logoختم نبوت

کیا " یٰبنی آدم" کا خطاب قیامت تک انبیاء کے تسلسل پر دلیل ہے؟

يبَنِي آدَمَ إِمَّا يَاتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِنْكُمْ يَقُصُّونَ عَلَيْكُمْ ايَتِي فَمَنِ اتَّقَى وَ أَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُوْنَ 1
اے آدم کی اولاد اگر تمہارے پاس تم میں کے رسول آئیں میری آیتیں پڑھتے تو جو پرہیزگاری کرے اور سنورے تو اس پر نہ کچھ خوف اور نہ کچھ غم

قادیانی استدلال:

اس آیت میں تمام بنی آدم کو مضارع کے صیغے کے ساتھ خطاب کیا گیا ہے اس لیے قیامت تک بنی آدم میں رسول آتے رہیں گے۔

جواب نمبر 1:

اگر یہ اجرائے نبوت کی دلیل مان بھی لی جائے تو بھی مرزا صاحب نبی نہیں بنتے کیونکہ کہ براہین احمدیہ حصہ پنجم میں انہوں نے اپنا بنی آدم ہونے سے انکار کیا ہے، لکھتے ہیں:

کرم خاکی ہوں میرے پیارے نہ آدم زاد ہوں

ہوں بشر کی جائے نفرت اور انسانوں کی عار2

اگر مرزا صاحب نے سچ بولا ہے تو اس دلیل کے مطابق آپ ان کو نبی ثابت نہیں کر پائیں گے اور اگر جھوٹ بولا ہے تب تو مرزا صاحب نبی نہیں ہو سکتے کیونکہ جھوٹا نبی نہیں ہوتا۔ ایک تاویل اور اس کا جواب قادیانی کہتے ہیں ہیں یہ مرزا صاحب نے کسر نفسی کی ہے۔ جواب یہ ہے کے آج تک کسی عقلمند آدمی نے اس طرح کسر نفسی نہیں کی ۔ اگر کی ہے تو بائبل کی کہانیوں کے علاوہ قرآن وحدیث سے کوئی دلیل پیش کرو۔ اب مرزا صاحب کی کسر نفسی کی کچھ حقیقت آپ کے سامنے رکھتے ہیں۔ لکھتے ہیں ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو اس سے بہتر غلام احمد ہے۔2

جواب نمبر 2:

تحقیقی جواب قادیانیوں کے اس باطل استدلال کا یہ ہے کہ:

پیر مہر علی شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ:

یہاں دو عموم ہیں ایک افراد انسانی کا عموم، دوسرا اتمام اوقات میں عموم واحاطۂ رسل۔ حتیٰ کہ آنحضرت ﷺ کے بعد بھی قیامت تک، ظاہر ہے کہ پہلا عموم دوسرے عموم کو مستلزم نہیں۔ بایں طور کہ ہر دور میں نئے نئے رسول آتے رہیں بلکہ یہ چیز امکان وقوعی کے طور پر ثابت ہے کہ ایک ہی رسول قرون کثیرہ کے افراد انسانی کے لئے کافی ہو جیسا کہ عیسیٰ علیہ السلام اُمت عیسویہ کے قرون کثیرہ کے لئے کافی ہوئے (یعنی حضور ﷺ کی بعثت سے قبل پانچ صد سال) یہ معاملہ باری تعالیٰ کی مشیت پر موقوف ہے۔ ہر ایک کے لئے جس قدر چاہتا ہے حد مقرر فرماتا ہے لہٰذا عین ممکن ہے کہ حضور ﷺ اپنے ہم عصروں کے لیے اور مابعد میں قیامت تک آنے والوں کے لیے کافی ہوں۔ پس آیت مذکورہ سے مستدل کا استدلال کوئی قوت نہیں رکھتا بلکہ حضور ﷺ کے بعد سلسلہ نبوت ورسالت کا انقطاع نص قرآنی (وخاتم النبیین) سے ثابت ہے۔

