امام مہدی کے بارے میں درج ذیل باتیں ہمیں احادیث سے معلوم ہویئں۔اب اسی کے اوپر مرزا صاحب کو پرکھ لیتے ہیں۔
1) امام مہدی کا نام محمد ہوگا۔ جبکہ مرزا صاحب کا نام غلام احمد تھا۔
2) امام مہدی کے والد کا نام عبداللہ ہوگا۔ جبکہ مرزا صاحب کے والد کا نام غلام مرتضی تھا۔
3) امام مہدی سادات میں سے ہوں گے ۔ جبکہ مرزا صاحب کا خاندان "مغل" تھا۔
4) امام مہدی بیت اللہ کا طواف کر رہے ہوں گے جب ان کو پہچان کر ان کی بیعت کی جائے گی۔جبکہ مرزا صاحب ساری زندگی مکہ مکرمہ نہیں جاسکے۔
5) امام مہدی حاکم(بادشاہ) ہوں گے ۔ جبکہ مرزا صاحب غلام تھے۔
6) امام مہدی زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے۔جبکہ مرزا صاحب کو تو حکومت ہی نصیب نہیں ہوئی۔
7) امام مہدی کی حکومت 7 یا 9 سال ہوگی۔جبکہ مرزا صاحب کو تو حکومت ہی نصیب نہیں ہوئی۔
8) امام مہدی کے وقت میں سیدنا عیسیؑ علیہ السلام کا آسمان سے نزول ہوگا۔جبکہ مرزا صاحب کے دور میں عیسیؑ آسمان سے نازل نہیں ہوئے۔
جب مرزا صاحب سے اس بارے میں سوال کیا گیا کہ آپ تو کہتے ہیں کہ آپ امام مہدی ہیں،حالانکہ جس مہدی کے آنے کا حدیث میں ذکر ملتا ہے۔ان کا نام محمد ہوگا،ان کے والد کا نام عبداللہ ہوگا،وہ سادات میں سے ہوں گے جبکہ آپ کے اندر تو اس بارے میں کوئی نشانی نہیں پائی جاتی۔تو مرزا صاحب نے جو جواب دیا وہ پڑھیں۔
"میرا یہ دعوی نہیں کہ میں وہ مہدی ہوں جو مصداق من ولد فاطمة ومن عترتی وغیرہ ہے۔ بلکہ میرا دعوی تو مسیح موعود ہونے کا ہے۔ اور مسیح موعود کے لئے کسی محدث کا قول نہیں کہ وہ بنی فاطمہ وغیرہ سے ہوگا۔ہاں ساتھ اس کے جیسا کہ تمام محدثین کہتے ہیں میں بھی کہتا ہوں کہ مہدی موعود کے بارے میں جس قدر حدیثیں ہیں تمام مجروح اور مخدوش ہیں۔اور ایک بھی ان میں سے صحیح نہیں۔اور جس قدر افترا ان حدیثوں میں ہوا ہے کسی اور حدیث میں ایسا افترا نہیں ہوا۔"
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 185 مندرجہ روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 356)
لیجیے اس جائزے اور مرزا صاحب کی تشریح سے پتہ چلا کہ جس امام مہدی کے قرب قیامت آنے کی خبر احادیث میں دی گئی ہے۔ مرزا صاحب کا دعوی اس مہدی ہونے کا نہیں ہے۔پتہ چلا کہ مرزا صاحب اپنے دعوی مہدویت میں احادیث کی روشنی سے کذاب ہیں۔
مرزا صاحب ایک اور جگہ قلابازی کھاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :
"اگر مجھے قبول نہیں کرتے تو یوں سمجھ لو کہ تمہاری حدیثوں میں لکھا ہے کہ مہدی موعود خلق اور خلق میں ہمرنگ آنحضرتﷺ ہوگا۔اور اس کا اسم آنجناب کے اسم سے مطابق ہوگا۔یعنی اس کا نام بھی محمد اور احمد ہوگا۔اور اس کے اہل بیت میں سے ہوگا۔"
اس کے حاشیے میں مرزا جی لکھتے ہیں کہ :
