لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْهِمْ رَسُوْلًا1
بیشک اللہ نے ایمان والوں پر بڑا احسان فرمایا جب ان میں ایک رسول مَبعوث فرمایا۔
نبوت و بعثت اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے۔ امم سابقہ پر یہ نعمت جاری رہی، مگر جب حضور نبی اکرم ﷺ کی بعثت ہوئی تو اللہ رب العزت نے اس نعمت کو بعد میں جاری رکھنے کے بجائے اس سلسلے ہی کو ختم فرما دیا۔ یہ معاذ اللہ امت کی اس عظیم نعمت سے محرومی کے مترادف ہے۔
یہ شبہ ایک بہت بڑے مغالطے کی پیداوار ہے کہ سلسلۂ نبوت ختم ہونے سے نعمت ختم ہو گئی، بے شک نبوت اور بعثت کائنات میں اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت ہے اور نعمت سے محرومی تب ہو گی جب نبوت موجود نہ ہو جبکہ حقیقت یہ ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی نبوت سب سے بڑی نعمت کے طور پر موجود ہے اور تاقیامت موجود رہے گی۔ پہلے زمانے میں کسی نبی کی نبوت کا دائرہ اور علاقہ محدود ہوتا تھا وہ کسی ایک شہر یا گاؤں کے لیے مبعوث ہوتا اور اس پر ایمان لانا صرف اسی علاقے کے رہنے والے لوگوں کے لیے ضروری ہوتا لهٰذا اللہ تعالیٰ کا پیغام بھی اسی علاقے تک محدود رکھا جاتا اور وہ علاقہ جو اس نبی کی حدود میں شامل نہ ہوتا وہاں کے لیے کسی اور نبی کی بعثت ناگزیر ہوتی۔ تاریخِ انبیاء بتاتی ہے کہ ایک ہی وقت میں زمین پر اللہ کے کئی نبی موجود ہوتے۔ ایک نبی کے وصال کے بعد دوسرا نبی آجاتا اور نئے نبی کی بعثت سے قبل پہلے نبی کی نبوت کا زمانہ ختم ہو چکا ہوتا۔ گردشِ ماہ و سال کے نتیجے میں جب آقائے دوجہاں ﷺ کا زمانہ آ گیا تو مشرق سے مغرب تک کی پوری کائنات اپنی بسیط زمانی و مکانی وسعتوں کے اعتبار سے لامحدود تھی اور بے شمار علاقے اور خطے ایک افق سے دوسرے افق تک سب کے لیے ایک ہی نبی اور پیغمبر حضرت محمد مصطفی ﷺ مبعوث کر دیئے گئے جو بلاتفریق رنگ و نسل جملہ نوعِ انسانی کے ہادی و رہبر کامل تھے اورسب انسان ایک ہی نبوت کے سایہ رحمت میں اس طرح جمع کر دیئے گئے کہ انسانیت کو کسی نئے نبی کی ضرورت سے مطلقاً بے نیاز کر دیا گیا۔
چونکہ حضور نبی اکرم ﷺ کی بعثت کے بعد قیامت تک سارے زمانوں کو ایک ہی نبوت عطا فرما دی گئی۔ اس لیے محرومی کا سوال ہی نہ رہا نعمتِ نبوت تو بدستور موجود ہے۔ لهٰذا حضور نبی اکرم ﷺ کی ختمِ نبوت کا معنی یہ ہواکہ پہلے نبوّتیں اپنے دائروں میں محدود تھیں جبکہ آپ ﷺ کی نبوت زمان و مکاں کی ساری وسعتوں کو ابد تک محیط ہے۔ لهٰذا اب ہر زمانے میں نبی آخرالزماں ﷺ کی نبوت موجود اور قائم رہے گی اور جس طرح حضور نبی اکرم ﷺ آج سے چودہ صدیاں پہلے نبی تھے اسی طرح آج بھی بدستور نبی ہیں اور قیامت تک رہیں گے۔ اس سے پہلے کسی نبی کی آمد پر جب اس نبی کا کلمہ اس کی امت کو دیا جاتا تو دوسرے نبی کی آمد پر اس کے نام کے ساتھ اس کلمہ کو بدل دیا جاتا لیکن حضور نبی اکرم ﷺ کی بعثت کے بعد اب چاہے کروڑوں سالوں کا عرصہ بھی بیت جائے کلمہ فقط ایک ہی ہے اور ایک ہی رہے گا: لَا اِلٰهَ اِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللهِ۔ یہ کہنے کے بعد کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ساتھ ہی یہ بھی کہا جائے گا کہ محمد ﷺ کے سوا کوئی رسول نہیں۔ ہمارا ایمان ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ اتنی صدیاں گزر جانے کے بعد اپنے غلاموں پر آج بھی اسی طرح شفقت فرماتے اور اپنے دیدار سے بہرہ ور کرتے ہیں جیسے اپنی ظاہری حیات میں فرماتے تھے اور رشد و ہدایت کا سلسلہ جس طرح پہلے قائم تھا ویسے ہی آج بھی قائم ہے۔
اس لیے یہ بات حتمی اور قطعی ہے کہ نبوت کی نعمت آج بھی باقی ہے، سلسلہ نبوت ختم ہونے کے بعد نبوت محمدی ﷺ کی نعمت جس طرح پہلے قائم تھی آج بھی قائم ہے قیامت تک بلکہ قیامت کے بعد بھی قائم رہے گی۔