بالفاظ دیگر

قرآن مجید جو کلام الہی ہے جس میں آیات کے مابین حسین ارتباط موجود ہے لہذا قرآن مجید کی کسی بھی آیت یا حکم کے معنی و مفہوم کا تعین کرتے ہوئے سیاق و سباق کو مد نظر رکھنا جروری ہے کیونکہ قرآن کی بعض آیتیں بعض آیوں کی تفسیر کرتی ہیں۔ چنانچہ آئمہ تفسیر کے اس مسلمہ ضابطے اور اصول کو پیش نظر رکھتے ہوئے زیر مطالعہ آیت مبارکہ کے سیاق و سباق کی روشنی میں قادیانی فریب کا پردہ چاک کرتے ہیں۔ سورۃ الاعراف کے دوسرے رکوع کا آغاز ہی تخلیق انسانی اور آدم علیہ السلام کو فرشتوں کے سجدے سے ہو رہا ہے۔ اسکے بعد ابلیس شیطان کو آدم علیہ السلام کو سجدہ نہ کرنے اور حکم عدولی اور تکبر پر سزا دیتے ہوئے قال اخرج منها مذء ما ورفوراً حکم بنانے کے بعد آدم و حوا سلام اللہ علیہا کو جنت میں سکونت پذیر رہنے کا ارشاد ہوتا ہے پھر قصہ آدم و ایلیس مختصر طور پر بیان کرتے ہوئے تمام بنی آدم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا " یبنی آدم انزلنا عليكم لباسا " پھر فرمايا " يبنى آدم لا يفتننكم الشيطان یوں اللہ تعالی نے شیطان کے حملوں سے محفوظ رہنے اور اپنی بندگی اور عبادت کے آداب سکھاتے ہوئے پانی آدم خذ و از با تکم عند کل مسجد فرما کر آخر میں پوری نوع انسانی کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا " يبنى آدم اما يا تينكم رسل منكم یوں اس سیاق کلام کو سامنے رکھتے ہوئے غور و فکر کرنے سے جو حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ سورۃ الاعراف کی آیت ۳۵ میں یبنی آدم کے الفاظ سے خطاب کر کے جو بات کبھی جارہی ہے اسکا تعلق آغاز آفرنیش سے ہے نہ کہ نزول قرآن کے وقت سے۔ مطلب یہ کہ آفرنیش کار کے وقت جب حضرت آدم علیہ السلام کا زمین کی طرف حبوط کیا جانے لگا تھا اسوقت انکی پشت میں جوان کی اولاد موجود تھی اُن سب کو مخاطب کر کے متوجہ کر دیا گیا تھا کہ اے اولاد آدم تمہاری نجات اس ہدایت کی پیروی میں ہے جو خدا کی طرف سے بھیجے گئے انبیاء ورسل کے ذریعہ سے آئے اسکے علاوہ تم جس راہ کی طرف بھی جاؤ گے گمراہ ہو جاؤ گے۔

اسی قسم کے مضمون کی آیات قرآن مجید میں تین مقامات پر آئی ہیں اور ان میں سے ہر مقام پر قصہ آدم و حوا کے سلسلہ میں ہی اس کو وارد کیا گیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں! فَإِما يَأْتِيَنَّكُمْ مِنِّي هُدًى فَمَنْ تبِعَ هُدَايَ فَلَا خُوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ4

إِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِنْكُمْ يَقُصُّونَ عَلَيْكُمْ ايَتِي فَمَنِ اتَّقَى وَ أَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُوْنَ 5
پھر اگر میری طرف سے تمہارے پاس ہدایت آئے تو جو میری ہدایت پر ہے نہ ان کو ڈر ہے اور نہ وہ مکین ہوں گے۔ سواگر میری طرف سے تمہارے پاس ہدایت آئے سوجو کوئی میری ہدایت کی پیروی کرے گاوه نہ گمراہ ہوگا اور نہ تکلیف میں پڑے گا۔
إِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِنْكُمْ يَقُصُّونَ عَلَيْكُمْ ايَتِي فَمَنِ اتَّقَى وَ أَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُوْنَ 6
پھر اگر تم سب کو میری طرف سے ہدایت آئے تو جو میری ہدایت کا پیرو ہوا وہ نہ بہکے نہ بدبخت ہو۔

