ابو عبدالرحمن بن سلمی ذکر کرتے ہیں۔ میں حسن و حسین کو پڑھا رہا تھا۔ ایک دفعہ حضرت علی کرم اللہ وجہ الکریم میرے پاس سے گزرے۔ تو انہوں نے فرمایا:
قال لي اقرأ هما و خاتم النبيين بفتح التاء
یعنی مجھے حضرت علی نے کہا کہ خاتم النبین کی فتح تا، کے ساتھ ان دونوں کو پڑھانا
یہاں سے اجرائے نبوت کے متعلق قادیانیوں کا استدلال سننے کے قابل ہے۔ زیر کے ساتھ پڑھانے سے حضرت علی کو اس بات کا خطرہ تھاکہ کہیں بچوں کے ذہن میں نبوت کے متعلق خلاف حقیقت عقیدہ نہ بیٹھ جائے 1ت
سبحان اللہ پختگی استدلال پر قربان جائیے۔ کہاں ہے فن تجوید میں قرآت کا مسئلہ کہاں اجرائے نبوت کے متعلق مرزائیوں کا اختراعی احتمال۔ صاف بات ہے۔ بچوں کو تعلیم کے وقت مختلف قرآت جتلانے کی ضرورت نہیں ہے۔ قرآن مجید کی عبارت ضبط کرانی ان کو فی الحال مقصود ہوتی ہے۔ لہذا معلم کو حضرت علی نے ہدایت فرما دی ایک ہی مشہور قرآت پر عبارت قرآن ضبط کرائی جائے۔ بکسر تاء والی قرآت سکھلانے کی ان کو فی الحال کوئی حاجت نہیں۔ مرزائی حضرات یہاں سے جو دوسری راہ اختیار کر رہے ہیں خواہ مخواہ سیدنا علی المرتضیٰ پر اجرائے نبوت کا افتراء اور بہتان باندھ رہے ہیں۔ اس پر ان کے پاس کون سے دلائل موجود ہیں۔ یہ مذکورہ عبارت میں خطرہ ہی خطرہ والا استدلال تو ماشاء اللہ بڑا قوی ہے۔ اس کو تو رہنے دیجیے۔ کوئی اور دلیل آپ کے پاس ہے تو بیان فرمائیےگا۔
ہم سیدنا علی المرتضی کرم اللہ وجہ الکریم کا مسلک مسئلہ ختم نبوت کے متعلق آپ ہی کی زبانی واضح کرتے ہیں۔ تاکہ خطرات پیدا کرنے اور احتمالات نکالنے کی ضرورت ہی نہ پیش آئے۔
1) حضرت علی حضور نبی کریم نے کے بدن مبارک کا حلیہ شریف بیان فرماتے ہوئے ذکر کرتے ہیں کہ:
بین كتفیه خاتم النبوة و هو خاتم النبيين
یعنی آپ کے کندھوں کے درمیان مہر نبوۃ تھی۔ اور آپ تمام نبیوں کو ختم کرنے والے ہیں۔2
اس میں حضرت علی اپنا واقعہ بیان فرماتے ہیں۔ غزوہ تبوک کے موقعہ پر آنحضرت ﷺ بمع اپنے صحابہ کرام و مجاہدین اسلام جہاد کے لیے مدینہ شریف سے تبوک کی طرف روانہ ہونے لگے تو نبی کریم ﷺ نے مجھے ارشاد فرمایا۔ کہ میں تجھے اس مدت سفر تک اپنا خلیفہ اور قائم مقام تجویز کر کے مدینہ میں چھوڑ جانا چاہتا ہوں۔ اس پر میں نے عرض کیا یا رسول اللہ اللہ آپ مجھے ساتھ لے جانے کی بجائے پیچھے چھوڑ کر جانا چاہتے ہیں۔ تو حضور علیہ السلام نے مجھے تسلی دلاتے ہوئے فرمایا:
الاتري ان تكون منى بمنزلة هارون من موسى الا انه لا نبی بعد ي3
اے علی تیرا مقام اور درجہ میری یہ نسبت وہی ہے۔ جیسے ہارون کو موسی کی بہ نسبت حاصل ہوا مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا۔
حضرت علی کی اس روایت کے بعد بشرط انصاف اس خیال کی گنجائش ہی نہیں رہتی کہ حضرت علی مرتضی بھی نبوت کے اجراء کو صحیح تسلیم کرتے ہوں۔ ہر گز نہیں حضرت علی کرم اللہ وجہ الکریم دوسرے تمام صحابہ کرام کی طرح نبی کریم ﷺ کو آخری نبی یقین کرتے ہیں۔ جب کہ انہوں نے خود امت مسلمہ پر مذکورہ بالا روایات کے ذریعہ اس چیز کو روشن فرما دیا ہے۔ بلکہ یہاں اس روایت
