اللهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلَئِكَةِ رُسُلًا وَّ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ بَصِير1
اللہ فرشتوں میں سے بھی اپنا پیغام پہنچانے والے منتخب کرتا ہے اور انسانوں میں سے بھی۔ یقینا اللہ ہر بات سنتا ہر چیز دیکھتا ہے۔
اس آیت سے واضح طور پر معلوم ہو رہا ہے کہ نبوت و رسالت کا سلسلہ جاری ہے۔ يخطف مضارع کا صیغہ ہے جو حال اور مستقبل دونوں پر دلالت کرتا ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرشتوں اور لوگوں میں سے رسول چنتا رہے گا۔ لہذا ہمارا مدعا ثابت ہوا۔
آپ نے جو آیت پیش کی ہے اس میں لفظ رسول آیا ہے اور مرزا صاحب کے نزدیک رسول کا لفظ عام ہے اور رسول کے مفہوم میں نبی اور رسول اور مجد دو محدث کبھی شامل ہیں۔ جیسے کہ لکھا ہے:
(1) رسول کا لفظ عام ہے جس میں رسول اور نبی اور محدث داخل ہے۔2
اذا جاء الاحتمال بطل الاستدلال
(2) رسول سے مراد وہ لوگ ہیں جو خدا تعالی کی طرف سے بھیجے جاتے ہیں خواہ وہ نبی ہوں یا رسول یا محدث اور مسجد دہوں۔3
(3) رسل سے مراد مرسل ہیں خواہ وہ رسول ہوں یا نبی ہوں یا محدث ہوں ۔4
اور مرزا صاحب نے خود تسلیم کیا ہے کہ ایک عام لفظ کسی خاص معنوں میں محدود کرنا صریح شرارت ہے۔5
سو ظاہر ہے کہ قادیانیوں کا دعوی فرد خاص کا ہے۔ دلیل میں عموم ہے لہذا تقریب تام نہ ہونے کی وجہ سے استدلال باطل ہے۔ تو دلیل دلیل نہ ٹھہری۔
یہاں پر اللہ تعالی نے يصطفی فرمایا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی چنے گا حالانکہ تم جس قسم کی نبوت کے اجراء کے قائل ہو وہ اللہ تعالی کے چننے سے نہیں بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی برکت سے ملتی ہے۔6
دعوی اور دلیل میں مطابقت نہ ہونے کی وجہ سے دلیل دلیل نہ رہی۔
آپ کا دعویٰ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت جاری ہونے کا ہے اس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کا کوئی ذکر نہیں بلکہ مطلق ہے لہذا اس اعتبار سے دعویٰ آپ کی دلیل کے مطابق نہیں رہا۔ اس آیت سے معبودان باطلہ کی تردید کی ہے کہ اگر وہ معبود حقیقی ہوتے تو وہ بھی اپنے رسول مخلوق کی طرف بھیجتے ۔ جسطرح اللہ نے اپنے رسول بھیجے تھے۔
یہ کسی جاھل کا ہی نظریہ ہو سکتا ہے کہ ہر مضارع استمرار کے لئے ہوتا ہے۔ اس آیت میں صیغہ مضارع فعل کے اثبات کے لئے ہے نہ کہ استمرار اور تجدید کے لئے جیسے کہ دوسری جگہ فرمایا:
وھو الَّذِي يُنَزِّلُ عَلَى عَبْدِه آيَتٍ بَيِّنَتٍ 7
اللہ وہی تو ہے جو اپنے بندے پر کھلی کھلی آیتیں نازل فرماتا ہے۔
یہاں بھی مضارع ہے کیا اس سے یہ لازم آتا ہے کہ اس میں استمرار ہو اور ہمیشہ قیامت تک قرآن نازل ہوتا رہے؟ ثابت ہوا کہ کہ قرآن جب تک مکمل نہیں ہوتا اس وقت تک نازل ہوتا رہے گا ( جو کہ مکمل ہو چکا اور قرآن کا نزول بند ہو چکا ) اسی طرح انبیاء بھی اس وقت تک آتے رہے جب تک ختم نبوت نہ ہو گئی ۔ اب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مبعوث ہو جانے کے بعد ختم نبوت ہو چکی اور اب انبیاء کی تعداد میں کسی فرد کا اضافہ نہیں ہوگا۔ در حقیقت اس آیت میں يضطفى زمانہ استقبال کے لیے نہیں بلکہ حکایت ہے حال ماضیہ کی ۔ جیسے باری تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَ لَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَبَ وَ قَفَّيْنَا مِنْ بَعْدِهِ بِالرُّسُلِ وَآتَيْنَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنَتِ وَ أَيَّدْنُهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ افَكُلَّمَا جَاءَكُمْ رَسُولٌ بِمَا لَا تَهْوَى أَنْفُسُكُمُ اسْتَكْبَرْتُمْ فَفَرِيقًا كَذَّبْتُمْ وَ فَرِيقًا تَقْتُلُونَ 8
اس کے یہ معنی نہیں کہ یہودیوں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو نبی آئیں گے تم ان کو قتل کرو گے بلکہ حکایت ہے حال ماضیہ کی۔اور جیسے فرمایا
وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْرَهيمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَ اِسْمعِيْلُ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيْمُ9
اس میں بھی حکایت ہے حال ماضیہ کی
اس آیت میں فرشتوں اور انسانوں کا تذکرہ ہے اور مرزا صاحب نہ فرشتے ہیں اور نہ انسان۔ جیسا کہ وہ خود لکھتے ہیں:
کرم خاکی ہوں میرے پیارے نہ آدم زاد ہوں10