اگر ان تینوں آیات کے مضمون کو دیکھا جائے تو نہ صرف اس میں وحدت پائی جاتی ہے بلکہ تینوں کا موقع وعمل ایک ہی ہے اور وہ ہے قصہ آدم و حوا۔ لہذا اقرآن کے اس اسلوب سے واضح ہو گیا کہ یبنی آدم کے الفاظ سے نوع انسانی کو جو خطاب کیا جارہا ہے اسکا تعلق آغاز و ابتدائے آفرنیش کے وقت سے ہے نہ کہ نزول قرآن کے وقت سے یوں قرآن مجید کے ان تینوں مقامات کے سیاق و سباق اور موقع محل کو مد نظر رکھتے ہوئے اس زیر بحث آیت سے اجرائے نبوت پر استدلال کرنا سراسر جہالت اور کم نہی اور کم علمی کے سوا کچھ نہیں۔

جواب :3

تمہارا دعوی ہے کہ کامل اطاعت سے انسان کو نبوت مل جاتی ہے جس کو تم ظلی و بروزی اور اُمتی نبی کہتے ہو اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نبوت کسی چیز ہے زیر بحث آیت ( سورۃ الاعراف ۳۵:۷) سے تمہارے اس دعوے کا بھی بطلان ہو رہا ہے آیت کریمہ کے الفاظ یہ ہیں

إِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِنْكُمْ يَقُصُّونَ عَلَيْكُمْ ايَتِي 7

کہ تم میں سے رسول آئیں گے جو تم پر میری آیات تلاوت کریں گے۔

ان الفاظ قرآنی سے دو امور ثابت ہو رہے ہیں۔

ا۔ رسول تو تم میں سے آئیں گے لیکن بھیجنے والا میں اللہ تعالی ) ہوں

۲۔ رسول تم پر میری آیتیں، احکام پیش کرے گا یعنی تم کو شریعت دے گا۔

لہذا امر اول سے ثابت ہوا کہ نبوت سراسر موهبت ہے، وحی امر ہے، جو اللہ تعالیٰ جس کو چاہے عطا فرمائے گا۔ یہ بات آیت کی اشارۃ النص سے ثابت ہوئی یوں کہ اللہ تعالی یہ ارشاد فرما رہا ہے یبنی آدم پورے بوح انسانی کو خطاب کیا اب يَأْتِيَنَّكُمْ رُسُل " کہہ کر یہ واضح فرمادیا کہ اب تو میں نے خطاب تم سب کو کیا ہے مگر اسکے بعد تم میں سے ہر ایک کیسا تھ مخاطب نہیں ہوا کروں گا، بلکہ آج کے بعد مجھ سے ہمکلامی کا شرف وہی پائیں گے یا میں خطاب انھیں نفوس قدسیہ کو کیا کروں گا جس کو میں اپنی قدرت کاملہ اور رحمت تامہ کے ذریعہ سے اس شرف و سعادت کیلیے چن لیا کروں گا وہی نہی اور رسول کہلائیں گے۔ سو تمہاری سعادت مندی، کامیابی اب انھیں برگزیدہ اور مرسلین ہستیوں کی پیروی پری موقوف ہے جو ان نفوس قدسیہ کی راہ پر چلے گا وہ کامیاب ہوگا اور جو اسکو چھوڑ دے گا وہ شاہراہ حیات پر بھڑک کر گمراہ ہو جائے گا۔

جواب:4

اگر بقول آپ کے اس آیت کریمہ سے اجرائے نبوت کو مان بھی لیا جائے تو پھر بھی آیت واضح طور پر دلالت کرتی ہے کہ آنے والا نہی صاحب شریعت ہو اس لیے کہ " يَقُصُّونَ عَلَيْكُمْ آیتی " کے الفاظ صاف طور پر بیان کر رہے ہیں کہ نیا آنے والا نبی آیات الہیہ بیان کرے گا۔ حالانکہ تمہارا بھی عقیدہ ہے کہ حضور سید عالم ﷺ کی تشریف آوری کیسا تھ مستقل اور تشریعی نبوت کا دروازہ بند ہو چکا ہے اور اب صرف ظلمی اور امتی نبوت ( جو تمہاری اپنی ایجاد کردہ اصطلاحیں ہیں ) جارہ ہے ۔ اس طرح تو یہ آیت اور بطور خاص یہ الفاظ صریح اور کھلے طور پر تمہارے عقیدے کا بطلان ظاہر کر رہے ہیں۔

جواب :5

بڑے بڑے آئمہ تفسیر اور دیگر مفسرین بھی سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر ۱۳۸ اور سورۃ طہ کی آیت نمبر ۱۲۳ کی طرح سورۃ الاعراف کی اس آیت کو بھی قصہ آدم و حوا سے متعلق ہی قرار دیتے ہیں۔

چنانچہ امام رازی اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں!

