مرزائی امت حضرت صدیقہ كا قول (قولوانہ خاتم الانبياء ولا تقولوا لانبی بعدہ) پیش کر کے آپ کا اجرائے نبوت کے عقیدہ کے ساتھ متفق ہونا ثابت کرتے ہیں۔ ان لوگوں کا اپنے زعم میں یہ بڑا مایہ ناز استدلال ہے۔ اس پر بہت کچھ حاشیہ آرائی کی جاتی ہے۔ 1
حضرت عائشہ کے قول کی توجیہ میں ابن قتیبہ دینوری لکھتے ہیں:
و اما قول عائشة قولوالرسول الله صلى الله عليه وسلم خاتم الانبياء و لاتقولو الانبي بعده فانها تذهب الى نزول عیسی علیه السلام و ليس هذا من قولها ناقضاً لقول النبي صلى الله عليه وسلم لانبی بعده لا نه اراد لانبی بعدي يمسخ ماجئت به كما كانت الانبياء عليهم السلام تبعث بالنسخ وارادت ھی لا تقولوا ان المسيح لا ينزل بعده2
اس کا مفہوم ہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے جو یہ مروی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کو خاتم النبین نہ کہو اور یوں بھی نہ کہو کہ آپ علیہ السلام کے بعد کوئی نبی نہیں ۔ تو آپ رضی اللہ عنہا کے اس فرمان کا تعلق حضرت عیسی علیہ السلام کے نزول سے ہے۔ اور یہ قول آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث لانبی بعدہ کے خلاف نہیں ہے کیونکہ آپ علیہ السلام کا مطلب یہ ہے کہ ایسا نبی نہیں آئے گا جو میری شریعت کو منسوخ کر دے جیسا کہ انبیاء علیہم السلام سابق شرع کو منسوخ کرنے کے لیے مبعوث کیے جاتے تھے۔ جبکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا مطلب یہ ہے تم یہ نہ کہو حضرت مسیح علیہ السلام بھی نہ آئیں گے(بلکہ وہ تو آئیں گے ) ۔
یہ واضح رہے کہ یہ مذکورہ قول در منثور ج ۵ ص ۲۰۵ میں تحت آیت خاتم النبین اور مجمع البحارج ۵ کے تکملہ ص ۵۰۲ میں بلا سند و اسناد درج ہے۔ قادیانیوں نے مذکورہ قول نقل کرتے وقت اس کو سیاق و سباق سے کاٹ کر اپنے مقصد کے موافق الفاظ ذکر کیسے ہیں۔ اس کا ماقبل اور مابعد ذکر کرنے میں ان کو خسارہ تھا۔ اس لیے ترک کر دیا گیا ہے۔
اس لیے ہم ذرا تفصیل کے ساتھ تکملہ مجمع البحار کی عبارت مذکورہ کو نقل کرتے ہیں۔ تا کہ خود صاحب کتاب کی زبان سے مطلب واضح ہو جائے:
وفي حديث عيسى انه يقتل الخنزير و یکسر الصليب و يزيد في الحلال اى يزيد في حلال نفسم بان يتزوج ويولد له و كان لم يتزوج قبل رفعه الى السماء فزاد بعد الهبوط في الحلال فحينذ يومن كل احد من اهل الكتاب يتيقن بانه بشر و عن عائشة قولوا انه خاتم الانبياء ولا تَقُولُوا لانبی بعده و هذا ناظراً الى نزول عيسى و هذا ايضاً لا ينا في حديث لا بنى بعدى لانه ارادلا نبي ينسخ شرعة 3
یعنی عیسی علیہ السلام نزول کے بعد خنزیر کو قتل کریں گے اور صلیب کو توڑ ڈالیں گے اور حلال چیزوں میں زیادتی کریں گے۔ یعنی نکاح کریں گے ۔ اور ان کی اولاد ہو گی۔ آسمان کی طرف چلے جانے سے پہلے انہوں نے شادی نہیں کی تھی ان کے آسمان سے اترنے کے بعد حلال میں اضافہ ہو گا۔ ( بیاہ شادی سے اولاد ہو گی ) اس زمانے ہر ایک اہل کتاب ان پر ایمان لائے گا۔ کہ یقینا یہ بشر ہیں (یعنی خدا نہیں ہیں۔ جبکہ عیسائیوں نے عقیدہ گھڑ رکھا ہے ) اور صدیقہ فرماتی ہیں۔ حضور ﷺ کو خاتم النبین کہو اور یہ نہ کہو کہ آپ کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں۔ یہ صدیقہ کا فرمان (لا تقولوا لانبی بعدہ) اس بات کے مد نظر مروی ہے۔ کہ عیسی علیہ السلام آسمان سے نازل ہوں گے۔ اور یہ نزول علیہ السلام حدیث شریف لا بنی بعدی کے مخالف نہیں۔ ہے اس لیے کہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ایسا نبی نہیں آئے گا جو آپ کے دین کا ناسخ ہو ( اور عیسی علیہ السلام دین محمدی کی اشاعت اور ترویج کے لیے نازل ہوں گے نہ کہ اس دین کو منسوخ کرنے کے لیے ) تکملہ مجمع البحارکی تمام عبارت پر نظر کرنے سے صاف ظاہر ہو رہا ہے۔ حضرت صدیقہ کا لا نبی بعدہ کہنے سے منع فرمانے کا مقصد صرف یہ ہے۔ کہ نزول عیسیٰ علیہ السلام قیامت سے پہلے یقینا ہوگا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں کے الفاظ سے ان کے عموم کے اعتبار سے عوام کو شبہ پیدا ہو سکتا ہے۔ کہ پھر تو عیسی علیہ السلام بھی نہیں آئیں گے۔ اس شبہ اور وہم کو دور کرنے کے لیے حضرت صدیقہ نے بعض اوقات ایسا کہنے سے منع فرمایا ہے۔
لہذاحضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ امت مسلمہ کے متفقہ عقیدہ کے موافق ختم نبوت کی قائلہ ہیں اور اس اجماعی عقیدہ اور اتفاقی مسئلہ پر خود انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح روایات بیان فرمائی ہیں:
عن عائشة أن النبي صلى الله عليه وسلم قال لا يبقى بعد ي من النبوة شي الا المبشرات قالوا يا رسول الله ما المبشرات قال الرويا الصالحه يراها الرجل اوترى له4
حضرت صدیقہ فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میرے بعد کچھ بھی نبوت باقی نہیں رہی۔ ہاں صرف مبشرات باقی رہ گئے ہیں۔ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ مبشرات کیا چیز ہے۔ تو آپ نے فرمایا کہ اچھے خواب ہیں۔ آدمی ان کو خود دیکھتا ہے یا اس کے حق میں کوئی دوسرا آدمی ہی دیکھتا ہے۔
عن عائشة قالت قال رسول الله صلى الله عليه وسلم انا خاتم الانبياء و مسجدي خاتم مساجد الانبياء 5
یعنی حضرت صدیقہ نے فرمایا یا رسول اللہﷺنے فرمایا میں تمام نبیوں کو ختم کرنے والا ہوں اور میری مسجد کے بعد کسی دوسرے نبی کی مسجد نہیں ہوگی۔
ختم نبوت کی ان احادیث کو خود عائشہ صدیقہ روایت کرتی ہیں۔ دوسرے صحابہ کرام کی طرح کسی تاویل و تشریح کے بغیر ذکر کرتی ہیں۔ تو اس کا صاف مقصد یہ ہے حضرت ام المومنین اس مسئلہ پر مہر تصدیق ثبت کر رہی ہیں کہ ہر قسم کی نبوت کا دروازہ بند ہو چکا ہے۔ تشریعی ہو یا غیر تشریعی ، مستقل یا غیر مستقل۔
یہ مرزائی امت کے استدلال کے متعلق نرالے اصول ہیں۔ ایک طرف تو حضرت صدیقہ کی طرف جو مجہول الاسناد قول منسوب ہے۔ معتبر ومستند مانا جا رہا ہے۔ اور اس کو بڑے آب و تاب کے ساتھ ہمیشہ پیش کیا جاتا ہے۔ اور باوجود تلاش کے اس قول کی صحیح تخریج صحیح اسناد کے ساتھ مرزائیوں کو تاحال نہیں مل سکی۔ دوسری طرف صحیح احادیث مرفوعہ کا ذخیرہ کا ذخیرہ جس میں ختم نبوت روز روشن کی طرح واضح ہے۔ ناقابل قبول ہے۔ سچ ہے کہ جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔
