logoختم نبوت

حدیثِ خاتم المہاجرین کی آڑمیں ختمِ نبوت پراعتراض اوراس کا مدلل جواب

اعتراض:

اطْمَئِنَّ يَا عم فَإِنَّكَ خَاتَمُ المُهَاجِرِينَ فِي الهِجْرَةِ، كَمَا أَنِّي خَاتَمُ النَّبِيِّينَ فِي النُّبُوَّةِ 1

آپ ﷺ نے فرمایا: اے چچا (عباس) آپ مطمئن رہیے کہ آپ اسی طرح خاتم المہاجرین ہیں جیسا کہ میں خاتم النبیین ہوں۔ کیا حضرت عباس کے بعد کوئی مہاجر نہیں ہوئے بلکہ کئی مہاجرین ہوئیں لہذا کئی نبی ہونے میں کیا مسئلہ ہے۔2

جواب:1

ایسی کچی بات قرآنی آیت کے مقابلہ میں ، تمہارے اس استدلال سے ہی ثابت ہوا، کہ تمہارے پاس خاتم بمعنی افضلیت قرآنی دلیل موجود نہیں ور نہ تم ضرور بیان کرتے ، باقی رہا تمہا را قرآنی آیت خاتم النبین معنی ختم اور آخری نبی کو ٹھکرانا اور اس کے مقابلہ میں تمہارے مقصد کے مطابق کوئی قرآنی آیت امدادی نہیں ہو سکتی تمہاری مرزا کے لئے ضرب عربی ہے ، آخیر تنگ اگر ایک تابعی کے قول سے قرآنی آیت کو ٹھکرانے کی کوشش کی اور دھو در دھوکا دیا کہ یہ حدیث مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔

مسلمان بیدار ہے۔ وہ تمہارے ان ہتھکنڈوں کو خوب جانتا ہے، بن دیکھے کبھی اعتبار نہیں کرتا، جو تم نے کنز العمال کی حدیث سے استدلال کیا ہے یہ اسلام میں قرآنی آیات صریحہ واحادیث صحیحہ مرفوعہ کے مقابلہ میں حجت نہیں ہوسکتی کیونکہ یہ تمہاری پیش کردہ کنز العمال کی حدیث مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم تک مرفوع نہیں بلکہ تابعی، آپ سے روایت کرتا ہے، اس روایت میں صحابی کا نام و نشان نہیں ، دیکھو صاحب کنز العمال نے خود اقرار کیا ہے، جو تم نے چشم پوشی سے کام لیا ہے، اس کے آخیر میں لکھا ہے ،

عَنْ ابْنِ شِهَابٍ مُرسلاً
یعنی یہ روایت ابن شہاب سے مروی ہے

کسی صحابی نے یہ روایت بیان نہیں کی، جس حدیث کا علم صحابی کو نہیں، اگر تابعی ہی صرف کر دے تو قابل قبول نہیں ہو سکتی۔

حضرت عباس کو خاتم المہاجرین کہنے کا مطلب:

حضرت عباس مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ کی جانب سب سے آخر میں ہجرت فرمانے والے ہیں۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کو فتح کرنے کے لیے صحابہ کرام (رضوان اللہ علیہم اجمعین ) کا لشکر لے کر تشریف لے جا رہے تھے تو راستے میں حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ ہجرت کر کے مکہ شریف سے مدینہ تشریف جا رہے تھے۔ راستے میں جب انہوں نے صحابہ کرام (رضوان اللہ علیہم اجمعین ) کو دیکھا تو افسوس کیا کہ مجھے ہجرت کرنے کی فضیلت حاصل نہیں ہو گی تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عباس رضی اللہ علیہ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ

اطْمَئِنَّ يَا عم فَإِنَّكَ خَاتَمُ المُهَاجِرِينَ فِي الهِجْرَةِ، كَمَا أَنِّي خَاتَمُ النَّبِيِّينَ فِي النُّبُوَّةِ 3
اے چچا آپ اطمینان رکھیں کیونکہ آپ مہاجرین کو ختم کرنے والے ہیں جس طرح میں انبیاء کو ختم کرنے والا ہوں۔

بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ مکہ شریف سے ہجرت کرنے والے آخری مہاجر تھے ۔ کیونکہ ہجرت دار الکفر سے دار الاسلام کی طرف ہوتی ہے۔ اور مکہ فتح ہونے کے بعد دار الاسلام ہے اور قیامت تک دارالاسلام ہی رہے گا۔ اور مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت نہیں ہو گئی آپ کے بعد کسی نے ہجرت نہیں کی۔ پھر فتح مکہ کا واقعہ پیش آ گیا اور آنحضرت ﷺ نے اعلان فرما دیا کہ :

لا هجرة بعد الفتح4
یعنی اب مکہ سے ہجرت کا حکم ختم ہو گیا ہے۔

آنحضرت ﷺ نے اسی اعتبار سے آپ کو خاتم المہاجرین کا لقب عنایت فرمایا ہے۔ چنانچہ مشہور مؤرخ علامہ ابن اثیر جزری (م: 630ھ) حضرت سہل ابن سعد ساعدی کے حوالہ سے روایت نقل کرتے ہیں:

استاذن العباس بن عبد المطلب النبی ﷺ فی الهجرة فقال لہ یا عم! اقم مكانك الذى انت بہ فان الله تعالى يختم بك الهجرة كما ختم بی النبوة 5
حضرت عباس نے آنحضرت ﷺ سے مکہ سے ہجرت کی اجازت چاہی تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اے چچا! آپ اسی جگہ ٹھہرے رہیے جہاں اس وقت مقیم ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ آپ پر اسی طرح مکہ سے ہجرت کا سلسلہ ختم فرمائے گا جیسے کہ مجھ پر نبوت کا سلسلہ ختم فرما دیا ہے۔

اس تفصیل سے یہ بات مخفی نہیں رہی کہ آنحضرت ﷺ کا مذکورہ بالا ارشاد تو خود ختم نبوت کے معنی پر دلالت کرتا ہے۔ اسے نبوت کے اجراء کی دلیل میں پیش کرنا سوائے بے شرمی اور ڈھٹائی کے کچھ نہیں ہے۔


  • 1 ہندی، کنز العمال، 13: 483، رقم: 7340
  • 2 احمدی پاکٹ بک ،ص:452،453
  • 3 ہندی، کنز العمال، 13: 483، رقم: 7340
  • 4 ترمذی شریف ج :1،ص:288
  • 5 اسد الغابہ ج :3 ص:2

Netsol OnlinePowered by