"یہ بات میرے اجداد کی تاریخ سے ثابت ہے کہ ایک دادی ہماری شریف خاندان سادات سے اور بنی فاطمہ میں سے تھیں۔اس کی تصدیق آنحضرتﷺ نے بھی کی اور خواب میں مجھے فرمایا کہ "سلمان منااھل البیت علی مشرب الحسن" میرا نام سلمان رکھا یعنی دو سلم۔ اور سلم عربی میں صلح کو کہتے ہیں۔یعنی مقدر ہے کہ دو صلح میرے ہاتھ پر ہوں گی۔ایک اندرونی کہ جو اندرونی بغض اور شحنا کو دور کرے گی۔دوسری بیرونی کہ جو بیرونی عداوت کے وجوہ کو پامال کر کے اور اسلام کی عظمت دکھا کر غیر مذہب والوں کو اسلام کی طرف جھکادے گی۔معلوم ہوتا ہے کہ حدیث میں جو سلمان آیا ہے۔ اس سے بھی میں مراد ہوں۔ورنہ اس سلمان پر دو صلح کی پیشگوئی صادق نہیں آتی۔اور میں خدا سے وحی پاکر کہتا ہوں کہ میں بنی فارس میں سے ہوں۔اور بموجب اس حدیث کے جو کنزالعمال میں درج ہے۔بنی فارس بھی بنی اسرائیل اور اہل بیت میں سے ہیں۔اور حضرت فاطمہ نے کشفی حالت میں اپنی ران پرمیرا سر رکھا۔اور مجھے دکھایا کہ میں اس میں سے ہوں۔چنانچہ یہ کشف براہین احمدیہ میں موجود ہے۔"
(ایک غلطی کا ازالہ صفحہ 5 مندرجہ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 212،213)
مرزا صاحب اس جگہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ تمہاری بات مان کر اگر یہ کہا جائے کہ امام مہدی کا نام محمد ہوگا اور وہ سادات میں سے ہوگا۔تو پھر بھی میں مہدی ہوں کیونکہ میری ایک دادی سادات میں سے تھیں۔اور حضرت فاطمہ ؓ نے مجھے خواب میں اپنا بیٹا کہا ہے۔
ماشاء اللہ کیا کہنے کہ جب صاف پتہ چلتا ہے کہ مرزا صاحب مہدی کی بتائی گئی کسی ایک نشانی پر پورے نہیں اترتے تو کس طرح کھینچ تان کر اپنے آپ کو سید ثابت کر دیا حالانکہ ساری دنیا جانتی ہے کہ نسب ماں سے نہیں بلکہ باپ سے چلتا ہے۔
اگر یوں کہا جائے کہ سادات بھی تو حضرت فاطمہ ؓ کی اولاد کو کہا جاتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ صرف حضرت فاطمہ ؓ کی اولاد کو سادات نہیں کہا جاتا بلکہ بنی ہاشم تمام سادات میں داخل ہیں۔جن میں حضرت علی ؓ ،حضرت عباس ؓ،حضرت عقیل ؓ اور حضرت جعفر ؓ کی اولاد شامل ہیں۔
اب اگر مرزا جی کو بالفرض سادات میں سے تسلیم کر بھی لیا جائے تو مرزا صاحب پھر بھی مہدی ثابت نہیں ہوتے کیونکہ مرزا صاحب کا نام غلام احمد تھا اور مہدی کا نام محمد ہوگا۔جیسا کہ خود بھی مرزا صاحب نے تسلیم کیا ہے۔ }}لیجئے اس جائزے سے ثابت ہوا کہ مرزا صاحب نے جھوٹ کا سہارا لے کر جو مہدی بننے کی ناکام کوشش کی ہے مرزا صاحب اس میں بھی ناکام رہے کیونکہ مرزا صاحب نا تو سید ہیں اور ہی مرزا صاحب کا نام محمد ہے۔ اور نہ ہی والد کا نام عبداللہ ہے۔اور نہ ہی مرزا صاحب کبھی مکہ مکرمہ جاسکے ہیں۔
پہلے جائزے کے مطابق مرزا صاحب اس امام مہدی ہونے سے انکاری تھے جن کا ذکر احادیث میں آیا ہے۔اور دوسرے جائزے کے مطابق مرزا صاحب اسی امام مہدی ہونے کے دعوے دار ہیں جن کا ذکر احادیث میں آیا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مرزا صاحب کی کون سی بات سچ تسلیم کی جائے؟
اور قانون یہ ہے کہ نبی جھوٹ نہیں بولتا اور جھوٹا شخص نبی نہیں ہوسکتا۔
مرزا صاحب کی کچھ تحریرات کے مطابق امام مہدی کے بارے میں جتنی بھی احادیث ہیں وہ سب جھوٹی،ضعیف ہیں۔چند حوالہ جات ملاحظہ فرمائیں۔
مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ :
"میں بھی کہتا ہوں کہ مہدی موعود کے بارے میں جس قدر حدیثیں ہیں تمام مجروح و مخدوش ہیں اور ایک بھی اُن میں سے صحیح نہیں۔اور جسقدر افتراء اُن حدیثوں میں ہوا ہے کسی اور میں ایسا نہیں ہوا۔"
