مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖن-وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا 1
اگر خاتم النبیین سے مراد یہ ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ آخری نبی ہیں اور آپ ﷺ کے بعد کسی نبی کا آنا محال ہے توقرب قیامت حضرت عیسیٰ علیہ السلام جو متفق علیہ نبی ہیں کی آمد کیسے ہو سکتی ہے، حالانکہ نزولِ مسیح علیہ السلام کا عقیدہ قرآن وسنت سے ثابت ہے اور امت مسلمہ کا اس پر اجماع ہے۔ لهٰذا دونوں میں سے کسی ایک عقیدے کا انکار لازم ہے۔ ختم نبوت پرایمان سے نزولِ مسیح کے عقیدہ سے دستبردار ہونا لازم ٹھہرتا ہے اور نزول مسیح کو مانا جائے تو ختم نبوت کا عقیدہ چھوڑنا پڑتا ہے۔
اس اعتراض کا جواب بڑا واضح ہے کہ ان دونوں عقیدوں میں قطعاً کسی قسم کا کوئی تعارض نہیں۔ خاتم النبیین کے معنی یہ ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ آخری نبی ہیں، آپ ﷺ کے بعد کسی شخص کو وصفِ نبوت کے ساتھ متصف نہیں کیا جائے گا، اس سے یہ مراد نہیں کہ پہلے نبیوں سے نبوت چھین لی گئی ہے یا وہ سب وفات پاچکے ہیں اور ان میں سے کوئی دنیا میں نہیں آسکتا۔ گزشتہ انبیاء چونکہ آپ ﷺ کی بعثت سے قبل وصف نبوت سے متصف ہوئے لهٰذا ان میں سے کسی ایسے نبی کی آمد کہ جس کی خبر قرآن و سنت نے دی ہو ختم نبوت سے مانع نہیں۔ ختم نبوت کے باب میں وارد شدہ تمام احادیث سے بھی وصفِ نبوت کا انقطاع مراد ہے۔ چونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو حضور نبی اکرم ﷺ سے پہلے نبی بنا کر مبعوث کیا گیا اس لیے قرب قیامت کے زمانے میں ان کی آمد عقیدۂ ختم نبوت سے متعارض نہیں۔ نیز یہ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام شریعت محمدی ﷺ کے تابع اور ممد و معاون کے طور پر تشریف لائیں گے وہ اپنی شریعت نافذ نہیں فرمائیں گے۔ لهٰذا عقیدۂ نزول مسیح کسی طور پر بھی عقیدۂ ختم نبوت سے متناقض و متصادم نہیں۔