logoختم نبوت

لو عاش (ابراہیم) لکان صدیقا نبیا ہراعتراض کا جواب

اعتراض:

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْقُدُّوسِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ شَبِيبٍ الْبَاهِلِيُّ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عُثْمَانَ ، حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ عُتَيْبَةَ، عَنْ مِقْسَمٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ : لَنَا مَاتَ إِبْرَاهِيمُ ابْنُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، صَلَّى عَلَيْهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ : إِنَّ لَهُ مُرْضِعًا فِي الْجَنَّةِ، وَلَوْ عَاشَ لَكَان صِدِّيقًا نَبِيًّا، وَلَوْ عَاشَ لَعَتَقَتْ أَخْوَالُهُ الْقِبْط، وَمَا اسْتَرقَى قِبْطِيُّ 1
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے ابراہیم کا انتقال ہو گیا، تو آپ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی، اور فرمایا : جنت میں ان کے لیے ایک دایہ ہے، اور اگر وہ زندہ رہتے تو صدیق اور نبی ہوتے ، اور ان کے نہال کے قبطی آزاد ہو جاتے ، اور کوئی بھی قبطی غلام نہ بنایا جاتا۔

قادیانی استدلال:

قادیانی کہتے ہیں کہ اس روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر حضرت ابراہیم فوت نہ ہوتے تو نبی بن جاتے اس لئے امت میں نبوت جاری ہے۔

جواب نمبر 1:

یہ تعلیق بالمحال کے قبیل سے ہے جیسے قرآن پاک میں ہے :

لَوْ كَانَ فِیْهِمَااٰلِهَةٌ اِلَّا اللّٰهُ لَفَسَدَتَا2

حرف لو مفروضات کے لئے آتا ہے واقعات کے لئے نہیں جس طرح اس آیت میں تعلیق بالمحال کے لئے آیا تو حدیث پاک میں بھی تعلیق بالمحال ہے کہ لو عاش ابراہیم لکان صدیقا نبیا بقاء بعد الموت محال ہے تو ابراہیم کی نبوت بھی محال ہے جس طرح اس آیت کو دیکھ کر کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اللہ کے علاوہ اور بھی خدا ہو سکتے ہیں اسی طرح روایت کو دیکھ کر یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت جاری ہے۔جیسے اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ

قُلْ اِنْ كَانَ لِلرَّحْمٰنِ وَلَدٌ فَاَنَا اَوَّلُ الْعٰبِدِیْنَ

رحمن کے لئے ولد ہونا محال ہے تو میرے اول العابدین ہونا بھی محال ہے ۔

جواب نمبر 2:

اگر ابراہیم زندہ ہوتے تو صدیق ونبی ہوتے مگر چونکہ سلسلہ نبوت ختم ہوچکا ہے اس لئے وہ زندہ بھی نہ رہے ۔

جواب نمبر3:

قضیہ شرطیہ میں وجود موضوع ضروری نہیں ہے لہذا یہ ختم نبوت کے منافی نہیں ہے ۔


  • 1 سنن ابن ماجه ،حدیث نمبر:1511
  • 2 الانبیاء :22

Netsol OnlinePowered by