(ضمیمہ براہین احمدیہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 356)
مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ :
"مہدی کی حدیثوں کا یہ حال ہے کہ کوئی بھی جرح سے خالی نہیں اور کسی کو صحیح حدیث نہیں کہہ سکتے۔"
(حاشیہ حقیقتہ الوحی، روحانی خزائن جلد 22، صفحہ 217)
مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ:
"اہل سنت کا مذہب ہے کہ امام مہدی فوت ہو گئے ہیں اور آخری زمانہ میں انہیں کے نام پر ایک اور امام پیدا ہوگا،لیکن محققین کے نزدیک مہدی کا آنا کوئی یقینی امر نہیں ہے۔"
(ازالہ اوہام ،حصہ دوم ،ص 457،روحانی خزائین جلد 3 صفحہ 344 )
مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ:
"اور سچ یہ ہے کہ بنی فاطمہ سے کوئی مہدی آنے والا نہیں۔اور ایسی تمام حدیثین موضوع اور بے اصل اور بناوٹی ہیں۔"
(کشف الغطا 12 ، روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 193)
مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ:
"مسلمانوں کے قدیم فرقوں کو ایک ایسے مہدی کا انتظار ہے جو فاطمہ مادر حسین کی اولاد میں سے ہوگا اور نیز ایسے مسیح کا بھی انتظار ہے جو اس مہدی سے مِلکر مخالفانِ اسلام سے لڑائیاں کرے گا مگر میں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ یہ سب خیالات لغو اور باطل اور جھوٹ ہیں۔"
(کشف الغطاء، روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 193)
مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ :
"میں کہتا ہوں کہ مہدی کی خبریں ضعف سے خالی نہیں ہیں کیونکہ امامین(بخاری و مسلم) نے ان کو نہیں لیا۔"
(ازالہ اوہام،مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 406)
مرزا صاحب کی ان تحریرات سے پتہ چلا کہ امام مہدی کے بارے میں جتنی بھی روایات ہیں وہ ضعیف ہیں اور باطل ہیں۔
اب مرزا صاحب کی چند مزید تحریرات ملاحظہ فرمائیں جن میں مرزا صاحب انہی روایات کو صحیح قرار دیتے ہیں۔اور خود کو امام مہدی انہیں روایات کی وجہ سے کہتے ہیں۔
مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ :
"وہ آخری مہدی جو تنزل اسلام کے وقت اور گمراہی پھیلنے کے زمانہ میں براہ راست خدا سے ہدایت پانے والا اُس آسمانی مائدہ کو نئے سرے انسانوں کے آگے پیش کرنے والا تقدیر الٰہی میں مقرر کیا گیا تھا جس کی بشارت آج سے تیرہ سو برس پہلے رسول کریمﷺ نے دی تھی وہ میں ہی ہوں۔"
(تذکرۃ الشہادتین، صفحہ 2، روحانی خزائن جلد 20، صفحہ 3 تا 4)
مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ :
"میں خدا سے وحی پا کر کہتا ہوں کہ میں بنی فارس میں سے ہوں اور بموجب اس حدیث کےجو کنزالعمال میں درج ہے بنی فارس بھی بنی اسرائیل اور اہل بیت میں سے ہیں اور حضرت فاطمہ نے کشفی حالت میں اپنی ران پرمیرا سر رکھا۔اور مجھے دکھایا کہ میں اس میں سے ہوں۔"
(ایک غلطی کا ازالہ صفحہ 5، روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 213)
مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ :
