وَ اِذْ اَخَذَ اللّٰه مِیْثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَاۤ اٰتَیْتُكُمْ مِّنْ كِتٰبٍ وَّ حِكْمَةٍ ثُمَّ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهٖ وَ لَتَنْصُرُنَّه-قَالَ ءَاَقْرَرْتُمْ وَ اَخَذْتُمْ عَلٰى ذٰلِكُمْ اِصْرِي-قَالُو ا اَقْرَرْنَا-قَالَ فَاشْهَدُوْا وَ اَنَا مَعَكُمْ مِّنَ الشّٰهِدِیْنَ 1
اور یاد کرو جب اللہ نے پیغمبروں سے ان کا عہد لیا جو میں تم کو کتاب اور حکمت دوں پھر تشریف لائے تمہارے پاس وہ رسول کہ تمہاری کتابوں کی تصدیق فرمائے تو تم ضرور ضرور اس پر ایمان لانا اور ضرور ضرور اس کی مدد کرنا فرمایا کیوں تم نے اقرار کیا اور اس پر میرا بھاری ذمہ لیا سب نے عرض کی ہم نے اقرار کیا فرمایاتو ایک دوسرے پر گواہ ہوجاؤ اور میں آپ تمہارے ساتھ گواہوں میں ہوں
قادیانی کہتے ہیں اس جگہ ہر نبی سے قوم کی نمائندگی میں بعد میں آنے والے نبی کے بارے میں یہ عہد لیا گیا ہے کہ وہ اپنے بعد آنے والے نبی پر ایمان لائیں گے اور اس کی مدد کریں گے۔ اور یہ عہد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی لیا گیا ہے جیسے آیت سے ظاہر ہے کہ
وَ اِذْ اَخَذْنَا مِنَ النَّبِیّٖنَ مِیْثَاقَهُمْ وَ مِنْكَ وَ مِنْ نُّوْحٍ وَّ اِبْرٰهِیْمَ وَ مُوْسٰى وَ عِیْسَى ابْنِ مَرْیَم وَ اَخَذْنَا مِنْهُمْ مِّیْثَاقًا غَلِیْظًا2
اور اے محبوب یاد کرو جب ہم نے نبیوں سے عہد لیا اور تم سے اور نوح اور ابراہیم اور موسیٰ اور عیسٰی بن مریم سے اور ہم نے ان سے گاڑھا عہد لیا۔
اس آیت کی تفسیر خود مرزا صاحب نے لکھی ہے اور اس آیت کی تفسیر میں مرزا صاحب نے کہا ہے کہ آنے والے رسول سے مراد حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور یاد کر جب خدا نے تمام رسولوں سے عہد لیا کہ جب میں تمہیں کتاب اور حکمت دوں گا اور پھر تمہارے پاس آخری زمانہ میں میرا رسول آئے گا جو تمہاری کتابوں کی تصدیق کرے گا تمہیں اس پر ایمان لانا ہو گا اور اس کی مدد کرنی ہوگی۔ اب ظاہر ہے کہ انبیاء تو اپنے اپنے وقت میں فوت ہو گئے تھے یہ حکم ہرنبی کی امت کے لئے ہے کہ جب وہ رسول ظاہر ہو تو اس پر ایمان لاؤ جو لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہیں لائے خدا تعالیٰ ان کو ضرور مواخذہ کرے گا۔ 3
حقیقت الوحی کی اس تحریر سے ظاہر ہوتا ہے کہ مرزا صاحب کے عقیدے کے مطابق تمام انبیاء سے ایک نبی کی آمد کا عہد لیا گیا کہ جب وہ آئے تو اس پر ایمان لا نا اور اس کی مدد کرنا اور وہ نبی صرف حضور علیہ الصلاۃ وسلام ہیں جو آخری زمانہ میں تشریف لائے۔ قادیانیوں کا یہ کہنا کہ ہر نبی سے آنے والے نبی کے بارے میں عہد لیا گیا ہے اور حضور علیہ الصلاۃ والسلام سے بھی ان کے بعد آنے والے نبی کے بارے میں عہد لیا گیا ہے مرزا صاحب کے عقیدے کے خلاف ہے۔ اس تحریر سے قادیانیوں کی تاویل خود ہی باطل ہو جاتی ہے۔
تمام مفسرین کرام نے اس آیت میں ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُول سے مراد حضور علیہ السلام کی ذات اقدس کو ہی لیا ہے۔ جیسے حضرت علی اور حضرت ابن عباس اس آیت کی تفسیر میں ارشاد فرماتے ہیں۔ اللہ تعالی نے جب بھی کسی نبی کو معبوث فرمایا اس سے یہ پختہ وعدہ لیا کہ اگر میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تمہاری زندگی میں مبعوث کر دیا تو ان پر ضرور ایمان لانا اور اپنی امت سے بھی وعدہ لے لینا اگر تمہاری زندگی میں اللہ تعالی نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو معبوث فرمایا تو ان پر ضرور ایمان لانا اور ان کی معاونت بھی کرنا 4
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کی اس تفسیر سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ نے ہر نبی سے عہد لیا کہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام پر ایمان لائیں اگر حضور ان کی زندگی میں مبعوث ہو جائیں۔ قادیانیوں کی یہ تفسیر کے ہر نبی سے یہ وعدہ لیا گیا ہے کہ وہ اپنے بعد آنے والے نبی کی تصدیق کرے اور اس پر ایمان لائے درست نہیں۔
آیت میں ثُمَّ جَاءَ كُفر کے الفاظ قابل غور ہیں ان میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام انبیاء علیہ السلام کے ساتھ تشریف لانے کو لفظا م کے ساتھ ادا کیا گیا اٹم ہے جو لغت عربی میں تراشی یعنی مہلت کے لیے آتا ہے یعنی جب کہا جاتا ہے "جاءني القوم ثم عمر تو لغت عرب میں اس کے معنی ہوتے ہیں کہ پہلے تمام قوم آگئی پھر کچھ مہلت کے بعد سب سے آخر میں عمر آیا لہذا ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُول کے یہ معنی ہونگے کہ تمام انبیاء کے آنے کے سب سے آخر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔
قادیانی ایک اعتراض کرتے ہیں کہ آیت بالا میں رسول نکرہ ہے ؟
تو اس کا جواب یہ ہے کہ پیغمبر علیہ صلاۃ وسلام کے شاگردوں نے اس نکرہ کو معرفہ بنا کر اس کی تخصیص خود کر دی ہے جیسےمندرجہ ذیل آیات جس میں لفظ رسول نکرہ ہے مگر تخصیص کر کے لفظ رسول کو معرفہ بنایا گیا ہے:
هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ وَ یُزَكِّیْهِمْ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَة-وَ اِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْن 5
رَبَّنَا وَ ابْعَثْ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِكَ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ یُزَكِّیْهم6
لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ 7