ناظرین کرام کو معلوم ہونا چاہیے کہ قادیانی جماعت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث صحیحہ کے متعلق یہ عقیدہ رکھتی ہے۔ جو حدیث ان کے مسلک کے موافق ہو اس کو تسلیم کر لیا جائے اور جو روایت قادیانی مذھب کے خلاف واقع ہو اس کو رد کر دیا جائے ۔
مندرجہ ذیل حوالہ جات میں مرزا صاحب نے اس مسئلہ کو بڑا صاف کر دیا ہے:
میرا اختیار ہے کہ حدیثوں کے ذخیرہ میں جس انبار کوچاہوں خدا سے علم پاکر قبول کروں اور جس ڈھیر کو چاہوں خدا سے علم پاکر رد کردوں۔6(اربعین، از روحانی خزائن جلد :17، صفحہ :401)
حضرات! مرزائیوں کے نزدیک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پاک کو قبول اور رد کرنے کا معیار یہ ہے جو مرزا صاحب نے مذکورہ عبارت میں واضح کر دیا ہے۔ استدلال حدیث کے معاملہ میں مرزائیوں کے لیے یہی اصل الاصول ہے دوسری کوئی صحیح سے صحیح حدیث ان کے ہاں قابل قبول نہیں۔
یاد رہے کہ مذکوہ بالا تفصیل کے ساتھ حضرت صدیقہ کا نظریہ جہاں واضح ہوا ہے۔ وہاں ساتھ ہی صاحب مجمع البحار کا مسلک بھی اپنی جگہ بالکل صاف ہے۔ ان کا دوسرا اعتقاد جمہور اہل اسلام کے خلاف ہر گز نہیں ہے۔ یہ مرزائیوں کا کمال ہے۔ عبارتی ہیر پھیر کر کے انہوں نے اپنی ہمنوائی میں متعدد حضرات کو شمار کر لیا ہے۔
حضرت ام المومنین کے پیش نظر یہ بات تھی کہ لانبی بعدي کے ظاہری عموم کی وجہ سے عوام نزول عیسی علیہ السلام اور اس حدیث کو تضاد نہ سمجھ لیں اس لیے احتیاطاً انہوں نے لانبی بعدہ کہنے سے منع فرمایا۔ اسی قسم کا ایک قول حضرت مغیرہ بن شعبہ سے منقول ہے۔
عن الشعبي قال قال رجل عنده المغيرة بن شعبة صلى الله على محمد خاتم الانبياء لانبي بعده فقال المغيرة بن شعبة حسبك اذا قلت خاتم الانبياء فانا كنا نحدث ان عيسى عليه السلام خارج فان هو خرج فقد كان قبله و بعده131
شعبی سے منقول ہے کہ ایک شخص نے حضرت مغیرہ کے سامنے یہ کہا کہ اللہ تعالی رحمت نازل کرے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر جو کہ خاتم الانبیاء ہیں اور ان کے بعد کوئی نبی نہیں حضرت مغیرہ نے فرمایا خاتم الانبیاء کہہ دینا کافی ہے۔ یعنی لانبی بعدہ کہنے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہم کو یہ حدیث پہنچی ہے کہ عیسی علیہ السلام پھر تشریف لائیں گے۔ پس جب وہ آئیں گے تو ایک ان کا آنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے ہوا اور ایک آنا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہوگا۔
پس جس طرح مغیرہ رضی اللہ عنہ ختم نبوت کے قائل ہیں مگر محض عقیدہ نزول عیسی بن مریم علیہما السلام کی حفاظت کے لیے لانبی بعدی کہنے سے منع فرمایا اسی طرح حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ختم نبوت کے عقیدہ کو تو خاتم النبین کے لفظ سے ظاہر فرمایا اور اس موہم لفظ کے استعمال سے منع فرمایا کہ جس لفظ سے عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے خلاف کا ابہام ہوتا تھا اور حاشا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی قسم کی نبوت کو جائز کہتی ہیں۔
