی نہیں بلکہ ملحد اور زندیق ہیں۔ جن کا کام لوگوں کے متاع ایمان پر ڈاکہ ڈالنا ہے۔انہیں حلال اور حرام کی کوئی تمیز نہیں۔ انہوں نے شب بیداری اور کم خواری کو تقوی طہارت سمجھ رکھا ہے۔ کرامات کی لاف زنی کرتے ہیں۔ غیب کی جھوٹی خبر یں بتایا کرتے ہیں کہ اس سال یوں ہوگا اور فلاں سال یہ ہوگا۔ ایک دوسرے کو سجدہ کرتے ہیں اور باوجود اس رسوائی کےچلے کھینچتے ہیں۔ علوم شریعت کو نہایت مذموم و مکروہ خیال کرتے ہیں۔ انہوں نے شریعت سے الگ ہو کر اپنی خانہ زاد طریقت کی راہ اختیار کر رکھی ہے اور کہتے ہیں کہ اہل طریقت کو شریعت سے کیا سرو کار؟ ان کی طریقت کو شریعت سے کوئی واسطہ نہیں۔ ان کا عقیدہ ہے کہ نور کا وجود آفتاب سے وابستہ ہے اور آفتاب ہماری صفائی واقعی عقیدہ سے قائم ہے اور ہمارا وجود اس کی نورانیت کا مرہون منت ہے۔ اگر ہم اپنی صفائی عقیدہ کو مکدر کر دیں تو آفتاب بھی نابود ہو جائے اور اگر آفتاب ہم پر فیض رسا نہ ہو تو وہ بھی قصر عدم میں جاپڑے۔ غرض جس طرح ہم اس کے ساتھ موجود ہیں اس طرح ہمارے بغیر اس کا وجود بھی محال ہے۔ چونکہ اس پر دن کے وقت ہمارے احوال روشن ہیں۔ ہمیں صلاح وخوبی کے سوا کوئی اور کام نہ کرنا چاہئے۔ البتہ جب رات آ کر تاریکی کی ساه چا ور تان دیتی ہے تو وہ ہمیں نہیں دیکھتا اور ہمارے احوال پر مطلع نہیں ہوسکتا۔ اس لئے رات کی تاریکی میں جو کچھ بھی کر لیں اس پر کچھ مواخذہ نہیں۔ غرض یہ فرقہ سخت گمراہ ہے۔ ایسے زنادقہ و ملاحدہ کسی اور جگہ نہ دیکھے گئے ہوں گے۔3
سید محمد نور بخش صاحب تصانیف تھے۔ غیر مسلموں کو ان کی تصنیفات سے کسی قدر شغف تھا۔ اس کا اندازہ اس امر سے ہو سکتا ہے کہ پارسیوں کا مذہبی پیشوا شیدوش مؤبد جب 1040 ھ میں کشمیر میں مرا ہے تو حالت نزع میں اس نے میر نور بخش کے یہ اشعار پڑھنے شروع گئے۔ جس کے آخری مصرعہ پر اس کا دم نکل گیا۔
کیے قطره ام از محیط وجود
اگر چند داریم کشف دستور
من از قطرہ کے گشت ام بس نفور
خدایا رسانم به دریائے نور