logoختم نبوت

امر بامعروف اور نہی عن المنکرکا کام علماء کا یا عیسی علیہ السلام کا

اعتراض:

اگر امر معروف اور نہی عن المنکر کا کام علمائے اسلام کے سپرد ہے اور آنحضرت ﷺ کے بعد کسی نئے بنی کی ضرورت نہیں تو حضرت عیسیٰ کا دوبارہ تشریف لانا کس غرض سے ہے؟

جواب:

حضرت عیسیٰ کا تشریف لانا کئی وجہ سے ہے چنانچہ پہلی وجہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ نے دعا کی تھی "اے رب بخشش والے اور رحمت میں غنی، تو اپنے خادم کو قیامت کے دن اپنے رسول کی امت میں ہونا نصیب فرما۔1

خدا تعالیٰ نے آپ کی یہ دعا منظور فرمائی اور نہ صرف امت میں شامل ہونا مقرر فرمایا بلکہ آپ کو طویل عمر عطا فرما کر نشان قیامت مقرر فرمایا۔ حضرت عیسیٰ کا خود اپنا بیان ہے کہ "اللہ نے مجھے ہبہ فرمایا ہے کہ میں دنیا کے خاتمہ کے کچھ پہلے تک زندہ رہوں۔"2

دوسری جگہ ہے میں ہرگز مرا نہیں ہوں، اس لئے کہ اللہ نے مجھ کو دنیا کے خاتمہ کے قریب تک محفوظ رکھا ہے۔3

دوسری وجہ یہ ہے کہ خدواند کریم نے انبیاء سے عہد لیا تھا کہ وہ اور ان کی امتیں آنحضرت ﷺ پر ایمان لائیں، اگر آپ انکے زمانہ میں تشریف نہ لائیں تو آپ کی صفات بیان کر کے اپنی امتوں کو آپ کی تابعداری اور مددگاری کا حکم دیں۔ پس تمام نبی اپنے اپنے زمانے میں یہ عہد پورا کرتے رہے۔ حضرت عیسیٰ نے یہ عہد پورا کرتے ہوئے جب اپنے حواریوں کو آپ کی تشریف آوری کی بشارت دی تو خواہش ظاہر کی کہ اگر میں آپ کا زمانہ پاؤں تو آپ کی تابعداری اور مددگاری کا شرف حاصل کروں۔ چنانچہ "انجیل برنباس" میں ہے۔ "وہ کیا مبارک زمانہ ہے جس میں کہ یہ (رسول) دنیا میں آئیگا۔ تم مجھے سچ مانو۔ ہر آئینہ میں میں نے اسکو دیکھا اور اس کے ساتھ عزت وحرمت کو پیش کیا (اسکی تعظیم کی) ہے جیسا کہ اس کو ہر نبی نے دیکھا ہے کیونکہ ان (نبیوں) کو اس (رسول) کی روح بطور پیشگوئی کے عطا کرتا ہے اور جب کہ میں نے اس کو دیکھا میں تسلی سے بھر کر کہنے لگا۔ اے محمد ﷺ اللہ تیرے ساتھ ہو اور مجھ کو اس قابل بنائے کہ میں تیری جوتی کا تسمہ کھولوں، کیونکہ اگر میں یہ شرف حاصل کر لوں تو بڑا نبی اور اللہ کا قدوس ہو جاؤنگا۔4

پس آپ کے دوبارہ تشریف لانے کی یہ غرض بھی ہے کہ آپ کی خواہش مذکور پوری ہو جائے کیونکہ خدا تعالیٰ اپنے نبیوں کی خواہشات کو ضرور پورا کرتا ہے۔

تیسری وجہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ کے متعلق بعض خاص کام بھی مقرر ہیں جو احادیث سے ثابت ہیں جیسے کسر صلیب، قتل دجال وغیرہ جس کیلئے آپ کا تشریف لانا ضروری ہے۔

سب سے پہلے یہ ذہن نشین رکھیں کہ جب بھی قادیانی کسی بزرگ کی عبارت پیش کریں یا کوئی اعتراض کرے تو چند اصولی باتیں ذہن نشین کر لیں۔ قادیانیوں کا دجل خود ہی پارہ پارہ ہوجائے گا۔

1)سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ جب قادیانیوں کے نزدیک بزرگوں کے اقوال کو مستقل حجت نہیں تو وہ بزرگوں کے اقوال کو بطور اعتراض کیوں پیش کرتے ہیں؟

کیونکہ مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ:

اقوال سلف و خلف درحقیقت کوئی مستقل حجت نہیں۔5
undefined
(ازالہ اوہام ،حصہ دوم ،صفحہ: 538 ،مندرجہ روحانی خزائن جلد: 3 صفحہ: 389)

