قادیانی حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی کے مکتوبات میں سے ایک عبارت کا ترجمہ کرتے ہوئے زبردستی اپنا عقیدہ ثابت کرنے یی کوشش کرتے ہے ۔عبارت کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں: "خاتم الرسل (ﷺ) کے مبعوث ہونے کے بعد خاص متبعین آنحضرت ﷺ کا بطور وراثت کمالات نبوت کا حامل ہوتا، آپ کے ختم الرسل ہونے کے منافی نہیں ہے۔ یہ بات درست ہے۔ اس میں شک مت کرو۔" 1
قادیانی بزرگوں کے اقوال کیوں پیش کرتے ہیں حال آنکہ بزرگوں کے اقوال قادیانیوں کے نزدیک مستقل حجت نہیں چنانچہ مرزا صاحب لکھتے ہے کہ :
اقوال سلف و خلف در حقیقت کوئی مستقل حجت نہیں ۔ 2
تو قادیانی بزرگان امت پر یہ الزام کیوں لگاتے ہیں اور کہ وہ وفات کے قائل تھے اور ان کے اقوال کو بطور دلیل کیوں پیش کرتے ہیں ۔
مرزا صاحب کے مطابق رفع و نزول کا مسئلہ 13 صدیوں تک چھپا رہا اور یہ مرزا صاحب پر ظاہر ہوا ۔3
اور مرزا صاحب نے یہ مانا ہے کہ مسلمانوں کا 1300 سال سے عقیدہ رفع و نزول کا تھا ۔4
اب کیا اس کے بعد بھی سلف کے اقوال سے حجت پکڑنا درست ہے ۔
حضرت مجدد صاحب کے اس ارشاد میں دو باتیں قابل لحاظ ہیں:
(الف)حضرت نے اس میں صرف یہ ثابت فرمایا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے بعد بھی بعض کمالات نبوت یعنی اجزائے نبوت امت کے افراد میں پائے جا سکتے ہیں اور اس کی وجہ سے آنحضرت ﷺ کی ختم نبوت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ ظاہر ہے کہ اثر تو اس وقت پڑتا جب کہ بعض کمالات کے حامل کو نبی کہا جاتا۔ جب محض ان کمالات کے حصول سے کوئی نبی نہیں بن سکتا تو پھر آنحضرت ﷺ کی ختم نبوت اپنی جگہ پر برقرار ہے تو اس عبارت میں خود حضرت مجدد صاحب نے اس طرف اشارہ فرما دیا ہے کہ بعض کمالات نبوت سے متصف شخص پر نبوت کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: "ان الله رفیق یحب الرفق" یعنی اللہ تعالیٰ نرمی فرمانے والا ہے اور نرمی کو پسند بھی فرماتا ہے تو اگر کسی شخص میں نرمی کی صفت پائی گئی تو یہ تو کہا جا سکتا ہے کہ اس نے اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ صفت کو اپنا لیا۔ لیکن اسے محض نرمی کی صفت سے متصف ہونے کی وجہ سے خدائی کے منصب پر فائز نہیں کیا جا سکتا۔ یہی معاملہ آنحضرت ﷺ کے کمالات اور امت کے افراد کے کمالات کے درمیان ہے کہ آنحضرت ﷺ کے کمالات، اخلاق فاضلہ اور صفات حمیدہ کی جھلک امت کے افراد میں پائی جاتی تو ممکن ہے مگر یہ چند صفات نبوت تک نہیں پہنچا سکتیں۔ اس لئے امت میں ان صفات میں سے کسی کا یا بعض کا پایا جانا آنحضرت ﷺ کی ختم رسالت کے منافی نہیں ہے۔
(ب)حضرت مجدد صاحب نے اپنے متعدد مکتوبات میں یہ ثابت فرمایا ہے کہ بعض کمالات نبوت حضرات صحابہ کرام ، تابعین اور مجددین کو بفضل خداوندی حاصل رہے ہیں۔ خود اسی مکتوب میں جہاں سے مؤلف صاحب نے حضرت کی عبارت سیاق وسباق سے ہٹا کر نقل کی ہے، یہ صراحت موجود ہے کہ یہ بعض کمالات نبوت حضرات صحابہ اور اکابر تابعین کو بواسطہ پیغمبر آخر الزمان ﷺ عطاء ہوئے ہیں۔5حالانکہ ان صحابہ اور تابعین کو آج تک کسی نے نبی نہیں کہا تو معلوم ہوا کہ حضرت مجدد صاحب ان بعض کمالات نبوت کے حامل کو نبی نہیں مانتے اور آپ کی یہ عبارتیں کسی طرح بھی مؤلف صاحب کے لئے مفید مطلب نہیں ہیں، حضرت مجدد صاحب ختم نبوت کے بارے میں اپنے واضح عقیدہ کا اعلان اس طرح فرماتے ہیں:
اول انبیاء حضرت آدم است على نبينا وعليه الصلوة والتسليمات والتحيات وآخر شان و خاتم نبوت شان حضرت محمد رسول الله است عليهم الصلوة والتسليمات6یعنی سب سے پہلے سیدنا حضرت آدم ہیں اور نبیوں میں سب سے آخر اور ان کی نبوت ختم فرمانے والے سیدنا حضرت محمد رسول اللہ ﷺ ہیں۔ }}
ایسی واضح اور صریح عبارت کے باوجود حضرت مجدد صاحب کی طرف یہ بات منسوب کرنا کہ آپ نعوذ باللہ! آنحضرت ﷺ کے بعد اجرائے نبوت کے قائل تھے، آپ پر بدترین بہتان اور افتراء ہے۔