حضور نبی اکرم ﷺ کی آمد سے پہلے سابقہ انبیاء کے زمانے میں نئے نبی کی بعثت پر کچھ اس کو مانتے اور کچھ نہ مانتے۔ جو مان لیتے اور اس پر ایمان لے آتے وہ مومن اور جو نئے نبی پر ایمان لانے سے انکار کر دیتے وہ کافر ہو جاتے۔ گویا پہلے نبی پر ایمان لانے والے مومن ہو کر بھی کافر ہو جاتے۔ بنی اسرائیل کے یہودی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانے والے اولاً اور اصلاً مومن تھے۔ اور مدت مدید سے سرتاجِ نبوت حضور خاتم الانبیاء ﷺ کی آمد کے منتظر تھے۔ وہ اپنی کتابوں میں یہ پڑھتے چلے آئے تھے کہ اس نبی کا قیام کھجوروں والے شہر ’’یثرب کی بستی‘‘ میں ہو گا۔ چنانچہ وہ یہودی ہزاروں میلوں کی مسافت طے کر کے صرف حضور نبی اکرم ﷺ کے انتظار میں مدینہ آکر آباد ہو گئے تھے۔ وہ اپنے نبی کی عطا کردہ بشارت پر کامل ایمان رکھتے تھے، لیکن جب حضور نبی اکرم ﷺ اعلانِ نبوت کے بعد مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ تشریف لے آئے تو وہ یہودی جو پہلے مومن تھے اپنی بدبختی کے باعث حالتِ ایمان سے اس لیے باہر نکل گئے کہ انہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ پر ایمان لانے سے انکار کر دیا۔ اس طرح وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نبوت پر ایمان لانے کے باوجود کافر ہو گئے۔ یہ ایک مسلّمہ امر ہے کہ نبی کی آمد لوگوں کے لیے بہت بڑی آزمائش ہے کہ جب نیا نبی آ جائے تو اس پر ایمان لانا ضروری ہے اور ایمان نہ لانے والا کافر ہوجاتا ہے۔
یہودی عالم اور امت موسوی کے پڑھے لکھے لوگ آسمانی کتابوں میں حضور نبی اکرم ﷺ کے اوصاف اور علاماتِ نبوت پڑھ کر پہلے ہی ایمان لا چکے تھے لیکن نبوت خاندانِ بنو اسماعیل میں منتقل ہوجانے کے باعث ان کی اکثریت نے تعصّب اور حسد کی بناء پر آپ ﷺ پر ایمان لانے سے انکار کردیا اور اس انکار کے باعث ان پر بدبختی مسلط ہوگئی اور وہ کافر ہوگئے، حالانکہ وہ حضور نبی اکرم ﷺ کی علامتوں کو بخوبی جانتے اور پہچانتے تھے۔
اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم امتِ مسلمہ کے شاملِ حال ہوا اور اس نے سیدنا محمد مصطفی ﷺ کی بعثت پر ایمان کو اس کا مقدر بنا دیا۔ اگر خدانخواستہ امتِ مسلمہ کو ختمِ نبوت کی نعمت عطا نہ ہوتی اور اجرائے نبوت کا سلسلہ جاری رہتا اور مختلف زمانوں میں نبی آتے رہتے تو اگر کوئی سچا نبی اپنی نبوت کا دعویٰ کرتا اور کئی جھوٹے لوگ بھی اعلان نبوت کرتے تو کوئی سچے نبی کو مانتا اور کوئی جھوٹے کو، اس طرح جھوٹے کو ماننے والے کا ایمان بھی غارت ہو جاتا اور سچے نبی کو نہ ماننے والے کا ایمان بھی برباد ہو جاتا۔ ہم تو اتنے سادہ لوح ہیں کہ نبی کی پہچان تو درکنار کھرے کھوٹے کی پہچان بھی نہیں کر سکتے۔ کتنے نام نہاد رہبر و رہنما لوگوں کو گمراہ کرتے رہتے ہیں۔ دھوکے کا سلسلہ جاری ہے، لوگ دھوکے پر دھوکا کھائے جاتے ہیں۔ اس عاقبت نااندیش قوم کو اگر ایمان کی آزمائش میں ڈال دیا جاتا تو خدا جانے وہ اصلی اور جعلی نبیوں کی پہچان کرتے کرتے کس حال میں مبتلا ہو جاتی۔ ہم تو عام انسان کی پرکھ کے قابل نہیں چہ جائیکہ جھوٹی نبوت اور سچی نبوت پرکھ سکیں۔ چنانچہ اللہ رب العزت نے امتِ مسلمہ پر احسان عظیم کرتے ہوئے انہیں ختمِ نبوت کی نعمت عظمیٰ وجود مصطفی ﷺ کی صورت میں عطا فرما دی اور اسے وہ عظمت ورفعت اور شان و شوکت والا محبوب عطا کر دیا جو اپنے خصائص و معجزات، فضائل و کمالات اور محامد و محاسن میں سب انبیاء و رسل علیھم السّلام سے اعلیٰ و ارفع ہے۔ اب اسی نور مجسم کی محبت ہمارے لیے مرکز و محور ایمان ہے اور ہمیں کسی اور طرف دیکھنے کی مطلق ضرورت نہیں۔