logoختم نبوت

لا مہدی الا عیسی پر شبہ کا ازالہ

ایک حدیث میں آیا ہے کہ :

حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِدْرِيسَ الشَّافِعِيُّ قَالَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدٍ الْجَنَدِيُّ، عَنْ أَبَانَ بْنِ صَالِحٍ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «لَا يَزْدَادُ الْأَمْرُ إِلَّا شِدَّةً، وَلَا الدُّنْيَا إِلَّا إِدْبَارًا، وَلَا النَّاسُ إِلَّا شُحًّا، وَلَا تَقُومُ السَّاعَةُ إِلَّا عَلَى شِرَارِ النَّاسِ، وَلَا الْمَهْدِيُّ إِلَّا عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : معاملہ میں شدت بڑھتی جائے گی اور دنیا میں اوبار( افلاس اور اخلاق رذیلہ) بڑھتا ہی جائے گا ، لوگ بخیل سے بخیل تر ہوئے جائیں گے اور قیامت انسانیت کے بدترین افراد پر قائم ہوگی ، مہدی نہیں ہونگے مگر مریم کے بیٹے عیسیٰ ( علیہ اسلام )۔1

شبہہ :

اس حدیث سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ مہدی اور عیسی دونوں ایک ہی شخص ہیں؟

جواب:1

یہ ہے کہ اول تو یہ حدیث صحیح نہیں محد ثین کے نزدیک یہ حدیث ضعیف اور غیر مستند ہے۔

روایت " لامھدی الا عیسیٰ " کے بارے میں ائمہ حدیث کی آراء:

شارح مشکوۃ ملا علی القاری رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں :۔

" ثُمَّ اعْلَمْ أَنَّ حَدِيثَ: لَا مَهْدِيَّ إِلَّا عِيسَى بْنُ مَرْيَمَ ضَعِيفٌ بِاتِّفَاقِ الْمُحَدِّثِينَ "
جان لو کہ " لا مھدی الا عیسیٰ " والی حدیث کے ضعیف ہونے پر تمام محدثین کا اتفاق ہے ۔2

امام شمش الدین ذھبی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں :۔

" لا مهدي إلا عيسى ابن مريم، وهو خبر منكر أخرجه ابن ماجة " 3
یہ روایت منکر ہے جسے ابن ماجہ نے روایت کیا ہے ۔

علامہ محمد عبدالعزیز فرھاری رحمتہ اللہ علیہ

یہ بیان کرتے ہوئے کہ احادیث متواترہ میں یہ بات آئی ہے کہ مہدی اہل بیت میں سے ہوں گے اور وہ زمین میں حکمرانی بھی کریں گے اور ان کی ملاقات عیسیٰ علیہ اسلام سے ہوگی ۔ آگے بیان کرتے ہیں کہ ان متواترہ روایات کے خلاف اگر کوئی روایت ہے تو وہ صحیح نہیں ، اور انہی روایات میں سے " لا مھدی الا عیسیٰ " والی روایت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :۔

" و كذا ما قِیل انه عیسیٰ علیه اسلام بن مریم مستدلاََ بحدیث لا مهدي الا عیسي بن مریم لان الحدیث لایصح " 4
اسی طرح جو یہ کہا جاتا ہے کہ مہدی تو حضرت عیسیٰ بن مریم ہی ہیں اور دلیل میں یہ حدیث پیش کی جاتی ہے کہ نہیں مہدی مگر عیسیٰ بن مریم ( تو یہ استدلال صحیح نہیں ) کیونکہ یہ حدیث صحیح نہیں ۔

اس روایت کی سند :

اس روایت میں ایک راوی ہے " مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدٍ الْجَنَدِيُّ الصنعانی "

اس کے بارے میں امام ذہبی رحمتہ اللہ علیہ اپنی کتاب " تاریخ الاسلام " میں لکھتے ہیں ۔

