قادیانی حکیم ترمذی کا یہ قول نقل کرتے ہے: (ترجمہ) یہ جو گمان کیا جاتا ہے کہ ختم النبیین کی تاویل یہ ہے کہ آپ مبعوث ہونے کے اعتبار سے آخری نبی ہیں، بھلا اس میں آپ کی کیا فضیلت وشان ہے؟ اور اس میں کون سی علمی بات ہے۔ یہ تو احمقوں اور جاہلوں کی تاویل ہے۔ 1
قادیانی بزرگوں کے اقوال کیوں پیش کرتے ہیں حال آنکہ بزرگوں کے اقوال قادیانیوں کے نزدیک مستقل حجت نہیں چنانچہ مرزا صاحب لکھتے ہے کہ :
اقوال سلف و خلف در حقیقت کوئی مستقل حجت نہیں ۔ 2
تو قادیانی بزرگان امت پر یہ الزام کیوں لگاتے ہیں اور کہ وہ وفات کے قائل تھے اور ان کے اقوال کو بطور دلیل کیوں پیش کرتے ہیں ۔
مرزا صاحب کے مطابق رفع و نزول کا مسئلہ 13 صدیوں تک چھپا رہا اور یہ مرزا صاحب پر ظاہر ہوا ۔3
اور مرزا صاحب نے یہ مانا ہے کہ مسلمانوں کا 1300 سال سے عقیدہ رفع و نزول کا تھا ۔4
اب کیا اس کے بعد بھی سلف کے اقوال سے حجت پکڑنا درست ہے ۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ حکیم ترمذی کی طرف منسوب کتاب حکیم ترمذی کی وفات کے ایک ہزار تینتیس سال بعد شائع ہوئی امام ترمذی کی وفات 320ھ میں ہوئی اور کتاب ختم الاولیاء پہلی مرتبہ 1965ء میں شائع ہوئی اسلاف کرام کی کتابوں میں تحریف و الحاق ثابت ہے لہذا ان کی کتاب میں تحریف کا ہونا کوئی بعید نہیں لہذا قادیانی پہلے حکیم ترمذی کی عبارت اور کتاب کا صحیح ہونا ثابت کریں پھر اعتراض کریں ۔
اگر اس بات کو مان بھی لیا جائے تو آپ کا مقصود مذکورہ قول سے صرف یہ ہے کہ بعض نا واقف اور کم فہم لوگ ختم نبوت کے معنی کو صرف آخری نبی ہونے پر منحصر کر دیتے ہیں اور اس لفظ میں جو کمال کے معنی پائے جاتے ہیں، اس سے صرف نظر کر لیتے ہیں۔ جب کہ علماء محققین ختم نبوت سے آخری نبی ہونے کے ساتھ ساتھ کمال نبوت اور اتمام نبوت کے واقعی معنی بھی پیش نظر رکھتے ہیں۔ گویا کہ گہری نظر رکھنے والے علماء کے نزدیک ختم نبوت کا لفظ کمال اور آخریت دونوں معنی کو جامع ہے اور کمال سے قطع نظر کر کے صرف آخریت کو مراد لینا سطحی نظر کی دلیل ہے۔
قادیانیوں کی طرف سے حکیم ترمذی کو منکرین ختم نبوت کی فہرست میں شامل کرنا کھلا ہوا بہتان ہے۔ حکیم ترمذی بھی جمہور امت کی طرح آنحضرت ﷺ کی ذات اقدس پر سلسلۂ نبوت پوری طرح ختم ہونے کے قائل ہیں۔