logoختم نبوت

آیتِ تمییز خبیث وطیب اور ختمِ نبوت: قادیانی تاویل کا علمی محاکمہ

اعتراض:

مَا كَانَ اللَّهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى مَا أَنْتُمْ عَلَيْهِ حَتَّى يَمِيْزَ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ وَ مَا كَانَ اللَّهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ وَلَكِنَّ الله يَجْتَبِي مِنْ رُّسُلِهِ مَنْ يَشَاءُ فَامِنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ وَإِن تُؤْمِنُوا وَتَتَّقُوا فَلَكُمْ أَجْرٌ عَظِيمٌ 1
اللہ مسلمانوں کو اس حال پر چھوڑنے کا نہیں جس پر تم ہو جب تک جدا نہ کردے گندے کو ستھرے سے اور اللہ کی شان یہ نہیں کہ اے عام لوگو تمہیں غیب کا علم دے دے ہاں اللہ چُن لیتا ہے اپنے رسولوں سے جسے چاہےتو ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسولوں پر اور اگر ایمان لاؤ اور پرہیزگاری کرو تو تمہارے لیے بڑا ثواب ہے۔

قادیانی استدلال قادیانی کہتے ہیں کہ آل عمران مدنی سورۃ ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت ملنے کے تیرہ سال بعد نازل ہوئی اس وقت پاک اور ناپاک میں فرق ہو چکا تھا۔ اس لیے اب کوئی اور رسول آئے گا اور فرق کرے گا۔2

جواب نمبر 1:

قادیانیوں کا یہ کہنا کہ جب یہ آیت نازل ہوئی اس وقت پاک اور نا پاک میں فرق ہو چکا تھا یہ بات درست نہیں ہے اس آیت میں جو پاک اور نا پاک میں فرق کی بات ہو رہی ہے وہ مومنوں اور منافقوں میں فرق کی بات ہو رہی ہے۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ کیا اس آیت کے نزول کے وقت مومن منافق میں امتیاز ہو چکا تھا یا نہیں۔ جواب اسی آیت میں موجود ہے کہ کلی طور پر ابھی نہیں ہوا تھا بہت سے منافق مسلمانوں میں ملے جلے تھے چناچہ اللہ فرماتا ہے۔

مَا كَانَ اللهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى مَا أَنْتُمْ عَلَيْهِ 3
اللہ ایسا نہیں کر سکتا کہ مومنوں کو اس حالت پر چھوڑ رکھے جس پر تم لوگ اس وقت ہو۔

اس کے علاوہ اسی سورۃ آل عمران کی پہلی آیات میں ملتا ہے۔

ھاانتم أولا تُحِبُّونَهُمْ وَلَا يُحِبُّونَكُمْ وَتُؤْمِنُون بالكتب كُلّه وَإِذَا لَقُوْكُمْ قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْا عَضُوا عَلَيْكُمُ الْأَنَامِلَ مِنَ الْغَيْظِ قُلْ مُوْتُوْا بِغَيْظِكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ 4
سنتے ہو یہ جو تم ہو تم تو انہیں چاہتے ہو اور وہ تمہیں نہیں چاہتے اور حال یہ کہ تم سب کتابوں پر ایمان لاتے ہو اور وہ جب تم سے ملتے ہیں کہتے ہیں ہم ایمان لائے اور اکیلے ہوں تو تم پر انگلیاں چبائیں غصہ سے تم فرما دو کہ مرجاؤ اپنی گھٹن(قلبی جلن) میں اللہ خوب جانتا ہے دلوں کی بات۔

اس آیت سے بھی واضح ہوتا ہے کہ منافقین ابھی موجود تھے اور ان میں اور مسلمانوں میں فرق نہیں ہوا تھا۔

اسی طرح

وَ مِمَّنْ حَوْلَكُمْ مِنَ الْأَعْرَابِ مُنفِقُونَ وَ مِنْ أَهلِ الْمَدِينَةِ مَرَدُوْا عَلَى النِّفَاقِ لَا تَعْلَمُهُمْ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ سَنُعَذِّبُهُمْ مَرَّتَيْنِ ثُمَّ يُرَدُّونَ إلى عَذَابٍ عَظِيمٍ 5
اور تمہارے آس پاس کے کچھ گنوار منافق ہیں اور کچھ مدینہ والے ان کی خو(عادت) ہوگئی ہے نفاق تم انہیں نہیں جانتے ہم انھیں جانتے ہیں جلد ہم انہیں دوبارہ عذاب کریں گے پھر بڑے عذاب کی طرف پھیرے جائیں گے۔

اسی طرح سورۃ منافقون جو مدنی سورۃ ہے اس میں منافقوں کے وجود کا ذکر موجود ہے۔ لہذا یہ ثابت ہوا کہ جب یہ آیت نازل ہوئی اس وقت پاک اور ناپاک میں مکمل تفریق نہیں ہوئی تھی جس سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ قادیانی حضرات کا یہ کہنا کہ جب یہ آیت نازل ہوئی اس وقت پاک اور نا پاک میں مکمل تفریق ہو چکی تھی لہذا یہ آیت کسی آئندہ رسول کے متعلق ہے سراسر غلط ، جہالت بلکہ یہودیانہ تحریف ثابت ہوتی ہے۔

جواب نمبر 2:

یہ کہنا کہ آئندہ رسول آئیں گے یہ مطلب رکھتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے خباثت اور طیب میں امتیاز نہیں ہوا۔

حالانکہ قرآن مجید فرماتا ہے :

(1) الَّذِيْنَ يَتَّبِعُوْنَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِي الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِنْدَهُمْ فِي التَّوْرِيةِ وَالْإِنْجِيْلِ يَأْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهُمْ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الخَبيثَ وَيَضَةُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَالأَمالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَ نَصَرُوهُ وَ اتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِى أُنْزِلَ مَعَه " أُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ 6
وہ جو غلامی کریں گے اس رسول بے پڑھے غیب کی خبریں دینے والے کیجسے لکھا ہوا پائیں گے اپنے پاس توریت اور انجیل میں وہ انہیں بھلائی کا حکم دے گا اور برائی سے منع فرمائے گا اور ستھری چیزیں ان کے لیے حلال فرمائے گا اور گندی چیزیں اُن پر حرام کرے گا اور اُن پر سے وہ بوجھ اور گلے کے پھندے جو ان پر تھے اُتارے گا تو وہ جو اس پر ایمان لائیں اور اس کی تعظیم کریں اور اسے مدد دیں اور اس نور کی پیروی کریں جو اس کے ساتھ اُترا وہی بامراد ہوئے
(2) وَقُلْ جَاءَ الْحَقُ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَھوقًا 7
اور فرماؤ کہ حق آیا اور باطل مٹ گیا بےشک باطل کو مٹنا ہی تھا۔

پس حق اور باطل میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے امتیاز قائم ہو چکا ہے اس لیے اب کسی اور رسول کی ضرورت نہیں رہی۔


  • 1 آل عمران :179
  • 2 خلاصہ کلام پاکٹ بک صفحہ 250
  • 3 آل عمران :179
  • 4 آل عمران :119
  • 5 التوبہ :101
  • 6 الاعراف :157
  • 7 بنی اسرائیل:81

Netsol OnlinePowered by