عبارت یہ ہے جو مرزائیوں نے مخصوص نمبر میں پیش کی ہے:
ختم به النبيون اى لا يوجد من يامره الله سبحانه بالتشريع على الناس 1
نبی کریم ﷺ پر انبیاء ختم ہو چکے ہیں۔ یعنی ایسا شخص عدم سے وجود میں نہیں لایا جائے گا۔ جس کو اللہ تعالیٰ احکام دینیہ و شرعیہ کے ساتھ لوگوں کی طرف مامور کرے۔2
اس عبارت سے یہ استنباط کیا جا رہا ہے۔ کہ مستقل شرعیت اور مستقل دین والے نبی کی نفی مصنف کی مراد ہے۔ علی الاطلاق اور ہر نبوت کی نفی مراد نہیں ہے۔ بلکہ امتی نبی آسکتے ہیں۔ بالتبع نبوت جاری ہے وغیرہ وغیرہ۔ حالانکہ لا یوجد کا ترجمہ ذرا غور سے ملاحظہ کر لیا جائے تو بات صاف ہے۔
قادیانی بزرگوں کے اقوال کیوں پیش کرتے ہیں حال آنکہ بزرگوں کے اقوال قادیانیوں کے نزدیک مستقل حجت نہیں چنانچہ مرزا صاحب لکھتے ہے کہ :
اقوال سلف و خلف در حقیقت کوئی مستقل حجت نہیں ۔ 3
تو قادیانی بزرگان امت پر یہ الزام کیوں لگاتے ہیں اور کہ وہ وفات کے قائل تھے اور ان کے اقوال کو بطور دلیل کیوں پیش کرتے ہیں ۔
مرزا صاحب کے مطابق رفع و نزول کا مسئلہ 13 صدیوں تک چھپا رہا اور یہ مرزا صاحب پر ظاہر ہوا ۔4
اور مرزا صاحب نے یہ مانا ہے کہ مسلمانوں کا 1300 سال سے عقیدہ رفع و نزول کا تھا ۔5
اب کیا اس کے بعد بھی سلف کے اقوال سے حجت پکڑنا درست ہے ۔
اس مغالطہ کا جواب ہم اپنی زبان سے ادا کرنے کی بجائے خود صاحب کلام شاہ صاحب محدث کی زبان سے پیش کرنا ضروری خیال کرتے ہیں۔ تا کہ تاویل در تاویل کرنے سے ایک صاف بات مسخ ہو کر نہ رہ جائے۔ تاویلات کا تانتا باندھنا مرزائیوں کا موروثی وطیرہ ہے۔ ہم شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کا کلام بغیر کسی ہیر پھیر کے پیش کرتے ہیں۔
اولاً:۔ اس تفہیمات الہیہ میں شاہ ولی اللہ صاحب نے آدم سے لے کر حضور علیہ السلام تک انبیاء علہیم السلام کے مختلف دور قائم کر کے اس پر اس تفہیم میں تبصرہ کیا ہے۔ آخر میں اس تفہیم کو ان الفاظ پر ختم کیا ہے کہ:۔
صار خاتم هذه الدورة فلذالك لا يمكن ان يوجد بعده نبى صلوات الله عليه والسلامة6
اس دورہ کے ختم کرنے والے نبی کریم عملہ ٹھہرے۔ اسی وجہ سے یہ ممکن ہی نہیں کہ آپ کے بعد کوئی نبی عدم سے وجود میں آئے
دوسرا مقام اسی تفہیمات کا ملاحظہ ہو۔جس میں مسئلہ ختم نبوت کو بھی واضح کیا ہے۔
محمدﷺخاتم النبيين لا نبي بعده و دعوته عامة لجميع الانس والجن وهوا فضل الانبياء بهذه الخاصة و بخواص أخرى نحو هذه7
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم تمام نبیوں کو ختم کرنے والے ہیں۔ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا ۔ تمام انسانوں اور جنوں کے لیے آپ کی دعوت عام ہے۔ آپ تمام نبیوں سے افضل ہیں۔ اس خاص امر اور دوسرے خواص کی بنا پر۔
ایک اور مقام قابل ملاحظہ ہے:
في الحدیث ان هذا الامر نبوة و رحمة ثم يكون خلافة و رحمة الخ8
یعنی یہ دین اسلام کی ابتدا نبوت اور رحمت کی صورت میں ہوئی ہے۔ پھر یہ خلافت اور رحمت کے رنگ میں زمانہ ہوگا۔
اس حدیث کی تشریح شاہ صاحب نے اس طرح شروع کی ہے۔
اقول فالنبوة انقضت بوفاة النبي صلى الله عليه وسلم و اخلافة التي لاسيف فيها بمقتل عثمان والخلافة بشهادة على كرم الله وجه و خلع الحسن رضى الله عنه الخ9
