يُلْقِي الرُّوحَ مِنْ أَمْرِهِ عَلَى مَنْ يشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ 1
وہ روح کو اپنے حکم سے اپنے بندوں میں جس پر چاہتا ہے ڈالتا ہے۔
قادیانی استدلال:
اس آیت میں باقی الروح ارشاد فرمایا گیا ہے۔ اس صیغہ مضارع کا آنا اس پر دلیل ہے کہ القاء روح جاری ہے یعنی نبوت جاری ہے۔
آج تک کسی ایک عالم مفسر یا مجدد نے اس آیت کا یہ معنی بیان نہیں کیا جو آپ کر رہے ہو اگر کسی نے کیا ہے اور اس سے نبوت کا جاری ہونا ثابت کیا ہے جیسا کہ آپ کرتے ہو تو حوالہ پیش کریں ۔
یہ آیت سورۃ المومن کے دوسرے رکوع کی ہے جس میں کفار، معاندین حق اور مشرکین کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالی کے نیک اور صالح بندوں کو حکم دیا جا رہا ہے کہ تم خالص اللہ تعالی کی بندگی کرو اور اگر چہ کافروں کو یہ پسند نہ آئے چنانچہ ان مخلص بندگان خدا کو ذات قدسیہ کی طرف سے عطا کئے جانے والے انعام کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا الی الروح من امرہ یہاں پر روح سے مراد کلام الہی ہے۔ اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ جس کیسا تھ اللہ تعالی کلام فرمائے وہ نبی ہوگا دیکھئے قرآن مجید میں ہے کہ!
وَأَوْحَى رَبُّكَ إِلَى الَّنحْلِ2
اور تیرے رب نے شہد کی مکھی کی طرف وحی کی۔
وَأَوْحَى فِي كُلِّ سَمَاءٍ أَمْرَهَا3
ہر آسمان میں اسکے کام کا حکم بھیجا۔
وَإِذْ أَوْحَيْتُ إِلَى الْحَوَارِينَ أن أمنُوا بِیْ وَبِرَسُولِیْ4
اور جب میں نے حواریوں کی طرف وحی کی کہ مجھ پر پر اور میرے رسول پر ایمان لاؤ۔
إِذْ أَوْحَيْنَا إِلَى أَمِّكَ مَا يُوْ حی5
اور جب ہم نے تمہاری والدہ کو وحی کی جو وحی کی۔
إذْ يُوْحِىْ رَبُّكَ إِلَى الْمَلَئِكَةِ أَنِّي مَعَكُمْ6
جب تیرے رب نے فرشتوں کی طرف وحی کی کہ میں تمہارے ساتھ ہوں۔
یہ پانچوں آیات قرآنیہ ثابت کر رہی ہیں کہ اللہ تعالی نے شہد کی مکھی، حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ ملائکہ، حوار تین اور آسمانوں کی طرف وحی کی لیکن ان میں سے نبی کوئی بھی نہیں ہوا۔ تو معلوم ہوا کہ کسی کیساتھ اللہ تعالی کا کلام فرمانا اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ جس کیسا تھ کلام کیا گیا ہے وہ نبی ہوگا۔ اس لیے یہاں اجرائے نبوت کا استدلال کرنا ہی غلط ہے۔
اگر آپ سورۃ المومن کی یہ آیت حضور نبی کریم ﷺ کے بعد نبوت کا جاری ہونا بیان کر رہی ہے تو تب بھی آپ دعوی باطل ہے۔ کیونکہ آپ کا عقیدہ ہے کہ مستقل اور تشریعی نبوت ختم ہو چکی ہے اب غیر مستقل اور امتی نبوت حضور ﷺ کے بعد جاری ہے۔ جبکہ یہ آیت کریمہ صاف ظاہر کر رہی ہے کہ نبوت میں کسب ، کثرت ، اطاعت اور زہد و ورع کا کوئی دخل نہیں بلکہ یہ سراسر ایک وہبی امر اور عطیہ خدا وندی ہے وہ جس کو چاہے عطا کر دے جیسا کہ آیت کریمہ کے یہ الفاظ ہمارے اس موقف پر مہر تصدیق ثبت کرتے ہیں ۔ من امرہ علی من يشاء من عبادہ کہ وہ اپنے امر سے اپنے بندوں میں سے جس کو چاہے منصب نبوت سے سرفراز کر دے اس میں کسی محنت اور کسب کو کوئی دخل نہیں ہے۔ لہذا تمہارا دعوی باطل ہے۔