ابو العباس احمد بن عبدالله عباس سلجماسی مغربی معروف بہ ابن ابی محلی مہدویت کا مدعی تھا۔ ۹۶۷ھ میں بمقام سلجما سہ جو ملک مغرب میں ہے پیدا ہوا۔ عنفوان شباب میں فاس گیا اور ابو القاسم بن قاسم بن قاضی اور ابو العباس احمد قدومی اور سید محمد بن عبد الله تلمسانی ابو مجیر، ابومحمد شقرون تلمسانی اور دوسرے علماء سے اکتساب علوم کرتا رہا۔ وہاں سے مشرق کا سفر کیا۔ حج کر کے مصر گیا اور سنہوری لقانی طنانی، طہ بجیری اور دوسرے علمائے مصر سے علمی فیوض حاصل کئے ۔ اس کے بعد اس نے حضرت مہدی منتظر کے ظہور کے متعلق ایک کتاب لکھی جس میں ان کے اوصاف اور علامات درج کئے ۔ گو اس میں ضعیف روایتوں کی بھر مار تھی ۔ تا ہم کتاب من حیث المجموع مفید ثابت ہوئی ۔ یہ تالیف گو یا دعوائے مہدویت کی تمہید تھی۔ آخر ۳۱ ۱۰ ھ میں دعوائے مہدویت کر دیا۔ ہزار ہا لوگوں نے اس کی متابعت کی۔ اس شخص کی عادت تھی کہ روسائے قبائل و عمائد بلاد کی طرف خطوط بھیج بھیج کر ان کو نیکیوں اور سنت پر عمل پیرا ہونے کی ترغیب دیتا اور خط کے اخیر میں لکھ دیتا کہ میں وہی مہدی منتظر ہوں جس کے ظہور کی حضرت مخبر صادق نے پیش گوئی کی تھی جو شخص میری متابعت کرے گا وہ مفلح اور کامگار ہوگا اور جو کوئی تخلف کرے گا وہ قعرہلاک میں جا پڑے گا۔ یہ شخص اپنے حاشیہ نشینوں سے کہا کرتا تھا کہ تم لوگ پیغمبر خدا ﷺ کے اصحاب سے افضل ہو۔ کیونکہ تم ایک باطل زمانہ میں نصرت حق کے لئے کھڑے ہوئے ہو اور صحابہ کرام زمن حق میں کھڑے ہوئے تھے۔ جب اس کے پیروؤں کی تعداد بڑھ گئی تو اس نے امر معروف اور نہی اور منکر کا وعظ شروع کیا۔ اس کے ساتھ مریدوں کو ملک گیری کی ترغیب دیتا رہا۔ اس کے بعد اس نے ان مسلمانوں کو ستانا شروع کیا جو اس کی پیروی سے احتراز کرتے تھے۔ بہتوں کو لوٹا اور اکثر کو جلا وطن کر دیا۔ جب کوئی کہتا کہ حسب ارشاد نبوی مسلمان وہ ہے کہ جس کے ہاتھ اور زبان سے مسلمان سلامت رہیں تو کہتا کہ میرا غیظ و غضب محض اللہ کے لئے ہے۔
ان ایام میں مراکش کی سرزمین سلطان زیدان کے زیرنگین تھی۔ جب زیدان کے عامل حاج میر نے اس کی روز افزوں چیرہ دستیاں دیکھیں تو چار ہزار کی جمعیت کے ساتھ اس کی سرکوبی کے لئے نکلا۔ ابن ابی محلی اس کے مقابلہ میں صرف چار سو مریدوں کو لے کر آیا۔ لڑائی ہوئی جس میں حاج میر کو ہزیمت ہوئی ۔ لوگوں میں یہ مشہور ہو گیا کہ ابن ابی محلی کے پیروؤں پر ہتھیار اثر نہیں کرتے ۔ غرض دلوں پر اس کا رعب چھا گیا۔ اس فتح کے بعد اس نے بلا مزاحمت سلجما سہ پر قبضہ کر لیا۔ وہاں ہر طرح سے عدل و انصاف کا شیوہ اختیار کیا اور مظلوموں کی دادرسی کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ رعایا اس کو بہت چاہنے لگی اور اہل تلمسان اور راشد یہ کے وفد اس کو مبارک باد دینے آئے ۔ ان دنوں میں فقیہ علامہ ابو عثمان سعید جزائری معروف به قدوره شارح مسلم بھی تھے۔ جب سلطان زید ان کو اس ہزیمت کا علم ہوا تو اس نے اپنے بھائی عبداللہ بن منصور معروف بہ زندہ کو فوج دے کر اس کی سرکوبی کے لئے روانہ کیا۔ درعہ کے مقام پر دونوں لشکروں کی مڈ بھیٹر ہوئی۔ عبداللہ بن منصور کو شکست ہوئی اور اس کی فوج کے تین ہزار آدمی مارے گئے۔ اس فتح کے بعد ابن ابی محلی کی شوکت ثریا سے باتیں کرنے لگی۔ جب سلطان زیدان کے سپہ سالار یونس کو اس ہزیمت کی اطلاع ہوئی تو وہ سلطان سے منقطع ہو کر ایک بڑی جمعیت کے ساتھ ابن ابی محلی کے پاس چلا آیا اور اس کو سلطان کے اسرار وخفایا سے مطلع کر کے کہا کہ تم زیدان پر چڑھائی کرو۔ اس کا مغلوب کر لینا کچھ بھی مشکل نہیں ہے۔ چنانچہ ابن ابی محلی لاؤ لشکر لے کر مراکش پر چڑھ گیا۔ سلطان زیدان ایک لشکر جرار لے کر مقابلہ پر آیا ۔ پرتگالی نصاری نے سلطان زیدان کی کمک پر بلا طلب ایک دستہ فوج روانہ کیا۔ سلطان کو اس بات کی غیرت آئی کہ مسلمانوں کے مقابلہ میں کفار سے مدد لے۔ سلطان حسن سلوک سے پیش آیا اور پرتگالی قیدیوں کو رہا کر کے ان کو دستہ فوج کے ساتھ واپس بھیج دیا۔ اب لڑائی شروع ہوئی۔ ابن ابی محلی نے اس کو شکست دی اور شہر مراکش میں داخل ہو کر وہاں قابض و متصرف ہو گیا ۔ زیدان جان بچا کر بر العدوة کی طرف بھاگ گیا۔ کچھ عرصہ کے بعد سلطان زیدان ایک مشہور عالم فقیہ ابوز کر یا یحییٰ بن عبد اللہ دادو دمی کے پاس گیا۔ جو کوہ درن میں اپنے والد کی خانقاہ میں مقیم تھے ۔ فقیہ بیٹی کے پیروؤں کی تعداد بھی ہزاروں تک پہنچتی تھی۔ زیدان نے جا کر کہا کہ آپ لوگ میری بیعت میں ہیں۔ ان میں آپ کے پاس اپنی حاجت لے کر آیا ہوں اور وہ یہ ہے کہ دشمن نے مجھے ملک سے بے دخل کر دیا ہے۔ اس کے مقابلہ میں میری مدد کرو ۔ فقیہ ابوز کر یا یحیی نے اس دعوت کو لبیک کہا اور ہر طرف سے فوجیں جمع کرنے لگے۔ جب تیاریاں مکمل ہو چکیں تو ۸ر رمضان ۱۰۲۲ھ کو مراکش کی طرف کوچ کر دیا۔ علامہ ابوزکریا یحیی نے موضع جیلیر مضافات مراکش کے پاس پہنچ کر کوہ مطل پر قیام کیا اور حرب و ضرب کی تیاریاں شروع کیں۔ دوسرے دن لڑائی شروع ہوئی ۔ فقیہ کا لشکر دشمنوں کی صفوں میں گھس پڑا اور جو سامنے آیا اسے خا کر دیا۔غرض نسیم فتح فقیہ کے رایت اقبال پر چلنے گئی۔ ابن ابی محلی کو ہزیمت ہوئی اور وہ میدان جانستان کی نذر ہوا۔ فقیہ ابوز کریا نے حکم دیا کہ اس کا سرکاٹ کر شہر کے صدر دروازہ پر لٹکا دیں۔ معا اس حکم کی تعمیل ہوئی۔ اسی طرح اس کی فوج کے سر بھی کاٹ کاٹ کر شہر کے دروازوں پر لٹکا دیئے گئے ۔ اس کے بعد فقیہ صاحب مراکش کی مملکت سلطان زیدان کے سپرد کر کے واپس چلے آئے۔ ابن ابی محلی اور اس کے ساتھیوں کے سر بارہ برس تک مراکش کے دروازوں پر لٹکے رہے۔ ابن ابی محلی کے پیرو کہتے تھے کہ حضرت مہدی علیہ السلام مقتل نہیں ہوئے۔ بلکہ کچھ عرصہ کے لئے نظروں سے غائب ہوئے ہیں۔
شیخ یوسی کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ ابن ابی محلی اپنے استاد ابن مبارک کے پاس بیٹھا تھا۔اتنے میں اچانک کہنا شروع کیا کہ میں بادشاہ ہوں۔ میں بادشاہ ہوں۔ میں بادشاہ ہوں۔ استاد نے کہا احمد مانا کہ تم بادشاہ ہو جاؤ گے۔ مگر یاد رکھو کہ اس اوج ورفعت کے بعد نہ تو تم زمین کو پھاڑ سکو گے اور نہ پہاڑوں کی بلندی تک پہنچ سکو گے۔ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ابن ابی محلی صوفیوں کی ایک خانقاہ میں گیا اور کہنا شروع کیا کہ میں سلطان ہوں۔ میں سلطان ہوں ۔ ایک صاحب وجد وحال صوفی اس کے جواب میں کہنے لگا تین سال تین سال ۔ چوتھا نہیں۔ چنانچہ وہ تین ہی سال تک بر سر حکومت رہا اور بیان کیا جاتا ہے کہ جب یہ مکہ معظمہ میں بیت اللہ کا طواف کر رہا تھا تو لوگوں نے اس کو یہ کہتے ہوئے سنا۔ الہی اتو نے کہا ہے اور تیر اقول حق ہے۔
وتلك الايام نداولها بين الناس 1
اور ہم ان ایام کو لوگوں میں بدلتے رہتے ہیں ۔
جب یہ حالت ہے تو بار خدایا! تو مجھے لوگوں میں دولت و حکومت دے۔ ابن ابی محلی نے بارگاہ خداوندی سے زوال پذیر حکومت تو مانگی۔ لیکن حسن عاقبت کا سوال نہ کیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ حق تعالی نے اسے دولت سے تو چند روز و سرفرازی بخشی۔ لیکن حسن خاتمہ کا حال معلوم نہیں ۔ ابن ابی محلی صاحب تصانیف تھا۔ اس کی مشہور کتابوں کے نام یہ ہیں۔ (1) منجنیق الصخور في الروعلى اهل الفجور (۲) وضاح(۳) قسطاس (۴) اصلیت - (۵) ہودج (۶) ابو عمر و قسطلی کے رسالہ کا رو۔ وغیر ذالک 2