قال أبو الفتح الأزدي: منكر الحديث. وقال الحاكم: مجهول. قلت: هو صاحب ذاك الحديث المنكر: "لا مهديّ إلا عيسى ابن مريم "5
ابو الفتح ازدی کہتے ہیں: یہ منکر الحدیث ہے ( یعنی منکر حدیثیں روایت کیا کرتا تھا ) امام حاکم رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں : یہ مجہول ہے ، میں کہتا ہوں ( یعنی امام ذہبی رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں ) کہ اسی راوی نے یہ منکر حدیث روایت کی ہے لا مہدی الا عیسیٰ ۔

امام جرح و تعدیل حافظ جمال الدین مزی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں ۔

" وَقَال الحافظ أبو بكر البيهقي: هذا حديث تفرد به محمد ابن خالد الجندي، قال أبو عبد الله الحافظ : ومُحَمَّد بن خالد رجل مجهول، واختلفوا عليه في إسناده"6
امام بیہقی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ یہ حدیث ( یعنی لامہدی الا عیسیٰ ) صرف محمد بن خالد جندی نے روایت کی ہے ، ابو عبداللہ الحافظ ( یعنی امام حاکم رحمتہ اللہ علیہ ) نے فرمایا کہ : محمد بن خالد ایک مجہول شخص ہے ، نیز اس روایت کی سند میں اختلاف بھی ہے ( جس راوی سے محمد بن خالد نے اس حدیث کو روایت کیا ہے اسکا نام ابان بن صالح ہے اور کہیں ابان بن ابی عیاش ہے ۔ناقل ) ۔ ؎

پھر آگے لکھتے ہیں:

" قال البيهقي: فرجع الحديث إلى رواية مُحَمَّد بن خالد الجندي، وهو مجهول، عن أبان بن أَبي عياش وهو متروك۔۔۔۔۔والأحاديث في التنصيص على خروج المهدي أصح إسنادا. وفيها بيان كونه من عترة النبي صَلَّى اللَّهُ عليه وسلم."7
امام بیہقی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں : یہ حدیث محمد بن خالد جندی کی طرف لوٹتی ہے اور وہ مجہول راوی ہے اور ( ایک روایت میں ۔ ناقل ) وہ ابان بن ابی عیاش سے روایت کرتا ہے جو کہ متروک راوی ہے ۔۔۔۔ آگے لکھتے ہیں ۔۔۔۔ وہ احادیث جن کے اندر خروج مہدی کا ذکر ہے ان کی سندیں زیادہ صحیح ہیں اور ان ( صحیح روایت ۔ناقل ) میں یہ بیان ہوا ہے کہ مہدی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عترت سے ہوں گے ۔

حافظ ابن حجر عسقلانی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں:

" محمد ابن خالد الجندي بفتح الجيم والنون المؤذن مجهول " 8
محمد بن خالد جندی جیم اور نون پر زبر کے ساتھ ، جنہیں مؤذن کہا جاتا ہے ، یہ مجہول ہے ۔

امام ابن جوزی رحمتہ اللہ علیہ اس روایت کے بارے میں لکھتے ہیں:محمد بن خالد جندی جیم اور نون پر زبر کے ساتھ ، جنہیں مؤذن کہا جاتا ہے ، یہ مجہول ہے ۔

" قال أَبُو عَبْد الرَّحْمَن أَحْمَد بْن شعيب النسائي هَذَا حديث منكر وقال البيهقي تفرد بهذا الحديث مُحَمَّد بْن خَالِد الجندي قال: قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْحَاكِمُ مُحَمَّد بْن خَالِد رَجُل مجهول "9
امام نسائی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ یہ حدیث منکر ہے ، امام بیہقی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ : یہ حدیث صرف محمد بن خالد جندی نے بیان کی ہے ، اور امام حاکم رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ " محمد بن خالد ایک مجہول شخص ہے ۔

جواب:2

یہ کہ یہ حدیث ان بے شمار احادیث صحیحہ اور متواترہ کے خلاف ہے جن سے حضرت عیسٰی علیہ السلام اور حضرت مہدی کا دو الگ الگ شخص ہونا آفتاب کی طرح واضح ہے۔

