وَ مَا اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ1
اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لیے۔
اگر امت مسلمہ میں باب نبوت مسدود ہو جانا تسلیم کر لیا جائے تو کیا آنحضرت ﷺ کے رحمۃ للعالمین ہونے اور اس امت کے خیر الامم ہونے پر زد نہیں پڑتی؟
یہ سوال نہایت لغو، بیہودہ اور بنائے فاسد علی الفاسد ہے۔ جس بنا پر یہ شبہ کیا گیا ہے وہ مرزا صاحب کا ارشاد بے بنیاد ہے۔ جو یہ ہے: "ہمارا مذہب تو یہ ہے کہ جس مذہب میں سلسلہ نبوت نہ ہو، وہ مردہ ہے۔2
امت مسلمہ میں باب نبوت مسدود ہو جانے سے حضور ﷺ کے رحمۃ للعالمین پر زد نہیں پڑتی بلکہ باب نبوت کھلا رہنے پر زد پڑتی ہے کیونکہ ایک نبی کا زمانہ اسی وقت تک رہتا ہے جب تک کوئی دوسرا نبی نہ آجائے۔ جب دوسرا نبی آجاتا ہے تو پہلے نبی کا زمانہ ختم ہو جاتا ہے پس اگر حضور ﷺ کے بعد باب نبوت مسدود نہ ہو تو آپ کا زمانہ بھی (نعوذ بالله) مسدود ہو جائے مگر آپ نبی آخر الزماں ہیں اور سرور دو جہاں ہیں۔ آپکی نبوت کا زمانہ قیامت تک ممتد ہے جو مرزا صاحب کے عقیدہ فاسدہ کے رد کرنے کیلئے ایک سد ہے۔
پس باب نبوت مسدود ہونا آپ کی رحمت کے منافی نہیں بلکہ آپ کی رحمت عالمین کیلئے اسی طرح وسیع ہے جس طرح خدا تعالیٰ کی ربوبیت عالمین کیلئے۔ کیونکہ اللہ جل شانہ وعز اسمہ، نے جس طرح اپنی ربوبیت کے ساتھ "عالمین" کا لفظ استعمال کیا ہے: الحمد لله رب العلمین اسی طرح اپنے محبوب کی رحمت کے ساتھ "عالمین" کو وابستہ کیا ہے وما ارسلنک الا رحمة للعلمین پس جس کی آنکھیں ہوں دیکھے اور جس کے کان ہوں سنے۔
حضور ﷺ کا "رحمۃ للعالمین" ہونا اجرائے نبوت کا متقاضی نہیں بلکہ ختم نبوت کا مقتضی ہے۔ کیونکہ پہلے نبی اپنی اپنی قوم کیلئے آتے تھے مگر حضور ﷺ تمام قوموں کے لئے مبعوث ہوئے جیسا کہ قرآن مجید شاہد ہے
:قُلْ ياَیُّهَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ جَمِیْعَا الَّذِي لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِۚ 3
اے پیغمبر کہو، اے لوگو میں تم سب کی طرف (اس) اللہ کا رسول ہوں جس کیلئے آسمانوں اور زمین کی بادشاہت ہے۔
دوسری آیت میں یہ ارشاد ہے:
وَ مَا اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا كَآفَّةً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًا وَّ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ 4
اور ہم نے تجھے تمام ہی لوگوں کیلئے خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔
اس آیت کے متعلق مولوی محمد علی صاحب مرزائی، امیر لاہوری پارٹی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں۔ یہاں اس لفظ "کافة" کو اختیار کر کے یہ بتایا گیا ہے کہ آپ کی رسالت عامہ سے اب کوئی شخص باہر نہیں نکل سکتا گویا اس سے خروج سے روکا گیا ہے کیونکہ کف کے معنی روکنا ہیں۔ یہ آیت بھی ختم نبوت پر دلیل ہے کیونکہ جب کوئی شخص اس رسالت سے باہر نہیں نکل سکتا تو اور رسول کی بھی ضرورت نہیں۔