میں کہتا ہوں کہ نبی کریم ﷺ کی وفات سے نبوت پوری اور ختم ہو گئی۔ اور ایسی خلافت جس میں تلوار اسلام میں نہ چلی ہو۔ وہ حضرت عثمان کی شہادت سے ختم ہو گئی ۔ اور اصل خلافت راشدہ حضرت علی کی شہادت اور امام حسن کی معزولی سے ختم ہو گئی۔ الخ
حضرت شاہ صاحب کی یہ صاف صاف تصریحات مسئلہ ختم نبوت کے متعلق ہیں کہ ہر قسم کی نبوت ختم ہو گئی ہے۔ مرزائی تاویلات کی طرف جانے کے بڑےشائق ہیں۔ ہر عبارت میں کچھ نہ کچھ تاویل کیے بغیر ان کا جی نہیں ٹھہرتا۔ اس کا علاج ہمارے پاس کیا ہو سکتا ہے۔
شاہ صاحب کا ترجمہ فتح الرحمن ترجمہ القرآن سے حوالہ شاہ صاحب نے خاتم کا معنی ان الفاظ کے ساتھ فرمایا ہے۔ نیست محمد ﷺ پدرہیچ کس از مردمان شما ولیکن پیغامبر ان است یعنی بعد از وی پیچ پیغامبر نباشد 10
شاہ صاحب زندیق کی تعریف کرتے ہوئے رقم طراز ہیں۔
اوقال ان النبي صلى الله عليه وسلم خاتم النبوة و لكن معنى هذا الكلام انه لا يجوز ان يسمى بعده احد بالنبي واما معنى النبوة وهو كون الانسان مبعوثا من الله تعالى الى الخلق مفترض الطاعة معصوماً من الذنوب و من البقاء على الخطاء فيما يرى فهو موجود في الائمة بعده فذلك الزنديق و قد اتفق جماهير المتاخرين من الحنيفة والشافعية على قتل من يجرى هذا المجرى11
یا جو شخص یہ کہے کہ بے شک حضور علیہ السلام نبوت کے ختم کرنے والے ہیں لیکن اس کلام کے معنی یہ ہیں کہ حضور علیہ السلام کے بعد کسی کو نبی کہنا اور نبی کا اسم اطلاق کرنا جائز نہیں، لیکن نبوت کی حقیقت اور اس کے معنی یعنی کسی انسان کا اللہ تعالی کی جانب سے خلق کی طرف مبعوث ہونا اس کی اطاعت فرض ہونا، اس کا گناہوں سے معصوم ہونا یہ امور حضور علیہ السلام کے بعد ائمہ میں پائے جاتے ہیں پس وہ زندیق ہے اور جمہور متاخرین احناف و شوافع کا ایسے شخص نے قتل پر اتفاق ہے۔
آپ اپنی معروف کتاب الخير الكثير میں حضرت سیدنا عیسی علیہ السلام کے متعلق لکھتے ہیں۔
و عيسى عليه السلام هو من اتم الانبياء شانا و اجلهم برهانا، و مراجه السبوع و لذالك كانت معجزاته سبوغية كلها، وكان وجوده من طريق السبوع، و كذالك حق له ان ينعكس فيه انوار سيد المرسلين صلى الله عليه وسلم، ويزعم العامة انه اذا نزل في الارض كان واحدا من الامة، كلا بل هو شرع للاسم الجامع المحمدى و نسخة منتسخة منه، فشتان بينه و بين أحد من الامة الا انه يتبع القرآن، وياتم بخاتم الانبياء صلى الله عليه وسلم، وذالك لا يقدح فى كماله بل يويده، فتعرف، وهو بذاته محاق لشرور اليهود، ولذالك نزل بين يدى الساعة 12
اور عیسی علیہ السلام من جملہ ان انبیائے کرام کے ہیں جن کی شان سب سے کامل اور جن کی برہان سب سے جلیل القدر ہے، اور ان کا مزاج " السبوغ" ہے، اسی بنا پر ان کے سارے معجزات سبوغیت کے رنگ میں ہیں اور ان کا وجود بھی بطریق سبوغ ہوا، اسی بنا پر وہ مستحق ہوئے کہ ان میں سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کے انوار منعکس ہوں۔ اور عام لوگوں کا خیال ہے کہ جب وہ زمین میں نازل ہوں گے تو محض ایک امتی ہوں گے، ایسا ہر گز نہیں، بلکہ وہ تو اسم جامع محمدی ﷺ کی شرح اور اس کا ایک منفی ہیں، پس ان کے درمیان اور عام افراد امت کے درمیان زمین و آسمان کا فرق ہے، ہاں یہ ضرور ہے کہ وہ قرآن کریم کی پیروی اور خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدار کریں گے اور یہ بات ان کے کمال میں رخنہ انداز نہیں، بلکہ ان کے کمالات کو دوبالا کر دیتی ہے، خوب سمجھ لو اور وہ بنفس نفیس یہود کے شرور کو مٹانے والے ہیں، اسی مقصد کے لیے وہ قیامت سے پہلے نازل ہوں گے۔
