مولانا روم نے پیر کو وقت کا پیغمبر کیوں کہا؟ یہی تو ہے جو غیر تشریعی نبی ہے۔ مولانا فرماتے ہیں۔
دست را مسپار جزو در دست پیر آں نبی وقت باشد اے مرید
پیر حکمت کہ علیم است وخبیر تا از ونور نبی آید پدید1
قادیانی بزرگوں کے اقوال کیوں پیش کرتے ہیں حال آنکہ بزرگوں کے اقوال قادیانیوں کے نزدیک مستقل حجت نہیں چنانچہ مرزا صاحب لکھتے ہے کہ :
اقوال سلف و خلف در حقیقت کوئی مستقل حجت نہیں ۔ 2
تو قادیانی بزرگان امت پر یہ الزام کیوں لگاتے ہیں اور کہ وہ وفات کے قائل تھے اور ان کے اقوال کو بطور دلیل کیوں پیش کرتے ہیں ۔
مرزا صاحب کے مطابق رفع و نزول کا مسئلہ 13 صدیوں تک چھپا رہا اور یہ مرزا صاحب پر ظاہر ہوا ۔3
اور مرزا صاحب نے یہ مانا ہے کہ مسلمانوں کا 1300 سال سے عقیدہ رفع و نزول کا تھا ۔4
اب کیا اس کے بعد بھی سلف کے اقوال سے حجت پکڑنا درست ہے ۔
پہلے مصرعہ میں جو پیر کو نبی کہا گیا ہے دوسرے میں اس کی کھلی وضاحت کر دی گئی ہے کہ وہ نبی نہیں۔ نبی پاک صرف حضور ﷺ ہی ہیں۔ وہ صرف آپ کے فیض کے لئے وسیلہ بنا ہوا ہے۔ اگر تمام پیروں کو نبی مانا جاتا تو آج تاریخ میں اس امت کے نبیوں کی ایک طویل فہرست ہوتی جو حضور ﷺ ختم مرتبت کے بعد نبی ہوئے ہوتے اور ان کے ذریعہ حضور ﷺ کا فیض ان کے مریدوں تک پہنچا ہوتا۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ ان پیروں میں سے کسی نے اپنے لئے کسی درجے کی نبوت کا دعویٰ نہیں کیا۔ نہ اس کے ماننے والوں کو کسی آسمانی عذاب کی دھمکیاں ملیں ہیں۔
سو اس شعر میں پیر کے لئے نبی وقت کا لفظ محض ایک مجازی تعبیر ہے اور یہ اسی طرح ہے جس طرح سعدی کو بھی ابیات قصیدہ اور غزل کا پیغمبر کہا گیا ہے۔
سہ کس پیغمبران سخن اند ابیات وقصیده وغزل را
ہر چند لا نبی بعدی فردوسی وانوری وسعدی
قادیانیوں کو اگر پیر کو نبی کہنے پر اصرار ہے تو انہیں چاہیے کہ پیر کو آسمان کی سیڑھی بھی ساتھ ساتھ کہا کریں اور اسے بھی حقیقت سمجھیں جس طرح انہوں نے مولانا روم کے اسے نبی وقت کہنے کو حقیقت سمجھ رکھا ہے۔
مولانا فرماتے ہیں:
من نجویم زیں سپس راه اثیر پیر باشد نردبان آسمان
پیر جویم پیر جویم پیر پیر تیر پراں گاه کہ گردد از کمان5
میں اس کے بعد آسمان کی راہ نہ دیکھوں گا۔ میں کامل کی تلاش کروں گا۔ یہ پیر ہے جو آسمان کی سیڑھی بنتا ہے۔ تیر تبھی اڑتا ہے جب وہ کمان سے نکلے۔
یہ بات کسی صاحب علم سے مخفی نہیں کہ آنحضرت ﷺ کی بعثت خود ایک قیامت کی خبر تھی کہ آپ کے بعد اب دنیا کا خاتمہ ہے کوئی اور نبی آنے کا نہیں۔ پھر لوگ جب آپ سے پوچھتے کہ قیامت کب آئے گی تو آپ فرماتے کہ بس اس کا علم تو صرف اللہ رب العزت کے پاس ہی ہے۔
مولانا روم بھی باقی امت کی طرح حضور ﷺ کو ہی اس دور کا پیغمبر مانتے ہیں۔
زو قیامت را ہمے پیر سیدہ اند باز بان حال مے گفتے بسے
کای قیامت تا قیامت راه چند کہ زمحشر حشر را پرسد کے6
حضور ﷺ سے لوگوں نے قیامت کے بارے میں پوچھا: اے دور آخر کے نشان! قیامت اب کتنے فاصلے پر ہے؟ آپ زبان حال سے یہی جواب دیتے رہے کہ کیا محشر سے بھی کوئی حشر کا سوال پوچھتا ہے کہ کب برپا ہوگا۔
یعنی محشر جس طرح دنیا کا ایک آخری اجتماع ہے۔ میں اس دنیا کا ایک آخری پیغمبر ہوں۔ مجھ سے اس دنیا کا آخر کار کیا پوچھتے ہو؟ یہ حضور ﷺ کے سید آخر زماں ہونے کی ایک اور وضاحت ہے۔
حضور خاتم النبیین ﷺ کی نبوت قیامت تک کے لئے ہے۔ اس پر ایک سوال ذہن میں گزرتا ہے کہ حضور ﷺ کی احادیث میں قیامت تک پیدا ہونے والے جملہ مسائل کا حل صریحاً نہیں ملتا۔ حضور ﷺ کی وفات کے بعد کچھ ایسے مسائل اور حالات بھی سامنے آئے جن کا حکم نصاً قرآن وحدیث میں نہ تھا۔ ان مسائل غیر منصوصہ کو مجتہدین قرآن وحدیث سے اجتہاداً مستنبط کرتے رہے اور یہ نئی ضرورت اس اجتہاد سے پوری ہوتی رہیں۔ یہ اجتہاد کی راہ بھی حضور ﷺ کی ہی دکھلائی ہوئی تھی۔ مجتہدین اجتہاد کی راہ سے مسائل کی دریافت کرتے ہیں۔ ان کی ایجاد نہیں کرتے وہ احکام کے موجد نہیں ہوتے۔ صرف مظہر ہوتے ہیں۔
سو یہ حقیقت میں حضور ﷺ کی ہی نبوت ہے جو مجتہدین کے ذہن میں اترتی ہے اور پھر علمائے امت میں پھیلتی ہے۔ علماء جب ایسے مسائل میں شرح صدر محسوس کرتے ہیں تو یہ حضور ﷺ کی نبوت کا فیضان ہی ان کے دل ودماغ پر اتر رہا ہوتا ہے اور اس طرح حضور ﷺ کی نبوت امت میں جاری وساری ہے۔ اسی طرح حضور ﷺ کی نبوت کا پہلوئے ولایت ہے جو اولیاء اللہ کے دلوں پر اترتا ہے اور یہاں تک بھی انہیں پہنچا دیتا ہے کہ اب وہ اللہ تعالیٰ سے براہ راست فیضیاب ہونے لگتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں کشف والہامات اور مبشرات سے نوازتے ہیں اور حضور ختمی مرتبت کی نبوت ان میں جاری وساری رہتی ہے۔ اللہ تعالیٰ حضور ﷺ کی امت کو کسی غلطی پر جمع نہیں ہونے دیتے۔