نبی کے مبعوث ہونے کی غرض یہ ہوتی ہے کہ دین کی تکمیل ہو۔ سو حضور ﷺ کی بعثت سے یہ غرض بھی بدرجہ غایت پوری ہو گئی۔ خدا تعالیٰ نے آپ کے ساتھ دین کو کامل اور اپنی نعمت کو پورا کر دیا چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:
الیوم اَكمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِي وَ رَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا 6
آج میں نے تمہارا دین تمہارے لئے کامل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت کو پورا کر دیا اور تمہارا دین اسلام ہونے پر میں راضی ہوا
اس آیت کی تفسیر میں مولوی محمد علی صاحب مذکور لکھتے ہیں پس اکملت لکم دینکم سے مراد یہ ہوئی کہ جو غرض دین سے حاصل ہو سکتی ہے، وہ بدرجہ کمال تمہارے اس دین سے حاصل ہوگی۔ اب اسکے بعد کسی اور نبی کی ضرورت نہیں کہ وہ دین کو کامل کرنے کیلئے آئے جیسے پہلے آتے تھے۔
پس حضور ﷺ کی رحمۃ للعالمینی یہ ہے کہ:
1۔ آپ تمام دنیا کیلئے مبعوث ہوئے۔ تاکہ سارا جہان آپ کی رحمت سے فیض پائے اور قیامت تک کوئی آدمی اس فیض سے محروم نہ رہے۔
2۔ آپ کی رحمۃ للعالمینی یہ ہے کہ آپ کے ساتھ دین کامل ہو گیا اور خدا تعالیٰ نے اپنی رحمت پوری کر دی۔ اب کوئی چیز ایسی باقی نہیں رہی جو اس دین میں نہ ہو۔
3۔ آپ کی رحمۃ للعالمینی یہ ہے کہ گنہگار سے گنہگار انسان آپ کی تابعداری سے خدا تعالیٰ کا محبوب بن سکتا ہے اور مغفرت پاسکتا ہے۔ جیسا کہ ارشاد ہے:
قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ 8
اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو۔ اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے لئے بخشش کریگا اور گناہ معاف کر دیگا۔ اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔
4۔ آپ کی رحمۃ للعالمینی یہ ہے کہ آپ شفیع المذنبین ہیں:
هو الحبيب الذي ترجى شفاعته لكل هول من الأهوال مقتحم
5۔ آپ کی رحمۃ للعالمینی یہ ہے کہ آپ کے مبعوث ہونے کے ساتھ عذاب الہٰی رک گیا چنانچہ قرآن مجید میں ہے:
وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَ اَنْتَ فِیْهمْ9
اور اللہ ایسا نہیں کہ ان کو عذاب دے درانحالیکہ تم ان میں ہو۔
علامہ اسمعیل حقی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
قد ارسله الله تعالی رحمة للعلمين والرحمة والعذاب ضدان والضدان لا يجتمعان
یعنی الله تعالیٰ نے آپ کو رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا ہے اور رحمت اور عذاب ایک دوسرے کی ضد ہیں اور دو ضدیں آپس میں جمع نہیں ہو سکتیں۔ (اس لئے آپ کے) ہوتے ہوئے عذاب کیونکر آسکتا ہے۔ 10
پس مندرجہ بالا امور سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ کی رحمۃ للعالمینی پر باب نبوت کے مسدود ہونے سے کوئی زد نہیں پڑتی۔ کہنے کو مرزا صاحب کا دعوی بھی ہے کہ "رحمۃ للعالمین" ہوں ۔ مگر