محمد علی لاہوری اپنے بیان القرآن میں لکھتے ہیں: اور ایک قول حضرت عائشہ کا پیش کیا جاتا ہے جس کی سند کوئی نہیں قولوا خاتم النبيين ولا تقولو الانبي بعدة خاتم النبین کہو اور یہ نہ کہو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں اور اس کا یہ مطلب لیا جاتا ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ کے نزدیک خاتم النبیین کے معنی کچھ اور تھے اور کاش وہ معنی بھی کہیں مذکور ہوتے ۔ حضرت عائشہ کے اپنے قول میں ہوتے۔ کسی صحابی کے قول میں ہوتے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث میں ہوتے مگر وہ معنی در بطن کے قائل ہیں اور اس قدر حدیثوں کی شہادت جن میں خاتم النبیین کے معنی لانبی بعدی کیے گئے ہیں ایک سند قول پر پس پشت پھینکی جاتی ہیں۔ یہ غرض پرستی ہے خدا پرستی نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثوں کی شہادت ایک بے سند قول کے سامنے رد کی جاتی ہے۔ اگر اس قول کو صحیح مانا جائے تو کیوں اس کے معنی یہ نہ کیے جائیں کہ حضرت عائشہ کا مطلب یہ تھا کہ دونوں باتیں اکٹھی کہنے کی ضرورت نہیں خاتم النبین کافی ہے جیسا کہ مغیرہ بن شعبہ کا قول ہے کہ ایک شخص نے آپ کے سامنے کہا خاتم الانبیا ء و لانبی بعده تو آپ نے فرمایا خاتم الانبیاء تجھے کہنا بس ہے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ آپ کا مطلب ہو کہ جب اصل الفاظ خاتم النبیین واضح ہیں تو وہی استعمال کرو یعنی الفاظ قرآنی کو الفاظ حدیث پر ترجیح دو۔ اس سے یہ کہاں نکلا کہ آپ الفاظ حدیث کو صحیح نہ سمجھتی تھیں اور اتنی حدیثوں کے مقابل اگر ایک حدیث ہوتی تو وہ بھی قابل قبول نہ ہوتی چہ جائیکہ صحابی کا قول ہو جو شرعاً محبت نہیں اٹھتی۔7
حضرت ام المومنین نے حفظ ماتقدم کا خیال فرماتے ہوئے جو بات فرمائی تھی وہ بہت سے اکابرین نے اپنے اپنے انداز میں لکھی ہے:
مثلاً علامہ زمخشری آیت خاتم النبین کی تشریح کرتے ہوئے کہتے ہیں:
(فان قلت) كيف كان اخر الانبياء و عيسى ينزل في آخر الزمان ( قلت ) معنى كونه اخر الانبياء أنه لاينبا احد بعده و عيسى ممن نبي قبله و حين ينزل ينزل عاملاً على شريعة محمد مصلياً الى قبلته كانه بعض امته8
اگر تو کہے کہ حضرت نبی کریم میں نے کس طرح آخری نبی ہو سکتے ہیں در انحالیکه عیسی علیہ السلام آخری زمانہ میں نازل ہوں گے۔ میں کہتا ہوں کہ حضور علیہ السلام کے آخری نبی ہونے کا معنی یہ ہے کہ ان کے بعد کوئی نیا نبی نہیں بنایا جائے گا اور عیسی علیہ السلام آپ سے پہلے نبی بنائے گئے اور وہ جب نازل ہوں گے تو حضور علیہ السلام کی شریعت پر عمل کریں گے۔ آپ کے قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھیں گے گویا کہ آپ کے امتی ہوں گے ۔
حافظ ابن حزم تحریر فرماتے ہیں:
هذا مع سما عهم قول الله تعالى و لكن رسول الله و خاتم النبيين و قول رسول الله صلى الله عليه وسلم لا نبى بعدى فكيف يستجيز مسلم أن يثبت بعده عليه السلام نبیافی الارض حاشا ما استثناء رسول الله صلى الله عليه وسلم في الآثار المسندة الثابتة في نزول عيسى ابن مريم عليه السلام في آخر الزمان9
اللہ تعالیٰ کا فرمان ولکن رسول الله و خاتم النبیین اور حضور علیہ السلام کا ارشاد لانبی بعدي سن کر کوئی مسلمان کیسے جائز سمجھ سکتا ہے کہ حضور علیہ السلام کے بعد زمین میں کسی نبی کی بعثت ثابت کی جائے سوائے نزول عیسی کے آخر زمانہ میں جو رسول اللہ اللہ کی صحیح احادیث مسندہ سے ثابت ہے۔
(1)حضرت عائشہ و حضرت مغیرہ بن شعبہ کی طرف سے لانبی بعدی کے معنی کا انکار نہیں کیا گیا۔ یہ ایک ایسی واضح بات ہے کہ اس کے لیے کسی بحث کی ضرورت نہیں۔ محدثین سے لانبی بعدی کے ساتھ لانبوۃ بعدی کے الفاظ روایت صحیح سے ثابت ہیں سو وہ اس کا معنی یہ کرتے ہیں کہ آپ کے بعد کوئی نبی پیدا نہ ہو گا ۔
فالمعنى انه لا يحدث بعده نبى لانه خاتم النبيين السابقين 10
(2)لانبی بعدی کا مطلب یہ ہے کہ ہر وہ شخص جس پر لفظ نبی بولا جائے اور وہ اس نام سے لوگوں کے سامنے آئے اور اس نام سے اسے ماننا ضروری ہو وہ آپ کے بعد پیدا نہیں ہو سکتا۔ لا کا لفظ جب نکرہ پر داخل ہو جیسے لا الہ الا اللہ میں تو وہ عموم اور استغراق کا فائدہ دیتا ہے پس حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی تشریعی یا غیر تشریعی نبی پیدا نہیں ہوسکتا۔
جب نکرہ نفی کے تحت آئے تو اس میں نفی عام ہوتی ہے لیکن اس عام کا پھیلاؤ محاورات عرب کے مطابق ہو گا اگر کوئی کسی کو نصیحت کرتے ہوئے کہے کہ نہیں جتنے عمل کر سکتے ہو کر لوموت پر سب عمل ختم ہو جائیں گے اور عربی میں کہتے لا عمل بعد الموت تو اس میں لانفی عام کی دلالت یہ ہوگی کہ موت کے بعد کوئی کسی قسم کا عمل نہ ہو سکے گا۔ یہ نہیں کہ پچھلے کیے اعمال بھی سب ختم ہو گئے۔ من يعمل مثقال ذرة خير أیرہ پچھلے اعمال سب باقی ہوں گے اور آخرت میں سب آگے آئیں گے۔ جس طرح لا عمل بعد الموت میں پچھلے اعمال کی نفی نہیں لانبی بعدی میں پچھلے انبیاء میں کسی کی حیات کی نفی نہیں ۔
لانبی بعدہ میں بعدہ خبر کے مقام پر آیا ہے اور خبر افعال عامہ یا خاصہ میں سے ہے اور مخدوف ہے۔ اس کے معنی تین طرح ہو سکتے ہیں۔
(۱) لا نبی مبعوث بعدۂ ۔ حضور علیہ السلام کے بعد کوئی نبی مبعوث نہیں ہو گا۔ مرقات شرح مشکوۃ میں یہی ترجمہ مراد لیا گیا ہے جو کہ صحیح ہے۔
(۲) لانبی خارج بعدہ ۔ حضور علیہ السلام کے بعد کسی نبی کا ظہور نہیں ہو گا یہ معنی غلط ہے اس لیے کہ حضرت عیسی علیہ السلام قرب قیامت میں نزول فرمائیں گے حضرت مغیرہ نے انہی معنوں کے اعتبار سے لا تقولوا لا نبی بعدہ میں ممانعت فرمائی ہے جو سو فیصد ہمارے عقیدہ کے مطابق ہے۔
(۳) لانبی حی بعد ہ ۔ اس معنی کے اعتبار سے حضرت عائشہ نے لا تقولوا لانبی بعدہ میں ممانعت فرمائی ہے اس لیے کہ خود ان سے حضرت عیسی علیہ السلام کے نزول کی روایات منقول ہیں اور ان کے نزدیک حضرت عیسی ابھی زندہ ہیں جو آسمان سے نزول فرمائیں گے۔