قادیانی حضرات علامہ عبد الوہاب شعرانی کا یہ قول اپنی دلیل میں پیش کرتے ہیں:
اعلم ان مطلق النبوة لم ترتفع انما ارتفعت نبوة التشریع 1
یعنی جان لو کہ مطلق نبوت نہیں اٹھی (بند نہیں ہوئی) صرف تشریعی نبوت منقطع ہوئی ہے۔
قادیانی بزرگوں کے اقوال کیوں پیش کرتے ہیں حال آنکہ بزرگوں کے اقوال قادیانیوں کے نزدیک مستقل حجت نہیں چنانچہ مرزا صاحب لکھتے ہے کہ :
اقوال سلف و خلف در حقیقت کوئی مستقل حجت نہیں ۔ 2
تو قادیانی بزرگان امت پر یہ الزام کیوں لگاتے ہیں اور کہ وہ وفات کے قائل تھے اور ان کے اقوال کو بطور دلیل کیوں پیش کرتے ہیں ۔
مرزا صاحب کے مطابق رفع و نزول کا مسئلہ 13 صدیوں تک چھپا رہا اور یہ مرزا صاحب پر ظاہر ہوا ۔3
اور مرزا صاحب نے یہ مانا ہے کہ مسلمانوں کا 1300 سال سے عقیدہ رفع و نزول کا تھا ۔4
اب کیا اس کے بعد بھی سلف کے اقوال سے حجت پکڑنا درست ہے ۔
معترض نے اس عبارت کو سیاق وسباق سے کاٹ کر پیش کیا ہے۔ علامہ شعرانی کے ارشاد کا منشاء یہ ہے کہ نبی کی طرف جو بھی وحی آتی ہے وہ تشریعی ہی ہوتی ہے اور وہ مطلقاً بند ہو چکی ہے۔ لہٰذا اب کسی کو نبی کہا ہی نہیں جا سکتا۔ البتہ جو باتیں الہامات یا رؤیائے صالحہ سے معلوم ہو جائیں وہ تشریعی نہیں ہوتیں، مگر انہیں کمالات نبوت میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ اسی کو حضرت علامہ نے مطلق نبوت یعنی آثار نبوت سے تعبیر فرمایا ہے اور حضرت والا کا یہ قول دراصل ارشاد نبوی: "لا یبقى بعدى من النبوة شئ الا المبشرات" کہ میرے بعد سوائے رؤیائے صالحہ کے نبوت کا کوئی جز باقی نہیں رہا) کی توجیہہ وتشریح ہے جسے زبردستی غلط معنی پہنا دیئے گئے ہیں ۔ ورنہ علامہ شعرانی کا عقیدہ بعینہٖ وہی ہے جو تمام اہل سنت والجماعت کا ہے کہ آنحضرت ﷺ پر ہر طرح کی نبوت ختم ہوگئی ہے۔
چنانچہ آپ ایک جگہ فرماتے ہیں:
من قال ان الله تعالى امره بشی فذلك ليس بصحيح انما ذلك تلبيس لان الامر من قسم الكلام وصفته وذالک باب مسدود دون الناس5
جو شخص یہ دعویٰ کرے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے (براہ راست) کسی بات کا علم دیا ہے تو یہ صحیح نہیں بلکہ شیطان لعین کا فریب ہے۔ کیونکہ حکم کلام خداوندی کی ایک قسم اور اللہ کی ایک صفت ہے اور یہ دروازہ لوگوں کے لئے بند ہو چکا ہے۔
حضرت علامہ شعرانی کی اس وضاحت سے معلوم ہو گیا کہ اوامر ونواہی کی وحی اب آ ہی نہیں سکتی۔ اسی کو انہوں نے نبوت تشریعی کا دروازہ بند ہونے سے تعبیر فرمایا ہے اور غیر تشریعی نبوت سے آپ صرف رؤیائے صالحہ اور مبشرات ہی مراد لیتے ہیں۔ لہٰذا ان کی اصطلاحات کو دیکھتے ہوئے مؤلف صاحب کی پیش کردہ عبارت مرزائیوں کی نہیں بلکہ اہل سنت والجماعت کے مؤقف کی تائید کرتی ہے۔