"چہ نسبت خاک را با عالم پاک"
حضور ﷺ کی رحمۃ للعالمینی سے تو تمام دوست دشمن مستفید ہوئے اور عذاب الٰہی سے بچے۔ مگر مرزا صاحب کی رحمۃ للعالمینی ملاحظہ ہوں۔ مرزا صاحب لکھتے ہیں:
1 الامراض نشاع والنفوس تصاع 11
یعنی ملک میں بیماریاں پھیلیں گی اور جانیں ضائع ہوں گی۔
2۔ یاد رہے کہ خدا نے مجھے عام طور پر زلزلوں کی خبر دی ہے پس یقیناً سمجھو جیسا کہ پیش گوئی کے مطابق امریکہ میں زلزلے آئے۔ ایسے ہی یورپ میں بھی آئے اور نیز ایشیا کے مختلف مقامات میں آئیں گے اور بعض ان میں قیامت کا نمونہ ہونگے اور اس قدر موت ہوگی کہ خون کی نہریں چلیں گی الخ 12
3۔ اگر میں نہ آیا ہوتا تو ان بلاؤں میں کچھ تاخیر ہو جاتی، پر میرے آنے کیساتھ خدا کے غضب کے وہ مخفی ارادے جو بڑی مدت سے مخفی تھے، ظاہر ہو گئے۔13
ایسا ہی اور بھی بہت سے نشان جناب مرزا صاحب نے اپنی رحمۃ اللعالمینی کے لکھے ہیں۔
رہا امت کا خیر الامم ہونا سو یہ شرف بھی امت کو حضور ﷺ کے طفیل حاصل ہوا ہے۔ صاحب قصیدہ بردہ فرماتے ہیں:
بشري لنا معشر الإسلام أن لنا من العنایة ركنا غير منهدم
اے گروہ اسلام ہمارے لئے خوشخبری ہو، کہ ہمارے لئے خدا تعالیٰ کی عنایت سے ایسا رکن ہے (یعنی محمد مصطفیٰ) جو خراب وشکستہ ہونے والا نہیں۔
لما دعي الله داعينا لطاعتہ باكرم الرُّسُلِ كُنَّا أكرم الأمم
جب خدا تعالیٰ نے آنحضرت کو جو ہمیں خدا کی اطاعت کیلئے بلانے والے ہیں، تمام پیغمبروں سے افضل کہہ کر پکارا تو ہم بھی تمام امتوں سے افضل ہو گئے۔
تفسیر در منثور میں ہے:
واخرج ابن مردویةعن أبی بن كعب ان النبی ﷺ قال أعطيت مالم يعط احد من انبياء الله قُلْنَا يَا رَسُولُ اللهُ مَا هُوَ قَالَ نصرت بالرعب وأعطيت مفاتيح الأرض وسميت احمد وجعل لي تراب الأرض طهورا وجعلت أمتى خير الأمم 14
ابن مردویہ نے ابی بن کعب سے، انہوں نے نبی ﷺ سے روایت کی ہے۔ آپ نے فرمایا مجھے وہ کچھ دیا گیا جو اور کسی نبی اللہ کو نہیں دیا گیا۔ ہم نے کہا یا رسول اللہ وہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا میری نصرت رعب سے کی گئی اور مجھے زمین کی کنجیاں دی گئیں اور میرا نام احمد رکھا گیا اور میرے لئے مٹی پاک بنائی گئی اور میری امت بہترین امت بنائی گئی۔
یہ حدیث مولوی محمد علی صاحب نے بھی اپنی تفسیر، بیان القرآن میں درج کی ہےاور اس کے نیچے امت کی فضیلت کو بیان کیا ہے چنانچہ لکھتے ہیں۔
یہاں ساری امت کی فضیلت کا دوسری امتوں پر ظاہر کرنا مقصود ہے اور اگر اس امت کے معلم مزکی محمد رسول اللہ ﷺ دنیا کے تمام روحانی معالموں اور مزکیوں سے افضل ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ آنجناب کے شاگرد تمام الانبیاء کے شاگردوں سے افضل نہ ہوں۔ 15
پس اس بہترین خطاب (خیر الامم) میں وہی خوش قسمت ہو سکتا ہے جو شمع رسالت کا پروانہ ہو، نہ وہ بد نصیب جو کسی جھوٹے مدعی نبوت کا دیوانہ ہو۔