"اور بموجب حدیث لو کان الایمان عند الثریا لنا لہ رجال او رجل من ھٰولاء ای من فارس دیکھو بخاری صفحہ 727۔رجل فارسی کا جائے ظہور بھی یہ مشرق ہے۔اور ہم ثابت کر چکے ہیں کہ وہی رجل فارسی مہدی ہے اس لیے ماننا پڑا کہ مسیح موعود اور مہدی اور دجال تینوں مشرق میں ہی ظاہر ہوں گے اور وہ ملک ہند ہے۔"
(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد 17، صفحہ 167)
مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ :
"دوسری گواہی اس حدیث (ان لمھدینا آیتین) کی صحیح اور مرفوع متصل ہونے پر آیت "فلا یظھر علی غیبہ احد ا الا من ارتضی من رسول" میں ہے کیونکہ یہ آیت علم غیب صحیح اور صاف کا رسولوں پر حصر کرتی ہے جس سے بالضرورت متعین ہوتا ہے کہ "ان لمھدینا" کی حدیث بلاشبہ رسول اللہ ﷺ کی حدیث ہے۔"
(حاشیہ تحفہ گولڑویہ ، روحانی خزائن جلد 17، صفحہ 135)
مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ :
"اگر حدیث کے بیان پر اعتبار ہے تو پہلے ان حدیثوں پر عمل کرنا چاہیے جو صحت اور وثوق میں اس حدیث پر کئی درجہ بڑھی ہوئی ہیں۔مثلا صحیح بخاری کی وہ حدیثیں جن میں آخری زمانوں میں بعض خلیفوں کی نسبت خبر دی گئی ہے۔خاص کر وہ خلیفہ جس کی نسبت بخاری میں لکھا ہے کہ آسمان سے اس کے لئے آواز آئے گی "ھذا خلیفتہ اللہ المھدی" اب سوچو یہ حدیث کس پائے اور مرتبے کی ہے۔جو ایسی کتاب میں درج ہے جو اصح الکتب بعد کتاب اللہ ہے۔"
(شہادت القرآن ، مندرجہ روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 337)
غور کریں کہ مرزا صاحب پہلے کہتے ہیں کہ امام مہدی کے بارے میں حدیثیں ضعیف ہیں اور اس کی ایک وجہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ امام مہدی کے بارے میں بخاری اور مسلم میں کوئی روایت نہیں لہذا امام مہدی کے بارے میں احادیث ضعیف ہیں۔
اسی کے برعکس پھر مرزا صاحب انہیں احادیث کو صحیح قرار دیتے ہیں اور بخاری کی ایک روایت کا ذکر بھی کرتے ہیں۔جو درحقیقت بخاری میں موجود نہیں بلکہ مرزا صاحب نے بخاری پر جھوٹ لکھا ہے۔
ہمارا قادیانیوں سے سوال ہے کہ مرزا صاحب کی کون سی بات سچ تسلیم کی جائے۔ایک طرف تو مرزا جی امام مہدی کے بارے میں تمام حدیثوں کو ضعیف اور جھوٹا لکھتے ہیں اور دوسری طرف انہی احادیث کو صحیح کہتے ہیں۔اب دونوں میں سے ایک ہی بات سچی ہوسکتی ہے۔اور ایک بات یقینا جھوٹ ہوگی۔
اور قانون یہ ہے کہ نبی جھوٹ نہیں بولتا اور جھوٹا شخص نبی نہیں ہوسکتا۔
مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ :
"اگرچہ اس میں کچھ شک نہیں کہ احادیث میں جہاں جہاں مہدی کے نام سے کسی آنے والے کی پیشگوئی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی درج ہے۔اس کے سمجھنے میں لوگوں نے بڑے بڑے دھوکے کھائے ہیں۔اور غلط فہمی کی وجہ سے عام طور پر یہی سمجھا گیا ہے کہ ہر ایک مہدی کے لفظ سے مراد محمد بن عبداللہ ہے۔جس کی نسبت بعض احادیث پائی جاتی ہیں۔لیکن نظر غور سے معلوم ہوگا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کئی مہدیوں کی خبر دیتے ہیں۔منجملہ ان کے وہ مہدی بھی ہے جس کا نام حدیث میں سلطان مشرق رکھا گیا ہے۔ جس کا ظہور ممالک مشرقیہ ہندوستان وغیرہ سے اور اصل وطن فارس سے ہونا ضرور ہے۔ درحقیقت اسی کی تعریف میں یہ حدیث ہے کہ اگر ایمان ثریا سے معلق یا ثریا پر ہوتا تب بھی وہ مرد وہیں سے اس کو لے لیتا۔اور اس کی یہ نشانی بھی لکھی ہے کہ وہ کھیتی کرنے والا ہوگا۔غرض یہ بات بالکل ثابت شدہ اور یقینی ہے کہ صحاح ستہ میں کئی مہدیوں کا ذکر ہے۔اور ان میں سے ایک وہ بھی ہے جس کا ممالک مشرقیہ سے ظہور لکھا ہے۔مگر بعض لوگوں نے روایات کے اختلاط کی وجہ سے دھوکا کھایا ہے۔لیکن بڑی توجہ دلانے والی یہ بات ہے کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہدی کے ظہور کا زمانہ وہی زمانہ قرار دیا ہے جس میں ہم ہیں۔اور چودھویں صدی کا اس کو مجدد قرار دیا ہے۔"
(نشان آسمانی صفحہ 9،10 مندرجہ روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 394)
مرزا صاحب کی اس تحریر سے پتہ چلا کہ صرف ایک مہدی نے نہیں آنا بلکہ احادیث میں بہت سے مہدیوں کے آنے کی خبر دی گئی ہے۔
اب مرزا صاحب کی دو اور تحریرات دیکھتے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ مرزا صاحب ہی آخری مہدی ہیں اور ان کے بعد کسی مہدی نے نہیں آنا۔
مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ :
"وہ آخری مہدی جو تنزل اسلام کے وقت اور گمراہی پھیلنے کے زمانہ میں براہ راست خدا سے ہدایت پانے والا اُس آسمانی مائدہ کو نئے سرے انسانوں کے آگے پیش کرنے والا تقدیر الٰہی میں مقرر کیا گیا تھا جس کی بشارت آج سے تیرہ سو برس پہلے رسول کریمﷺ نے دی تھی وہ میں ہی ہوں۔"
(تذکرتہ الشہادتین صفحہ 2، روحانی خزائن جلد 20، صفحہ 3 تا 4)
مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ :
"میرے ساتھ ایک لڑکی پیدا ہوئی تھی جس کا نام جنت تھا پہلے وہ لڑکی پیٹ سے نکلی تھی اور بعد اس کے میں نکلا تھا۔اور میرے بعد میرے والدین کے گھر میں کوئی اور لڑکا یا لڑکی نہیں ہوئی اور میں ان کے لئے خاتم الاولاد تھا۔اور یہ میری پیدائش کا وہ طرز ہے جس کو بعض اہل کشف نے مہدی خاتم الولایت کی علامتوں میں سے لکھا ہے۔اور بیان کیا ہے کہ وہ آخری مہدی جس کی وفات کے بعد کوئی اور مہدی پیدا نہیں ہوگا۔"
(تریاق القلوب صفحہ 157 مندرجہ روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 479)
ہمارا قادیانیوں سے سوال ہے کہ اگر ایک مہدی کی بجائے بہت سے مہدیوں نے آنا ہے تو ہمیں بتایا جائے کہ مرزا صاحب سے پہلے کون سچا مہدی تھا؟
اور ساتھ یہ بھی بتایا جائے کہ وہ مہدی جس کے بارے میں ذکر ہے کہ اس کا نام محمد، والد کا نام عبداللہ اور وہ سادات میں سے ہوگا وہ کون تھا اس کی نشاندہی کی جائے ؟؟؟ کیونکہ مرزا صاحب لکھتے ہیں کہ میں آخری مہدی ہوں۔
ان چاروں جائزوں کا خلاصہ یہ ہے کہ مرزا صاحب کا مہدی ہونے کا دعوی سچا نہیں تھا کیونکہ کبھی مرزا صاحب کہتے ہیں کہ میں وہی مہدی ہوں جس کا حدیث میں ذکر ہے۔کبھی کہتے ہیں وہ مہدی میں نہیں ہوں۔کبھی کہتے ہیں کہ ایک نہیں،بہت سے مہدیوں نے ظاہر ہونا ہے،کبھی کہتے ہیں میں ہی آخری مہدی ہوں۔
مرزا صاحب نے اتنے پلٹے کھائے ہیں کہ اگر خود قادیانی بھی ٹھنڈے دماغ سے مرزا صاحب کی کتابوں کو پڑھیں تو چکرا جائیں۔ اتنے پلٹے کھانے والا سچا مہدی نہیں ہوسکتا۔ جبکہ ایک بھی نشانی مہدی کی مرزا صاحب میں پوری بھی نہ ہوئی ہو۔