logoختم نبوت

آیتِ اکمال دین اور ختم نبوت: قادیانی اعتراض کا علمی رد

اعتراض:

الیوم اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا 1

اس آیت کو ختم نبوت کی دلیل نہیں بنا سکتے کیونکہ دین کو کامل کرنے سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اس دین کو تمام ادیان دنیا پر غلبہ عنایت فرمایا اور اس امت کو تمام دشمنوں سے محفوظ فرمایا نیز اکمال دین کی غرض یہ ہے کہ جس سال میں عرفہ کے دن یہ آیت نازل ہوئی تھی اس سال فتح مکہ کی وجہ سے موسم حج تمام مشرکین کے تسلط سے پاک ہوگیا تھا تو ممکن ہے کہا من و امان کے ساتھ حج کرنے کو اکمال دین سے تعبیر کیا گیا ہو خلاصۃ یہ ہے کہ یہ آیت ختم نبوت کی دلیل نہیں مل سکتی؟

جواب:

اس آیت کے متعلق بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ کےپاس ایک یہودی آیا اور اس نے کہا، اے امیرالمومنین ! رضی اللہ عنہ ،آپ کی کتاب میں ایک آیت ہے ،اگر وہ ہم یہودیوں پر نازل ہوئی ہوتی تو ہم اس کے نازل ہونے کے دن عید مناتے ۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اس سے فرمایا ’’ کون سی آیت؟ اس یہودی نے یہی آیت ’’الیوم اکلمت لکم ‘‘ پڑھی۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ’’ میں اس دن کو جانتا ہوں جس میں یہ نازل ہوئی تھی اور اس کے نازل ہونے کے مقام کو بھی پہچانتا ہوں ، وہ مقام عرفات کا تھا اور دن جمعہ کا۔2

آپ رضی اللہ عنہ کی مراد اس سے یہ تھی کہ ہمارے لئے وہ دن عید ہے۔ نیز ترمذی شریف میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے آپ رضی اللہ عنہ سے بھی ایک یہودی نے ایسا ہی کہا تو آپرضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جس روز یہ نازل ہوئی اس دن دو عیدیں تھیں ، جمعہ اور عرفہ۔ 3

غرض یہ آیت شریفہ اس امت کی اس عظیم الشان فضیلت کو بیان کررہی ہے جو باقرار اہل کتاب اس امت سے پہلے کسی کو نہیں ملی یعنی رب تبارک وتعالی نے نے اپنا دین مقبول اس امت کے لئے ایسا کامل فرمادیا کہ قیامت تک اس میں ترمیم کی ضرورت نہیں دین نے تمام چیزوں کو بیان کردیا اب تا قیامت کسی نئے دین یا نئے نبی کی رہبری کے محتاج نہیں ۔

امام خازن اس آیت کریمہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

وقیل إكمال الدّین لھذہ الأمّةإنه لا یزول ولا ینسخ وإن شریعتھم باقیة إلی یوم القیامة 4

اس امت کے لیے تکمیلِ دین سے مراد یہ ہے کہ یہ دین نہ مٹے گا اور نہ منسوخ ہو گا اور اس کی شریعت قیامت تک باقی رہے گی۔

علامہ ابن کثیر فرماتے ہیں:

ھذہ أكبر نِعَم الله تعالی علی ھذہ الأمّة حیث أکمل تعالیٰ لھم دینھم فلا یحتاجون إلی دین غیرہ ولا إلی نبیّ غیرنبیّھم صلوات الله و سلامه علیه ولھذا جعله الله تعالٰی خاتم الأنبیاء و بعثه إلی الإنس والجنّ فلا حلال إلا ما أحلّه ولا حرام إلا ما حرّمه ولا دین إلا ما شرعه و كلّ شی أخبر به فھو حق صدق لا كذب فیه ولا خلف 5

اللہ تعالیٰ کا اس امت پر سب سے بڑا انعام یہ ہے کہ اس نے ان کے لیے ان کا دین مکمل فرما دیا۔ اب وہ کسی دوسرے دین کے محتاج نہیں اور نہ اپنے نبی ﷺ کے سوا کسی دوسرے نبی کے۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم ﷺ کو تمام نبیوں کے آخر میں انسانوں اور جنوں کی طرف بھیجا۔ پس جس چیز کو آپ ﷺ نے حلال قرار دیا وہی حلال ہے اور جس چیز کو آپ ﷺ نے حرام قرار دیا اس کے علاوہ کوئی حرام نہیں اورجس دین کو آپ ﷺ لائے اس کے علاوہ (قیامت تک) کوئی دین نہیں اور ہر وہ چیز جس کے متعلق آپ ﷺ نے خبر دی وہ سچی ہے، اس میں جھوٹ کا شائبہ تک نہیں اور نہ ہی وہ خلاف واقع ہے۔

لہذا اکمال دین سے مراد قادیانیوں کی من مانی تفسیر نہیں بلکہ وہ تفسیر ہے جو صحابہ کرام اور مفسرین نے بیان فرمائی لہذا اکمال دین سے مراد یہ ہے کہ فرائض ،سنن اور حدود اور احکام اور حلال و حرام کو مکمل بیان فرمادیا اس کے بعد کوئی حلال و حرام نازل نہیں ہوگا اور نہ قیامت تک اس کی ضرورت ہے ۔یا اکمال دین سے مراد یہ ہے کہ دین قیامت تک رہنے والا ہے کبھی منسوخ نہ ہوگا ،

لہذا اس دین کے بعد کوئی دین اور نبی ﷺ کے بعد کوئی نبی تاقیامت پیدا نہ ہوگا ،

فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا یہ واقعہ مذکورہ سابق تفسیر کی روشن دلیل اور کھلی شہادت ہے، کیونکہ اگر اکمال دین اور اتمام نعمت سے نزول احکام دین کا اختتام اور وحی و نبوت کا انقطاع اور خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات مراد نہ تھی تو فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا اس موقع پر رونا بے محل اور بے معنی ہو جائے گا۔


  • 1 المائدۃ،5/6
  • 2 بخاری، کتاب الایمان، باب زیادۃ الایمان ونقصانہ، ۱ / ۲۸، الحدیث: ۴۵، مسلم، کتاب التفسیر، ص۱۶۰۹، الحدیث: ۵(۳۰۱۷)
  • 3 ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ المائدۃ، ۵ / ۳۳، الحدیث: ۳۰۵۵
  • 4 خازن، لباب التأویل في معانی التنزیل، 1: 435
  • 5 ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، 2: 13

Netsol OnlinePowered by