اس کے علاوہ مرزا صاحب کے بیٹے مرزا محمود نے لکھا ہے:

نبی کی وہ تعریف جس کی رو سے آپ (مرزاقادیانی) اپنی نبوت کا انکار کرتے رہے ہیں۔یہ ہے کہ نبی وہی ہوسکتا ہے جو کوئی نئی شریعت لائے یا پچھلی شریعت کے بعض احکامات کو منسوخ کرے۔یا یہ کہ اس نے بلاواسطہ نبوت پائی۔اور کسی دوسرے نبی کا متبع نہ ہو۔یہ تعریف عام طور پر مسلمانوں میں مسلم تھی۔6
undefined
(حقیقتہ النبوۃ، ص:122)

لیجئے خود مرزا محمود نے تسلیم کر لیا کہ مرزا صاحب کے آنے تک مسلمان نبی اسی کو سمجھتے تھے جو نئی شریعت لانے والا ہو۔ جب خود قادیانی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ مسلمانوں میں ایک ہی تعریف پائی جاتی تھی تو وہ پھر بزرگوں کی عبارات کو کیوں پیش کرتے ہیں؟

2)ہمارا دعوی یہ ہے کہ بزرگان دین میں سے کوئی ایک مسلمہ بزرگ بھی ایسا نہیں تھا جس کا یہ عقیدہ ہو کہ حضورﷺ کے بعد بھی کوئی نبی بن سکتا ہے اور فلاں شخص حضورﷺ کے بعد نبی ہے۔

قادیانی تاقیامت ایسی عبارت کسی بزرگ سے ثابت نہیں کر سکتے۔

3)قادیانی جتنی بھی بزرگوں کی عبارات پیش کرتے ہیں ان میں اگر ،مگر، چونکہ، چنانچہ کی قیدیں لگی ہوتی ہیں۔اور ایسی عبارات جن میں اتنی قیدیں لگی ہوں ان عبارات سے عقائد کے معاملے میں کوئی بددیانت ہی استدلال کرسکتا ہے۔

یاد رکھیں عقائد کے معاملے میں صرف نص صریح ہی قابل قبول ہوتی ہے کسی فرد کا کوئی قول قابل قبول نہیں ۔

پھر جن بزرگوں کی عبارات قادیانی تحریف و تاویل کرکے پیش کرتے ہیں ان بزرگوں کا درج ذیل عقیدہ ان کی ہی کتابوں میں واضح موجود ہے،یعنی :

1)آپﷺ پر نبوت ختم ہے۔

2)آپﷺکےبعد کسی بھی قسم کاکوئی نبی نہیں بن سکتا۔

3)آپﷺکے بعد آج تک کوئی شخص نبی نہیں بنا۔

4)جس شخص نے حضورﷺ کے بعد نبوت کا دعوی کیا۔اس کو انہوں نے کافر ہی سمجھا۔

4۔لے دے کے چند عبارات ہیں جن میں تاویل و تحریف کر کے قادیانی کہتے ہیں کہ حضورﷺ کے بعد بھی نئے نبی آسکتے ہیں۔

حالانکہ آج تک قادیانی کوئی ایک عبارت بھی ایسی پیش نہیں کر سکے جس میں یہ ہوں۔

1)جو عبارات قادیانی پیش کرتے ہیں ان میں حضرت عیسیؑ کی آمد کا ذکر نہ ہو۔

2)جو عبارات قادیانی پیش کرتے ہیں ان میں محض اجزائے نبوت یعنی سچے خواب وغیرہ یا بعض کمالات نبوت ملنے کا ذکر نہ ہو بلکہ امت کے بعض افراد کے لئے نبوت ملنے کا ذکر ہو۔

ہمارا دعوی یہ ہے کہ ان شرطوں کے ساتھ آج تک کوئی قادیانی کسی بھی بزرگ کی کوئی ایک عبارت بھی پیش نہیں کر سکے۔


  • 1 انجیل، برنباس، فصل :212، آیت 15 و 16، ص :294
  • 2 انجیل ،برنباس، فصل :221، آیت:16، ص :307
  • 3 انجیل ،برنباس، فصل :220، آیت 1 و 2، ص :305
  • 4 انجیل ،برنباس، فصل :44، آیت :27 تا31، ص:70
  • 5 ازالہ اوہام ،حصہ دوم ،صفحہ: 538 ،مندرجہ روحانی خزائن جلد: 3 صفحہ: 389کتاب مختلف الحدیث ،ص:236
  • 6 حقیقتہ النبوۃ، صفحہ :122

Netsol OnlinePowered by