اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيم صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ وَ لَا الضَالِّیْن 1
ہم کو سیدھا راستہ چلاراستہ اُن کا جن پر تُو نے احسان کیا،نہ اُن کا جن پر غضب ہوا اور نہ بہکے ہوؤں کا۔
قادیانی کہتے ہیں کہ جو ہمیں دعا سکھائی گئی ہے صراط الذین انعمت علیہ اس میں انعام سے مراد نبوت اور بادشاہت ہے جیسے کہ اللہ نے قرآن میں ارشاد فرماتا ہے:
وَ إِذْ قَالَ مُؤسى لِقَوْمِهِ يَقَوْمِ اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَعَلَ فِيْكُمْ انبيَاء وَجَعَلَكُمْ مُملوكاً 2
اور اس وقت کا دھیان کرو جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ : اے میری قوم! اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جو اس نے تم پر نازل فرمائی ہے کہ اس نے تم میں نبی پیدا کیے تمہیں حکمران بنایا۔3
اس آیت میں انعمت علمین کی راہ پر چلنے کی دعا سکھائی گئی ہے نہ کہ نبی بننے کی۔ اس کا یہ معنی ہے کہ انعمت علیہ کے طریقہ اور ان کے عمل کونمونہ بنایا جائے ۔ جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے حکم فرمایا ہے:
لقد كان لكم في رَسُولِ اللهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَان يَرْجُوا الله وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللهَ كَثِيرًا4
حقیقت یہ ہے کہ تمہارے لیے رسول اللہ کی ذات میں ایک بہترین نمونہ ہے ہر اس شخص کے لیے جو اللہ سے اور یوم آخرت سے امید رکھتا ہو، اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرتا ہو۔
یہاں صرف دعا کی جارہی ہے کہ آنْعَمْت عَلَيْهِمْ کے طریقہ پر عمل کرنے کی توفیق ملے۔ نبوت کے ملنے کی دعا نہیں کی جارہی۔
قادیانیوں کا یہ استدلال کہ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ ( نبیوں) کے راستے پر چلنے سے بندہ نبی بن جاتا ہے قرآن کے مطابق غلط ہے۔ اللہ نے قرآن مجید میں ارشادفرمایا:
وَ أَنَّ هَذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ ۚ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُم عَنْ سَبِيْلِهِ ذَلِكُمْ وَصكُمْ بِهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ5
اور یہ کہ یہی میرا سیدھا راستہ ہے سوتم اس کی پیروی کرو، اور (دوسرے ) راستوں پر نہ چلو پھر وہ ( راستے ) تمہیں اللہ کی راہ سے جدا کر دیں گے، یہی وہ بات ہے جس کا اس نے تمہیں تاکیدی حکم دیا ہے تا کہ تم پر ہیز گار بن جاؤ۔
اگر قادیانی اصول سے دیکھا جائے ( جو کہ غلط ہے ) تو اس آیت کا مطلب یہ بنے گا کہ شریعت پر عمل کرنے والے یعنی اللہ کے سیدھے راستے پر چلنے والے (استغفر اللہ ) خدا بن جائیں گے۔
نبوت دعاؤں سے نہیں ملتی کیونکہ نبوت وہبی ہے کسبی نہیں ہے۔ جیسے کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
اللهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهُ 6
اللہ خوب جانتا ہے کہ اسے اپنی رسالت کا محل کسے بنانا ہے۔
آیات سے واضح ہوتا ہے کہ نبوت صرف اللہ کے فضل سے سے عطا ہوتی تھی اس میں دعا یا نیک اعمال کا دخل نہیں ہوتا تھا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی یہ دعا ہر روز ما نگتے تھے جبکہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کو پہلے سے ہی نبوت عطا ہو چکی تھی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ان الفاظ صراط الذین انعمت علیھم کے ساتھ دعا کرنا اس امر کی واضح دلیل ہے کہ انْعَمْتَ عَلیہم سے نبوت مراد نہیں ہے۔
جواب نمبر 5:
اگر قادیانیوں کا یہ استدلال قبول کیا جائے کہ اس جگہ نبوت ملنے کی دعا کی جارہی ہے تو پھر چودہ سو سال میں کوئی ایک بھی مرزا صاحب سے پہلے نبی کیوں نہ بنا تو کیا کسی ایک کی دعا بھی قبول نہ ہوئی۔ جس مذہب میں کروڑوں لوگوں کی دعا قبول نہ ہو وہ امت خیر امت نہیں کہلا سکتی اور نہ اس کو کہلانے کا حق ہے۔ تو قادیانیوں کے مطابق یہ امت خیر امت نہیں ہے۔
اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيم
میں اہدِ نا جمع کا صیغہ ہے اگر قادیانی اصول کے مطابق اس کا ترجمہ کریں تو یہ بنے گا۔ اللہ تعالی ہم سب کو نبی بنائے ۔ تو معلوم یہ ہوا کہ اللہ نے مرزا قادیانی کی دعا بھی قبول نہیں کی ( قادیانی اصول کے مطابق ) اگر اللہ مرزا کی دعا قبول کرتا تو سارے قادیانی نبی ہوتے یا کم از کم اس کے نام نہاد صحابہ یعنی اس کے دور کے قادیانی تو سب نبی ہوتے لیکن وہ بھی نبی نہیں بنے۔
لوجی پوری امت میں چودہ سو سال سے قادیانیوں کے مطابق ایک ہی بندہ تھا جس کی دعا قبول فرمائی گئی تھی اب اس تحقیق سے ثابت ہوا کہ اس کی دعا بھی قبول نہیں ہوئی۔
یہی دعا عورتوں کو بھی سکھائی گئی ہے اگر انعام سے مراد نبوت ہے تو کیا عورتوں کو بھی نبوت مل سکتی ہے۔ ( قادیانی بھی اس بات کو مانتے ہیں کہ نبوت صرف مردوں کو عطا ہوتی ہے اب تک تو یہی عقیدہ تھا آگے اللہ عالم )