logoختم نبوت

آیت استخلاف میں خلافت مراد ہے، نبوت نہیں قادیانی تاویل کا رد

اعتراض:

وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِی الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِم وَ لَیُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِیْنَهُمُ الَّذِي ارْتَضٰى لَهُمْ وَ لَیُبَدِّلَنَّهُمْ مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًایَعْبُدُوْنَنِیْ لَا یُشْرِكُوْنَ بِیْ شَیْاوَ مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ 1
اللہ نے وعدہ دیا اُن کو جو تم میں سے ایمان لائے اور اچھے کام کیے کہ ضرور انہیں زمین میں خلافت دے گا جیسی اُن سے پہلوں کو دی اور ضرور اُن کے لیے جمادے گا اُن کا وہ دین جو اُن کے لیے پسند فرمایا ہےاور ضرور اُن کے اگلے خوف کو امن سے بدل دے گا میری عباد ت کریں میرا شریک کسی کو نہ ٹھہرائیں اور جو اس کے بعد ناشکری کرے تو وہی لوگ بے حکم ہیں۔

قادیانی استدلال:

قادیانی کہتے ہیں کہ اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت داؤد علیہ السلام کی طرح خلیفہ یعنی غیر تشریعی نبی ہوں گے۔

جواب نمبر 1:

اعتراض:

اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی مسلمانوں کو سلطنت عطا کرے گا، اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کے نبی خلیفہ ہوں گے ورنہ دوسری آیات میں کیا مطلب ہوگا،

جیسے :
قَالُوا اوْذِيْنَا مِنْ قَبْلِ أَنْ تَأْتِيَنَا وَ مِنْ بَعْدِ مَا جِئْتَنَا قَالَ عَلَى رَبُّكُمْ أَنْ يُهْلِكَ عَدُوِّكُمْ وَيَسْتَخْلِفَكُمْ فِي الْأَرْضِ2
بولے ہم ستائے گئے آپ کے آنے سے پہلے اور آپ کے تشریف لانے کے بعد کہا قریب ہے کہ تمہارا رب تمہارے دشمن کو ہلاک کرے اور اس کی جگہ زمین کا مالک تمہیں بنائے پھر دیکھے کیسے کام کرتے ہو۔

اس آیت کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ تم سب غیر تشریعی نبی بنا دیے گئے۔

وَ هُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلٰٓىٕفَ الْاَرْضِ وَ رَفَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّیَبْلُوَكُمْ فِیْ مَا اٰتٰىكُم اِنَّ رَبَّكَ سَرِیْعُ الْعِقَابِ وَ اِنَّهٗ لَغَفُوْرٌ رَّحِيم3
اور وہی ہے جس نے زمین میں تمہیں نائب کیا اور تم میں ایک کو دوسرے پر درجوں بلندی دی کہ تمہیں آزمائے اس چیز میں جو تمہیں عطا کی بے شک تمہارے رب کو عذاب کرتے دیر نہیں لگتی اور بے شک وہ ضرور بخشنے والا مہربان ہے

اس کا بھی ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اللہ تعالی انہیں غیر تشریعی نبی بنائے۔ اس خلافت سے حکومت اور زمینی وراثت مراد ہے جو حضرات صحابہ کرام علیہم الرضوان کے عہد میں پوری ہوگئی جیسے قرآن مجید میں ارشاد ہے آیات پہلے گزر چکی ہیں۔ صحابہ کرام کی جماعت اس کی مخاطب ہے اور انہی کو پہلوں کا خلیفہ ہونا بلفظ ماضی فرمایا گیا ہے۔

تفسیر الخازن میں لیستخلفنھم کا معنی لکھا ہے۔

ليور ثنهم أرض الكفار من العرب والعجم فجعلهم ملوكها وساسنها
یعنی مسلمانوں کو کفار عرب ہو یا عجم میں کی زمین کا وارث بنائے گا اور ان کو بادشاہ اور وہاں کا باشندہ بنادے گا۔4

اس کا مطلب یہ نہیں کہ غیر تشریعی نبی بنادے گا نیز یہی آیت تو ختم نبوت پر دلیل ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا سلسلہ بند ہے آگے خلفاء ہی ہوں گے پھر یہ وعدہ خلافت بھی ان سے ہے جو مومن بھی ہوں اور نیک عمل کرنے والے بھی ہوں کیا صحابہ کرام ان دونوں صفات سے موصوف نہ تھے؟ اگر تھے تو نبوت تشریعی یا غیر تشریعی کا دعوئی انہوں نے کیوں نہ کیا؟ اور اگر جواب نفی میں ہے تو یہ قرآن عظیم کے خلاف ہے۔ کیونکہ قرآن شاہد ہے کہ صحابہ کرام کی جماعت ان دونوں صفات سے موصوف تھی اور بعض صحابہ کرام خلیفہ بھی ہے مگر پھر بھی نبوت غیر تشریعی کا دعوئی ان سے ثابت نہیں ہے۔

جواب نمبر 2:

قادیانی اس آیت کی جو تفسیر کر رہے ہیں وہ خود ان کے مرزا صاحب کے خلاف ہے۔ مرزا صاحب نے اس آیت سے ایسے خلیفے مراد لئے ہیں جن کے مصداق خلفائے راشدین ہیں۔ چنانچہ مندرجہ بالا آیات کے تحت مرزا قادیانی صاحب لکھتے ہیں۔

(1) نبی تو اس امت میں آنے کو رہے۔ اب آگر خلفائے نبی بھی نہ آویں اور وقتا فوقتاً روحانی زندگی کے کرشمے نہ دکھلاویں تو پھر اسلام کی روحانیت کا خاتمہ ہے۔5

(2) خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اس نبی کریم کے خلیفہ وقتا فوقتا بھیجتا ہوں گا اور خلیفہ کے لفظ کو اشارہ کے لیے اختیار کیا گیا ہے کہ وہ نبی کے جانشین ہوں گئے۔ 6

(3) قرآن کریم نے اس امت میں خلیفوں کے پیدا ہونے کا وعدہ کیا ہے ایک زمانہ گزرنے کے بعد جب پاک تعلیم پر خیالات فاسدہ کا ایک غبار پڑ جاتا ہے اور حق خالص کا چہرہ چھپ جاتا ہے تب اس خوبصورت چہرے کو دکھلانے کے لئے مجدد اور محدث اور روحانی خلیفے آتے ہیں مجددوں اور روحانی خلیفوں کی اس امت میں ایسے ہی طور سے ضرورت ہے جیسے کہ قدیم سے انبیاء کی ضرورت پیش آتی رہی ہے۔7

ان حوالوں میں واضح طور پر تسلیم کیا گیا ہے کہ امت محمدیہ کی اصلاح و تربیت کے لیے کوئی نبی مبعوث نہیں ہوگا بلکہ انبیاء کے بجائے مجدداور محدث اور روحانی خلیفے آئیں گئے۔

جواب نمبر 3:

وعد اللہ الذین امنوا منکم میں صحابہ کرام کی تخصیص ہے موعود ہم صحابہ ہیں ورنہ منکم نہ فرمایا جاتا۔


  • 1 النور:55
  • 2 الاعراف:129
  • 3 الانعام :165
  • 4 تفسير الخازن، جلد :3 ص:302 سورۃ الانعام سورۃ نمبر :24 آیت نمبر :46 تا55
  • 5 شہادت القرآن، خزائن جلد :6 ص:355
  • 6 شہادت القرآن ،خزائن جلد: 6 ص: 339
  • 7 شہادت القرآن حزائن جلد: 6 ص:340،339

Netsol OnlinePowered by