آنحضرت ﷺ نے حضرت علی سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ:
انا خاتم الانبياء وانت يا على خاتم الاولياء
تو اب کیا حضرت علی کے بعد امت میں اولیاء پیدا نہیں ہوئے،بلکہ آپ بھی اس کے بعد بکثرت اولیاء کے قائل ہیں لہذا لفظ خاتم سے آخری مراد لینا درست نہیں ۔مطلب یہ ہے کہ جس طرح حضرت علی کو خاتم الاولیاء کہنے کے باوجود بعد میں اولیاء کا وجود ممتنع نہیں ہے۔ اسی طرح خاتم الانبیاء کے بعد بھی انبیاء کا آنا مستبعد نہیں ہے۔
حضرت علی کو "خاتم الاولیاء" کہنے کا مطلب:
اس سلسلہ میں تین باتیں قابل غور ہیں۔
1۔ آنحضرت ﷺ کا یہ مقولہ کسی صحیح سند سے ثابت نہیں۔ مؤلف نے تفسیر صافی سے نقل کیا ہے اور تفسیروں میں جس طرح کی کمزور روایتیں نقل کی جاتی ہیں وہ اہل علم سے مخفی نہیں ہے۔
2۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ منصب نبوت وہبی ہے اور منصب ولایت کسبی ہے۔ اس لئے دونوں کو ایک درجہ میں نہیں رکھا جا سکتا۔ خاتم الانبیاء کا مطلب یہ ہوگا کہ اب کسی کو نیا نبی نہیں بنایا جائے گا اور آنحضرت ﷺ ہی سلسلۂ نبوت کو ختم کرنے والے ہیں۔ جب کہ خاتم الاولیاء کو خاتم المفسرین وغیرہ القاب مبالغہ پر محمول کرتے ہوئے صرف افضل الاولیاء کے معنی میں رکھا جائے گا۔
3۔ تیسری بات یہ ہے کہ جب ختم نبوت کے اجماعی معنی دیگر مضبوط دلائل سے ثابت ہیں تو آخر کیا ضرورت ہے کہ اس طرح کی کمزور اور احتمالات سے بھر پور دلیل کا سہارا لیا جائے۔ اس طرح کا سہارا وہی لے سکتا ہے جس کا دامن قابل ذکر دلائل سے عاری اور خالی ہو۔