اور اگر اس حدیث کو تھوڑی دیر کے لئے صحیح تسلیم کر بھی لیا جائے تو یہ کہا جائے گا کہ حدیث کے معنی یہ ہیں کہ اس وقت حضرت عیسی علیہ السلام سے بڑھ کر ۔ کوئی شخص ہدایت یافتہ نہ ہوگا، کیونکہ حضرت عیسٰی علیہ السلام نبی مرسل ہوں گے اور حضرت مہدی خلیفہ راشد ہوں گے نبی نہ ہوں گے اور ظاہر ہے کہ غیر نبی کی ہدایت نبی اور رسول کی ہدایت سے افضل اور اکمل نہیں ہو سکے گی۔ اس لئے کہ نبی کی ہدایت معصوم عن الخطا ہوتی ہے اور عصمت خاصہ انبیاء کا ہے جبکہ اولیاء محفوظ ہوتے ہیں۔ جیسے حدیث میں ہے:

لافتی الاعلی“ اس کا یہ مفہوم بیان کیا جاتا ہے کوئی جوان شجاعت میں علی کرم اللہ وجہہ کے برابر نہیں ۔“

یہ معنی نہیں کہ دنیا میں سوائے علی کے کوئی جو ان نہیں۔ اسی طرح اس حدیث کے یہ معنی ہوں گے کہ کوئی مہدی اور کوئی ہدایت یافتہ عصمت و فضیلت اور علو منزلت میں عیسیٰ علیہ السلام کے برابر نہیں۔ 2

قال المناوي في اخبار المهدى لا يعارضها خبر لا مهدى الا عيسى بن مريم لان المرادبه كما قال القرطبي لا مهدى كاملا معصوما الا عيسى (كذافي)10
قال القرطبي ويحتمل ان يكون قوله عليه السلام ولا مهدى الا عيسى اى لا مهدى كاملاً معصوماً الا عيسى قال و على هذا تجتمع الاحاديث ويرفع التعارض وقال ابن كثير هذا الحديث فيما يظهر لي بيادى الراى مخالف للاحايث الواردة في اثبات مهدی غیر عیسى بن مريم و عند التامل لا ينا فيها بل يكون المراد من ذلك ان المهدى حق المهدى هو عيسى ولا ينفى ذلك ان يكون غيره مهديا ايضاً. انتهى 11

امام ربانی شیخ مجدد الف ثانی اپنے ایک طویل مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں جس کا بلفظہ ترجمہ ہدیہ ناظرین ہے:

