اگر حضرت عیسیٰ نبی رہ کر آنحضرت ﷺ کے امتی ہوں گے تو معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص امتی رہ کر نبی بھی رہے تو ایسے امتی نبی کی آمد عقیدۂ ختم نبوت کے منافی نہیں۔ نیز کسی نبی کو اپنے خیال سے امتی بنا کر اس کی ہتک کرنے سے کیا یہ بہتر نہیں کہ ہم یہ صحیح عقیدہ رکھیں کہ کسی امتی نے ہی قرآن اور حدیث کی روشنی میں حضور ﷺ کے روحانی فیضان اور اتباع سے مقام نبوت پایا ہے۔ آپ کا فیضان روحانی تا قیامت جاری وساری ہے۔
اس حصہ میں تین باتیں قابل غور ہیں:
(الف) اولاً کہ کسی نبی کے شریعت محمدیہ کا تابع بن کر آنے سے ہرگز یہ مراد نہیں ہے کہ اس نبی کی نبوی حقیقت ختم ہو جائے۔ اہل سنت والجماعت کا شروع ہی سے یہ عقیدہ رہا ہے کہ حضرت عیسیٰ نبی ہونے کے ساتھ ساتھ شریعت محمدیہ کے پیروکار ہوں گے۔ اس عقیدہ سے یہ کہاں سے لازم آیا کہ کوئی امتی بھی نبی بن سکتا ہےاور امتی نبی کی آمد کا عقیدہ ختم نبوت کے خلاف نہیں ہے۔ یہ قادیانیوں کی محض تلبیس ہے۔
(ب) ہم اپنے خیال سے حضرت عیسیٰ کی آمد کے قائل نہیں ہوئے بلکہ قرآن کریم اور احادیث شریفہ کی روشنی میں ہم حضرت عیسیٰ کی تشریف آوری کو صحیح مانتے ہیں۔ قادیانیوں کا یہ اعتراض ہم پر نہیں بلکہ نعوذ باللہ! اللہ اور اس کے سچے رسول پر ہے۔
(ج) نبوت کسبی چیز نہیں ہے کہ محض اتباع نبوی سے حاصل ہو جائے۔ اگر محض اتباع سنت اور فیضان روحانی ہی پر نبوت کا مدار ہوتا تو حضرت خلفائے راشدین اور حضرات صحابہ کرام سب کے سب مقام نبوت پر فائز ہو جاتے۔ کیا مؤلف صاحب یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے حضرت صاحب ان صحابہ کرام سے زیادہ متبع سنت تھے کہ پندرہ سو سال میں بس وہی ایک مقام نبوت کے اہل قرار پائے۔ العیاذ باللہ!
علامہ شعرانی نے اس بارے میں بڑی واضح اور دو ٹوک عبارت تحریر فرمائی ہے جس سے مرزائیوں کی ساری عمارت ہی زمین پر آ رہتی ہے۔
حضرت علامہ لکھتے ہیں:
فان قلت فهل النبوة مكتسبة او موهوبة فالجواب ليس النبوة مكتسبة حتى يتوصل اليها بالنهك والرياضات كما ظنه جماعة من الحمقاء وقد التی المالكية وغيرهم بكفر من قال ان النبوة مكتسبة1
اگر تم پوچھو کہ نبوت کسبی ہے یا وہبی؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ نبوت کسبی نہیں ہے کہ محنت وکاوش کے ذریعہ اس تک پہنچا جا سکے۔ جیسا کہ بعض احمقوں کی جماعت (مثلاً قادیانی جماعت اس زمانہ میں) نے خیال کیا ہے اور حضرات مالکیۃ وغیرہ نے نبوت کو کسبی کہنے والوں کے متعلق کفر کا فتویٰ دیا ہے۔