مرزا صاحب اور ان کے متّبعین ایک شبہ یہ پیداکرتے ہیں کہ خاتم بمعنی انگوٹھی ہے جس سے زینت مراد لیا گیا ہے یعنی حضور نبی اکرم ﷺ زینتِ انبیاء ہیں۔ چنانچہ یہ آیت ختم نبوت سے متعلق ہی نہیں۔
انگوٹھی اور زینت لفظِ خاتم کا مجازی معنی ہے اور علمِ لغت، بدیع، بلاغت اور اصول کی رو سے مجازی معنی اس وقت لیا جاتا ہے جب حقیقی معنی مراد لینا متعذر، مشکل، ناممکن اور محال ہو، لهٰذا جب یہاں حقیقی معنی درست ہے اور قرآن وسنت کے عین مطابق ہے تو مجازی معنی لینے کی کوئی وجہ اور ضرورت ہی نہیں۔ دوسرے یہ کہ اگر ہر خاص و عام کے خیالات کو اور حقیقی و مجازی معانی وغیرہ کو تفسیرِ قرآن قرار دیا جانے لگے تو احکامِ شریعت بے معنی ہو کر رہ جائیں گے۔ لوگ اَقِيْمُوا الصَّلٰوۃ سے درود پڑھنا اور دعا کرنا مراد لے سکتے ہیں، فَلْیَصُمْہ کی تفسیر کسی بھی کام سے رکنا کریں گے اور حج و زکوٰۃ کو بھی ان کے حقیقی معنی پر محمول کر کے آسانی اور فرار کی راہ تلاش کرنا چاہیں گے۔ اسلام اس چیز کی اجازت نہیں دیتا۔ شریعت نے کسی لفظ کا جو معنی متعین کر دیا ہے وہی مراد لیا جائے گا خواہ حقیقی ہو یا مجازی۔ اسی طرح یہاں لفظِ خاتم کے مجازی معنی کا احتمال موجود ہے لیکن چونکہ اس لفظ کا جو معنی قرآن و حدیث سے ثابت ہے اور جس پر اجماع امت ہے اسے چھوڑ کر مجازی معنی مراد نہیں لیا جا سکتا۔
خاتم کا معنی انگھوٹھی لینے میں نبی ﷺ کی توہین لازم آتی ہے کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ تمام انبیاء تو بمنزلہ عروس کے ہیں اور آپ علیہ ا لسلام کی حیثیت محض ایک انگھوٹھی کی ہے اور ظاہر ہے کہ انگھوٹھی پہننے والے سے انگھوٹھی کی حیثیت کم ہوتی ہے نبی علیہ السلام کی شان تو سب سے اولی واعلی ہے لہذا یہ معنی متروک ہیں۔