logoختم نبوت

کیا اطاعتِ رسول سے نبوت کا درجہ حاصل ہو سکتا ہے؟ قادیانی استدلال کا رد

اعتراض:

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓىٕكَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّهَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیْنَۚ-وَ حَسُنَ اُولٰٓىٕكَ رَفِیْقًا1
اور جو اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانے تو اُسے ان کا ساتھ ملے گا جن پر اللہ نے فضل کیا یعنی انبیاء اور صدیق اور شہید اور نیک لوگ یہ کیا ہی اچھے ساتھی ہیں۔

اس آیت کریمہ کی تاویل کرتے ہوئے قادیانی اس میں مذکور چار درجات کا ذکر اس حوالے سے کرتے ہیں کہ اگر کوئی انسان اطاعت کاملہ کے نتیجہ میں صدیق، شہید اور صالح بن سکتا ہے تو اس کے نبی بننے میں کیا چیز مانع ہے، وہ نبی کیوں نہیں بن سکتا؟ ان کے بقول تین درجات کے اجراء کو ماننا اور ایک کو نہ ماننا تحریف معنوی کے مترادف ہے۔

جواب:

اس شبہ کا ازالہ یہ ہے کہ مذکورہ آیت میں نبوت یا کوئی اور درجہ ملنے کا توسرے سے ذکر ہی نہیں کہ کوئی انسان فلاں درجے تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔ یہاں تو محض اللہ اور رسول ﷺ کی اطاعت کرنے والے بندوں کے لئے چار قسم کے انعام یافتہ بندوں کی معیت و رفاقت کا ذکر ہے۔ مزید برآں آیت میں معیت سے مراد آخرت کی معیت اور سنگت ہے جو اللہ اور رسول ﷺ کے اطاعت گزاروں کو نصیب ہو گی۔ دنیا میں انعام یافتہ بندوں کی سنگت ہر مومن کے لئے حاصل کرنا ممکن نہیں۔ اس آیت کی یہی تفسیر امام جلال الدین سیوطیؒ نے جلالین میں، امام رازیؒ نے ’التفسیر الکبیر‘ میں اور بہت سے دیگر مفسرین نے کی ہے۔

اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے آزاد کردہ غلام حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ آپ ﷺ کی زیارت کے متمنی رہتے تھے اور زیادہ دیر جدائی پر صبر نہیں کر سکتے تھے۔ ایک دفعہ وہ اس حالت میں حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے کہ چہرے پر غم کے آثار نمایاں تھے، وجہ دریافت فرمائی تو عرض کرنے لگے: میں اگر آپ کی زیارت کروں تو طبیعت میں شوقِ ملاقات کی وجہ سے اضطراب اور بے چینی پیدا ہو جاتی ہے۔ مجھے یہ فکر کھائے جا رہی ہے کہ اخروی زندگی میں آپ جنت کے اعلیٰ درجے میں انبیاء کے ساتھ ہوں گے، وہاں ہم غلام آپ کی زیارت سے کیسے شاد کام ہو سکیں گے۔ اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی جس میں یہ خوش خبری دی گئی ہے کہ جنت میں وہ سب گروہ جن کا تذکرہ اس آیت میں کیا گیا ہے ایک ساتھ ہوں گے۔ یہ خوش نصیب اللہ اور رسول ﷺ کے اطاعت گزار انعام یافتہ بندے ہوں گے۔ اس میں معیت کا ذکر ہے، نبوت کا تو کوئی ذکر ہی نہیں جیسا کہ قادیانی دور کی کوڑی لاکر اطاعت کے صلے میں کسی انسان کا نبوت کے درجے تک رسائی پانے کا معنی نکالتے ہیں۔

یہاں یہ سوال بھی اٹھایا جاسکتا ہے کہ اگر صحابہ حضور نبی اکرم ﷺ کی اطاعت کے رنگ میں یہ درجہ کمال لئے ہوئے تھے تو ان میں سے کوئی نبی کیوں نہ بنا؟ وہ اس بات کو کیوں بھول جاتے ہیں کہ نبوت کسبی نہیں وہبی طور پر ملتی ہے قادیانیوں کا مرزا غلام احمد قادیانی کے بارے میں یہ عقیدہ ہے کہ مرزا صاحب کو نبوت اطاعت و اتباعِ رسول سے نہیں وہبی طور پر ملی ہے۔ خود مرزا صاحب کی یہ تحریر اس امر کی شہادت دیتی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ محدثیت محض وہبی چیز ہے کسب سے حاصل نہیں ہو سکتی جیسا کہ نبوت کسب سے حاصل نہیں ہو سکتی۔
undefined
(غلام احمد قادیانی، حمامۃ البشرٰی، مندرجہ روحانی خزائن، 7: 301)
صراط الّذین أنعمت علیہم اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جس شخص کو یہ مرتبہ ملا انعام کے طور پر ملا یعنی محض فضل سے نہ کسی عمل کا اجر۔
undefined
( چشمہ مسیحی،ص:42،روحانی خزائن ،ج: 20ص: 365)

نبوت وہبی شے ہے اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں میں سے جنہیں چاہا منتخب فرما یا اور سب سے آخرپر ختمِ نبوت کا تاج ہمارے آقا و مولا سیدنا محمد مصطفی ﷺ کے سر پر سجایااور آپ کو خاتم النبیین بنایا گیا آپ کے بعد یہ تاج اب قیامت تک کسی اور کے گلے میں نہیں سجایا جائیگا ۔


  • 1 النساء، 4: 69

Netsol OnlinePowered by