logoختم نبوت

مہدی ہونے کا دعویدار۔۔۔احمد بن علی محیرثی

یمن کے علاقہ میں ایک قصبہ محیرث ہے۔ وہاں کا رہنے والا تھا۔ مہدویت کا مدعی تھا۔ انتہاء درجہ کا ذکی وذی علم تھا۔ پہلے زیدی تھا۔ پھر حنفی ہو گیا۔ صنعاء (یمن) میں عرصہ تک حنفی مذہب کا قاضی رہا ہے۔ لیکن اخیر عمر میں راہ صدق وصواب سے ہٹ کر مہدی منتظر بن بیٹھا۔ بعض شافعیہ سے منقول ہے کہ احمد بن علی کی غیر معمولی ذکاوت ہی نے اس کی عقل مار دی اور جودت طبع ہی اس کے لئے وبال جان بن گئی۔

چنانچہ اس نے یہ کہنا شروع کیا کہ میں ہی وہ مہدی ہوں جس کے ظہور کی پیغمبر خدا ہے نے پیشین گوئی فرمائی تھی۔ اپنے ایک قصیدہ میں جو سید احمد بن امام قاسم اور اپنے بر ادر زادہ حسین کے نام مرقوم تھا۔ لکھتا ہے۔

من الامام المهدى المرتضى للرشد
الى المليك احمد ثم الحسين الارشد

اور کبھی مہدویت کا دعوئی چھوڑ کر وہ د ا بہ بن بیٹھتا تھا۔ جس کا تذکرہ قرآن حکیم کی اس آیت میں ہے۔

وَ اِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَیْهِمْ اَخْرَجْنَا لَهُمْ دَآبَّةً مِّنَ الْاَرْضِ تُكَلِّمُهُمْ اَنَّ النَّاسَ كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا لَا یُوْقِنُوْنَ1
جب رگوں پر قیامت کا وعدہ (یعنی زمانہ ) قریب آپہنچے گا تو ہم ان کے لئے ایک ( عجیب و غریب) جانور برآمد کریں گے جوان سے ہم کلام ہوگا اور کہے گا کہ (کافر) لوگ حق تعالیٰ کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے تھے۔

شخص شعر و سخن میں بھی اپنا جواب نہ رکھتا تھا۔ اس کے دو شعر ملاحظہ ہوں ۔

قاضي الجمال اتى يجرد ذيوله
كالغصن حركة النسيم الساري
لبس السواد فعاد بدرا في الدجى
لبس البياض فكان شمس النهار

آخر عمر میں مکہ معظمہ چلا گیا اور و ہیں ۱۰۵۰ھ میں موت کے دامن میں منہ چھپا لیا۔2


  • 1 النمل :82/27
  • 2 خلاصتہ الاثر فی اعیان القرآن الحادی عشرج ص:250

Netsol OnlinePowered by