ان تكون منى بمنزلة هارون من موسى الا انه لا نبی بعدي
نے اس تاویل و توجیہ کو ختم کر کے رکھ دیا ہے۔ جو مرزائی صاحبان ذکر کیا کرتے ہیں۔ کہ حدیث لا نبی بعدي میں مستقل نبی صاحب شریعت نبی کی نفی حضور ﷺ نے فرمائی ہے۔ غیر مستقل اور غیر تشریعی نبی بالتبع کی نفی مراد نہیں ہے۔
حضرات ! ہر ایک اہل علم جانتا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام مستقل صاحب شریعت اور صاحب کتاب نبی تھے اور ہارون علیہ السلام ان کے بھائی غیر مستقل اور امدادی نبی تھے۔ موسیٰ علیہ السلام کے تابع ہو کر تبلیغ دین کا کام کرتے تھے۔ ان دونوں پیغمبروں کے آپس میں نائب مناب ایک دوسرے کا خلیفہ اور تابع متبوع ہونے کی حیثیت کو آنحضور ﷺ نے اپنے بعد علی المرتضی کے درمیان تشبیہہ دی۔ اس پر شبہ ہو سکتا تھا۔ ہارون جیسے تابع ہو کر نبی ہیں۔ ایسے ہی حضرت علی کو بھی تابع ہو کر نبوت حاصل ہو سکتی ہے۔ تو اس وہم فاسد اور خیال کو آپ نے ردفر مایا۔ الا انه لا نبی بعدي ۔ جس کا صاف مطلب ماقبل کے اعتبار ہی ہے۔ کہ میرے بعد بالتبع نبوت اور غیر مستقل نبوت بھی کسی کو ہر گز حاصل نہیں ہے اور قیامت تک کسی قسم کا کوئی نبی ظلی ہو یا بر وزی بالتبع ہو یا مستقل نہیں ہو گا۔ ناظرین کرام خیال فرما دیں خاتم النبین کوبفتح التا کے ساتھ تعلیم دینے کے متعلق حضرت علیؓ کے ارشاد فرمانے سے ان کے اجرائے نبوت کے عقیدہ کو استنباط کرنا کہاں تک درست ہو سکتا ہے؟
ختم نبوت پر حضرت علیؓ کی مزید روایات:
1۔عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رضي الله عنه یَقُوْلُ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ أُعْطِيْتُ مَا لَمْ یُعْطَ أَحَدٌ مِنَ الْأَنْبِیَاءِ۔ فَقُلْنَا: یَا رَسُوْلَ اللهِ، مَا ھُوَ؟ قَالَ: نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ وَأُعْطِيْتُ مَفَاتِيْحَ الْأَرْضِ وَسُمِّيْتُ أَحْمَدَ وَجُعِلَ التُّرَابُ لِي طَھُوْرًا وَجُعِلَتْ أُمَّتِي خَيْرَ الْأُمَمِ4
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: مجھے وہ کچھ عطا کیا گیا جو (سابقہ) انبیاء کرام علیھم ا لسّلام میں سے کسی کو عطا نہیں کیا گیا۔ ہم نے عرض کیا: وہ کیا ہے؟ فرمایا: میری رعب و دبدبہ سے مدد کی گئی اور مجھے زمین (کے خزانوں) کی کنجیاں عطا کی گئیں اور میرا نام احمد رکھا گیا اور مٹی کو بھی میرے لیے پاکیزہ قرار دیا گیا اور میری اُمت کو بہترین اُمت بنایا گیا۔2۔
عَنْ عَلِيٍّ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَرْسِلْتُ إِلَی الْأَبْیَضِ وَالْأَسْوَدِ وَالْأَحْمَرِ5
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: میں سفید، سیاہ اور سرخ (تمام انسانوں) کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں۔