مزید لکھتے ہیں کہ:
عن سعید بن ابی وقاص قال قال رسول الله عليه وسلم لعلی انت منی بمنزلة هارون من موسى الا انه لا نبی بعدي باید دانست كه مدلوں این حدیث نیست الا استخلاف مرتضي بر مدینه در غزوه تبوك و تشبیه دادن این استخلاف باستخلاف موسي هارون را در وقت سفر خود بجانب طور و معنی بعدي اینجا غیري است چنانکه در آیه فمن يهديه من بعد الله گفته اند نه بعدیت زماني زیرا که حضرت بهارون بعد حضرت موسیٰ باقی نماندند تا ایشان را بعدیت زمانیه ثابت بود و از حضرت مرتضی آن را استثناء كنند پس حاصل این است که حضرت موسی در ایام غیبت خود حضرت هارون را خلیفه ساخته بودند و حضرت هارون از اهل بیت حضرت موسی بودند و جامع بودند در نیابت نبوت و اصالت در نبوت و حضرت مرتضی مثل حضرت هارون است در بودن از اهل بیت پیغامبر و در نیابت نبوت بحسب احکام متعلقه بحکومت مدينه نه در اصالت نبوت پس ازیں حدیث فضیلت مرتضي مفهوم شد از جهت حاكم ساختن بر مدینه و استحقاق او حکومت را و تشبه به پیغامبري نه افضلیت برشیخین13
یہ قصہ تبوک کی طرف اشارہ ہے حضرت سعد بن ابی وقاص حضور علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت علی کو کہا کہ آپ کا میرے نزدیک وہی مرتبہ ہے جو حضرت ہارون کا موسی سے ہے سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ جانا چاہیے کہ اس حدیث کا مدلول صرف حضرت علی کا غزوہ تبوک میں مدینہ منورہ پر حضور علیہ السلام کا جانشین بننا ہے اور اس جانشینی کو حضرت موسیٰ، ہارون علیہ السلام کو کوہ طور پر سفر کے دوران جانشین بنانے کے ساتھ تشبیہ دینا مقصد ہے۔ اور اس جگہ بعدی ، غیری کے معنی میں ہے جیسا کہ آیت فمن يهديه من بعد اللہ میں کہا گیا ہے۔ بعدیت زمانی مراد نہیں ہے اس لیے کہ حضرت ہارون ، حضرت موسیٰ کے بعد زندہ نہ رہے تھے کہ ان کے لیے بعد یت زمانی ثابت کریں اور حضرت علی کو اس سے مستثنیٰ کریں پس خلاصہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ نے اپنی عدم موجودگی میں حضرت ہارون کو خلیفہ بنایا تھا اور حضرت ہارون ، حضرت موسیٰ کے اہل بیت میں سے تھے اور نبی کی نیابت اور اپنی نبوت کی اصالت کے جامع تھے اور حضرت مرتضی حضور علیہ السلام کے اہل بیت ہونے میں حضرت ہارون کی مانند ہیں اور حضرت علی کی نیابت نبوت مدینہ منورہ پر حکومت کے متعلقہ احکام کے اعتبار سے ہے، نبی ہونے کے اعتبار سے نہیں ہے پس اس حدیث حاکم مدینہ بننے کی جہت سے اور اس کا استحقاق رکھنے سے اور ایک پیغمبر کے ساتھ تشبیہ سے حضرت علی کی فضیات معلوم ہوئی حضرت ابو بکر و عمر پر ان کی فضیلت اس حدیث سے ثابت نہیں ہوتی۔
تفہیمات میں لکھتے ہیں کہ:
و محمد صلى الله عليه وسلم خاتم النبيين لا نبي بعده دعوته عامة لجميع الانس والجن و هو افضل الانبياء بهذا الخاصة و بخواص اخرى نحو هذه14
اور حضور علیہ السلام آخری نبی ہیں آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آپ کی دعوت تمام انسانوں اور جنوں کے لیے ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس خصوصیت کی وجہ سے اور اس جیسے دوسرے خواص کی وجہ سے تمام انبیاء کرام سے افضل ہیں۔