قیامت کے علامتیں جن کی نسبت مخبر صادق علیہ الصلوۃ والسلام نے خبر دی ہے، سب حق ہیں۔ ان میں کسی قسم کا اختلاف نہیں۔ یعنی آفتاب کا عادت کے بر خلاف مغرب کی طرف سے طلوع ہونا، حضرت مہدی علیہ الرضوان کی آمد حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کا آسمان سے نزول ہونا، خروج دجال اور یا جوج و ماجوج کا نکلنا ، دابۃ الارض کا نکلنا اور دھواں جو آسمان سے پیدا ہو گا وہ تمام لوگوں کو گھیر لے گا اور درد ناک عذاب دے گا اور لوگ بے قرار ہو کر کہیں گے، اے ہمارے پروردگار! اس عذاب سے ہم کو دور کر ہم ایمان لائے اور اخیر کی علامت وہ آگ ہے، جو عدن سے نکلے گی، بعض نادان گمان کرتے ہیں کہ جس شخص نے اہل ہند میں سے مہدی ہونے کا دعوی کیا تھا ، وہی مہدی موعود ہوا ہے پس ان کے گمان میں مہدی گزر چکا ہے اور فوت ہو گیا ہے اور اس کی قبر کا پتہ دیتے ہیں کہ فراء میں ہے، اس کے برخلاف احادیث صحیحہ جو حد شہرت بلکہ حد تواتر تک پہنچ چکی ہیں ان لوگوں کی تکذیب کرتی ہیں۔ کیونکہ آنحضرت ﷺ نے جو علامتیں حضرت مہدی کی بیان فرمائی ہیں، ان لوگوں کے معتقد شخص کے حق میں مفقود ہیں۔ احادیث نبوی میں آیا ہے کہ مہدی موعود آئیں گے ان کے سر پر ابر ہوگا، اس ابر میں ایک فرشتہ ہوگا جو پکار کر کہے گا، یہ شخص مہدی ہے، اس کی متابعت کرو۔ نیز رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ: "تمام زمین کے مالک چار شخص ہوئے ہیں، جن میں سے دو مومن ہیں اور دو کافر۔ ذوالقرنین اور سلیمان مؤمنون میں سے ہیں اور نمرود و بخت نصر کافروں میں سے، اس زمین کا پانچواں مالک میرے اہل بیت میں سے ایک شخص ہوگا۔ یعنی حضرت مہدی علیہ الرضوان نیز رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ: " دنیا فانی نہ ہوگی جب تک اللہ تعالی میرے اہل بیت میں سے ایک شخص کو معبوث نہ فرمائے گا، اس کا نام میرے نام کے موافق اور اس کے باپ کا نام میرے باپ کے نام کے موافق ہوگا۔ زمین کو جور و ظلم کی بجائے عدل و انصاف سے پر کر دے گا اور حدیث میں آیا ہے کہ: "اصحاب کہف حضرت مہدی کے مددگار ہوں گے اور حضرت عیسی علیہ السلام ان کے زمانہ میں نزول فرمائیں گے اور حضرت مہدی علیہ الرضوان دجال کے قتل کرنے میں حضرت عیسی علیہ السلام کے ساتھ موافقت کریں گے اور حضرت مہدی علیہ الرضوان کی سلطنت کے زمانہ میں زمانہ کی عادت اور نجومیوں کے حساب کے بر خلاف ماہ رمضان کی چودھویں تاریخ کو سورج گرہن اور اول ماہ میں چاند گرہن لگے گا۔ نظر انصاف سے دیکھنا چاہئے کہ یہ علامتیں اس مردہ شخص میں موجود تھیں یا نہیں، ان کے علاوہ اور بھی بہت کی علامتیں ہیں جو مخبر صادق علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمائیں ہیں۔علامہ ابن حجر نے مہدی منتظر کی علامات میں ایک رسالہ لکھا ہے، جس میں دو سو تک علامتیں لکھی ہیں۔ بڑی نادانی اور جہالت کی بات یہ ہے کہ مہدی موعود کا حال واضح ہونے کے باوجود لوگ گمراہ ہو ر ہے ہیں۔12

خلاصہ کلام یہ ہے کہ اولا تو آپ کی روایت کردہ حدیث محل استدلال نہیں کیونکہ ائمہ حدیث نے اس پر شدید کلام کیا ہے ،ثانیا اگر مان بھی لیا جائے تو اس حدیث کا مفہوم وہ نہیں ہے بلکہ حدیث کمال پر محمول ہے ۔


  • 1 سنن ابن ماجہ ، حدیث : 4039
  • 2 مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح ، ج: 10 ص:101
  • 2 العرف الوردي،ج:2،ص:85
  • 3 ميزان الاعتدال ج: 3 ص: 535
  • 4 النبراس شرح شرح العقائد ، ص: 667
  • 5 تاريخ الإسلام للذھبی ، ج:4 ص:1193
  • 6 تہذیب الکمال ، ج:25 ص: 149
  • 7 تہذیب الکمال ، ج: 25 ص: 150
  • 8 تقريب التهذيب ، ص: 476
  • 9 العلل المتناهية في الأحاديث الواهية ، ج:2 ص: 380
  • 10 فيض القدير ،ج:2،ص:279
  • 11 العرف الوردي،ج:2،ص:46
  • 12 مکتوبات ،ص:220،دفتر دوم ،مکتوب نمبر 67

Netsol OnlinePowered by