ان كان خطا بالرسول عليه الصلوة والسلام وهو خاتم الانبياء عليه و عليهم السلام لانه تعالى اجرى الكلام على ما يقنضيه سنة في الامم 8
اگر خطاب نبی اکرم ﷺ کی طرف ہو حالانکہ وہ خاتم الانبیاء ہیں تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ اللہ تعالی یہاں اُمتوں کے بارے میں اپنی سنت بیان فرما رہا ہے۔

علامہ سید محمود آلوسی فرماتے ہیں!

ذهب اليه بعض المحققين ان هذا احكاية لما وقع مع كل قوم وقيل المراد يبنى آدم امة نبينا الله وهو خلاف ظاهر و يبعده جمع الرسل في قوله سبحانه اما یا تینكم رسل منكم 9
بعض محققین اس طرف بھی گئے ہیں کہ ہر قوم کیساتھ جو معاملہ پیش آیا ہے اسے یہاں حالیہ پیش کیا گیا ہے یہاں بنی آدم سے نبی اکرم ﷺ کی امت مراد لینا مستعبد اور خلاف ظاہر ہے کیونکہ یہاں جمع کا لفظ وسل “ استعمال ہوا ہے۔

علامہ ابن جرین طبری کی رائے!

عن ابي يسار السلمي قال ان الله تبارك تعالى جعل آدم و ذريته في كفه فقال (یا بنی آدم اما یا تینکم) 10
ابو بسیار سلمی نے بیان کیا ہے کہ اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام اور ان کی ذریت کو یکجا اور ایک ہی وقت میں خطاب کیا ہے۔

جواب : 6

سورۃ الاعراف کی اس آیت سے نبوت کا ثابت کرنا ہابی مذہب کی دلیل ہے کیونکہ وہ قرآن کو منسوخ مانتے ہیں اسکے برعکس مرزا صاحب اور تمہارا عقیدہ ہے کہ قرآن منسوخ نہیں لہذا دعوی اور دلیل میں مطابقت نہیں اسلیے بھی تمہارا اجرائے نبوت کا دعوئی باطل ہو گیا۔

جواب :7

نہ صرف اس آیت کریمہ میں بلکہ پورے قرآن مجید میں یہ کہیں بھی بیان نہیں ہوا کہ آپ ﷺ کے بعد آنے والے رسول اور نبی محمد رسول اللہ ﷺ ہی کی پیروی کرنے والے ہوں گے۔ بنی آدم کا لفظ عام ہے جو مسلم و غیر مسلم سب کو شامل ہے دوسرا یا اس آنے والے رسول پانی پر آیات کا نزول بھی لازم ہے۔ لہذا اس کا لازم ہے یہی نتیجہ یہ ہے کہ آپ سید عالم نے کے بعد جو نبی اور رسول کا آنا جائز رکھتا ہے وہ اس نبی کیساتھ شریعت کو بھی لائے اگر آئیں گے تو دونوں اکٹھے آئیں گے اگر شریعت نہیں آسکتی تو رسول بھی نہیں آسکتا ۔ جبکہ تم انتظام شریعت کے قائل ہو کہ اب شریعت کوئی نہیں آئے لیکن اسکے ساتھ ہی نبی کی آمد کو جائز تسلیم کرتے ہو جس سے خود بخود تمہارا اس آیت سے استدلال باطل ہو جاتا ہے۔

جواب : 8

آج تک پوری تاریخ اسلام میں کسی مجد و کسی مفسر اور کسی عالم نے اس آیت کا یہ معنی و مفہوم مراد نہیں لیا جو تم لے رہے ہو لہذا یہ اجماع امت کے بھی خلاف ہے۔


  • 1 الاعراف، 7: 35
  • 2 روحانی خزائن، جلد :21 ص: 127
  • 2 روحانی خزائن جلد :21 ص:144،روحانی خزائن جلد: 18 ص:477
  • 4 البقرۃ، : 38
  • 5 الاعراف، 7: 35
  • 6 الاعراف، 7: 35
  • 7 الاعراف، 7: 35
  • 8 تفسیر کبیر، جلد :14، ص: 19
  • 9 روح المعانی ، جلد :8، ص: 114
  • 10 جامع البیان ، جلد :5، ص: 134

Netsol OnlinePowered by